لا پتہ ہوکر واپس لوٹنے والے۔۔۔منصور ندیم

معروف ترقی پسند بلاگر علی سجاد شاہ  عرف ابو علیحہ جو  9 ماہ قبل لا پتہ ہوگئے تھے، ایک لمبی گمشدگی کے بعد کل رات    ان کو کراچی سے رہا کردیا گیا،سوال یہ ہے کہ کس نے رہا کردیا؟  ابو علیحہ  کو تو  نا معلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے ان عقوبت خانوں میں جہاں  سے رہا ہو کر آنے والے اکثر  زندہ واپس نہیں آتے ہیں ۔یہ  ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جو زندہ تو واپس آگئے لیکن جسم اور روح پر صدیوں کے گھاؤ  لے کر لوٹے ہیں۔۔

حیرت ہے کہ ایک ایسا ملک جو   اسلامی اور فلاحی  ریاست کا دعوی تو کرتا ہے اور اس کے عسکری ادارے اس ملک کی عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لیے  گئے ٹیکسز پر پلنے والی دنیا کی بہترین   دفاعی اور عسکری قوت کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن ان کی موجودگی میں یہ نامعلوم افراد جب،  جہاں اور جیسے چاہیں لوگوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔  آج تک ان نا معلوم افراد کے نہ ہی ٹھکانے معلوم ہوسکے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکی ہے  ،جب قانون کی عملداری قائم کروانے والے خود قانون کو کھیل بنا لیں، جب ریاستی عسکری  ادارے عدلیہ  سے دھونس و زبردستی سے فیصلے کروائیں، میڈیا کو کنٹرول کریں، اور قانون کی وردی میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کرنے لگیں تو اس ملک کی سلامتی اس ملک کے   اداروں سے ہی غیر محفوظ ہوجاتی ہے اور ملک کی موجودہ بد ترین حالت کے ذمہ دار ریاستی ادارے ہی  بن جاتے ہیں۔

سنا تھا  کہ ابو علیحہ کی وابستگی ایم کیو ایم سے ہے ، میری اس شخص سے یا ایم کیو ایم سے ذاتی طور پر کوئی وابستگی  نہیں رہی   اور نہ میں  ذاتی طور پرانہیں جانتا تھا، اس سے میرا تعلق فقط اتنا ہی تھا کہ یہ بھی ان افراد میں سے تھا جو اپنی سوچ اور فکر کی رفتار کو زمانے کی سوچ سے ملا کر چلنے پر راضی نہیں ہوا تھا۔ اس کا قلم بھی ریاستی یا سیاسی معاملات پر ہمارے اصل  حکمرانوں کو ان کا چہرہ دکھانے کی کوشش کرتا تھا،  فقط ایک سال سے بھی کم عرصہ  میں یہ ریاستی اداروں کے پاس رہا ہے، یہ عامر لیاقت حسین کے ایک پروگرام پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد لا پتہ کیا گیا، صرف نو ماہ میں اس کے جسم اور روح نے شاید  دہائیوں کی اذیت سہی ہوگی، اس ملک میں بد قسمتی سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو ابھی بھی ان عقوبت خانوں یا ماورائے عدالت و قانون غائب کرکے مار دئیے جاتے ہیں اور آج تک  ملکی سطح پر کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں ان کا تذکرہ تک نہیں کیا ،کیونکہ وہ اپنے اصل آقاوں  سے اس معاملے پر باز پرس کی ہمت ہی نہیں رکھتے۔

نو مہینے پہلے کے ابو علیحہ اور آج رہائی کے بعد کے ابو علیحہ کی تصاویر اس پر بیتنے والی داستان چیخ چیخ کر بتا رہی ہیں ۔ نو مہینے پہلے لکھے گئے میرے مضمون ” لا پتہ فریادیں ”  کے سارے سوالات آج بھی وہیں موجود ہیں جو میں نے ارباب اختیار سے کئے تھے۔اس ملک میں انسانی سطح پر سوال کرنا ، اپنے حقوق کی بات کرنا، اور شعور و آگاہی کے لئے سوچنا جرم بن گیا ہے شاید، یا تو ایسے ہی ایک ہجوم کی طرح جیتے جاؤ  اگر سوچو گے تو نا معلوم افراد اٹھا کر لے جائیں  گے۔

سوال اب بھی وہیں پر ہے کہ ابھی بھی نجانے کتنے لوگ ان عقوبت خانوں میں ظلم و ستم کی ایسی ہی چکی میں پس رہے ہونگے جو ابو علیحہ کی تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے ۔ میری دعا ہے جیسے ابو علیحہ گھر کو لوٹ آیا ویسے ہی اس ملک کے وہ تمام لوگ جو مختلف نا معلوم افراد کے عقوبت خانوں میں ہیں اپنے اپنے پیاروں کے پاس لوٹ آئیں۔ ابھی نئی حکومت بننے کا آغاز ہے اگر تحریک انصاف نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ہمیں تحریک انصاف سے کسی بھی انصاف کی امید نہیں رہے گی۔

ابو علیحہ کے پیج پر لا پتہ ہونے سے پہلے یہ آخری نظم تھی ، جو حیرت انگیز طور پر اس واقعے کو بیان کرتی محسوس ہوتی ہے ۔

ہر اک ہزار میں بس پانچ، سات ہیں ہم لوگ
نصابِ عشق پہ واجب زکوۃ ہیں ہم لوگ

دباؤ میں بھی جماعت کبھی نہیں بدلی
شروع دن سے محبت کے ساتھ ہیں ہم لوگ

یہ انتظار ہمیں دیکھ کر بنایا گیا
ظہورِ ہجر سے پہلے کی بات ہیں ہم لوگ

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں جلا کے کوئی شب گزار سکتا ہے
سڑک پہ بکھرے ہوئے کاغذات ہیں ہم لوگ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply