امتحانی پرچہ یا گھمسان کا رن

علامہ اقبال کے جنم دن پر ہونے والی افلاطونی بحثیں ابھی تک فیس بک کی دیواروں پر بال نوچ رہی تھیں کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے کچھ زیادہ ہی ’’اوپن‘‘ ہوتے ہوئے ’’نواں کٹا‘‘ کھول دیا۔ میٹرک کے امتحانی پرچہ میں سوال داغا گیا کہ اپنی بہن پر مضمون تحریر کریں۔سوال کا باہر آنا تھا کہ سوشل میڈیا اور پھر اسی کے طفیل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا۔گھمسان کا رن پڑا جو ہنوز جاری ہے۔فریقین کے نقصان کا اندازہ لگانا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ جب دھول بیٹھے گی تب اندازہ ہوگا کہ کس کی دم گئی اور کون چونچ سے محروم ہوا۔

خدا لگتی کہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ ایک علمی بحث ہوسکتی تھی جسے مگر افراط وتفریط نے ہنگامے میں بدل دیا ہے۔احترام کے ساتھ اپنا موقف سنایا اور سنا جا سکتا تھا، مگر گاؤں کی ’’پیڑی زنانیوں‘‘ کی طرح ایک دوسرے کو طعنے اور کوسنے دیئے جارہے ہیں۔اس سب ہنگامے کو دیکھتے ہوئے احمد ندیم قاسمی صاحب کا افسانہ ’’مائیں‘‘ یاد آتا ہے جس میں دو خواتین ایک دوسرے کو طعنے دیتی ہیں جس میں گھر سے فرار ہونے اور شادی سے پہلے اغوا ہونے کا تذکرہ ہوتا ہے۔

پہلی بات تودیکھی جانی چاہئے کہ یونیورسٹی انتطامیہ میں کون لوگ براجمان ہیں۔کیاان کا تعلق اس قبیل سے ہے جو خود کو ’’اسلامسٹ‘‘ لکھتے ہیں اور اصرار بھی کرتے ہیں کہ انہیں اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے، یا انتظامیہ میں ایسے افراد ہیں جو لبرل یا سیکولر ہونے کا دعوی رکھتے ہیں لیکن بحث کرتے ہوئے سیکولرازم کی مبادیات تک بھول جاتے ہیں۔میرے علم کے مطابق تو انتظامیہ اسلامسٹ ہے۔اگر ایسا ہے تو ان سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے کہ ایسا سوال پیپر میں کیونکر پوچھ لیا گیا جس سے ہنگامہ برپا ہے۔ اگر تو یہ کسی لبرل یا سیکولر کی سازش ہے تو اس کا بھی مناسب حل ہونا چاہئے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جائے جن سے بے ہودہ بحثیں جنم لیتی ہوں۔

لبرلز دوستوں کو اکثر مشورہ دیاجاتا ہے کہ جناب ہر وقت طعن اور طنز بھی بری بات ہوتی ہے۔محبت پیار اور دل جیتنے کی کوشش کرتے ہوئے بات کرنی چاہئے۔جب آپ طعنے دینے شروع کرتے ہیں تو آپ کا علمی موقف بھی دریا برد ہوجاتا ہے۔ اسلامسٹ حضرات کو بھی ایسے مواقع پر بجائے مزید طعنے اور بددعائیں دینے کے اسلامی تعلیمات کی خوبصورتی پیش کرنی چاہئے تھی نہ کہ اسی روئیے کا اعادہ کرتے جو ردعمل کی نفسیات پیدا کرتی ہے۔مگر افسوس اسلامسٹ طبقہ بھی شاید ان مواقع سے فائدہ اتھانے میں ناکام ہے جن سے اپنی بات پھیلائی اور منوائی جاسکتی ہے۔ المیہ مگر یہ کہ وہی روایتی طعن وتشنیع اور جذباتی باتیں۔کٹ مرنے اور واللہ اعلم کیا کچھ کرنے کی باتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں تک غیرت کی بات ہے تو اس پر بہت کچھا لکھا جا چکا ہے۔ بیانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔ ماحول کے زیر اثر غیرت کے معیار بدل بھی جاتے ہیں۔آخر وہ بھی تو غیرت کا نام لیتے ہیں جو کلہاڑیوں کے وار سے بہن بیٹیوں کا سر قلم کردیتے ہیں، غیرت کے نام پر بعض دفعہ ہم بے غیرتیاں بھی تو کررہے ہوتے ہیں ،لیکن بات ہونی چاہئے، مکالمہ ہونا چاہئے، دلائل کا تبادلہ ہونا چاہیے اپنی بات کاشائستگی سے ابلاغ کرنا چاہیے اور بس۔ب اقی باتیں معاشرہ پر چھوڑ دینی چاہئیں کہ غیرت کی آخری تعریف وہی کہلائے گی جو فرد کے نزدیک محترم ٹھہرے گی۔

Facebook Comments

راشد
صحرانشیں طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply