عام آدمی کا مسئلہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔قربِ عباس

مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ میں جو کہنے جا رہا ہوں وہ ہوسکتا ہے کہ میرے دوستوں کے لیے کچھ زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو کیونکہ ہم جیسے لوگوں کے لیے ایک عام آدمی کے مسائل کچھ خاص معنی نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس بہتر روزگار ہے، سر چھپانے کو اچھا مکان ہے، کسی نہ کسی طرح سے ایک بہتر زندگی جی رہے ہیں لیکن ہمیں اپنے سطحی مفادات کے حصول کی کوشش سے نکل کر ایک لمحے کے لیے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہمارے سماج میں موجود ایک عام آدمی کی زندگی کیسی ہے؟ کچھ کی آمدن تو ماہانہ پندرہ بیس ہزار سے بھی کم ہے، ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے ارد گرد موجود ہے۔

ان لوگوں کے لیے میٹرو کوئی معنی نہیں رکھتی، سڑکوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، بجلی کتنے گھنٹے جاتی آتی ہے یہ بھی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج دوپہر کی روٹی تو کھا لی ہے رات کی کیسے کھانی ہے۔۔۔؟

میں باقی تمام باتوں کو ایک طرف رکھتا ہوں صرف تعلیم پر فوکس کرتا ہوں تو انہی کے بچے ہیں جو کسی نہ کسی طرح انٹر تک اچھی بُری تعلیم پا بھی لیں تو آگے معیاری تعلیم کے لیے ان پر سارے راستے بند ہیں۔ جن والدین کی آمدن ہی سالانہ تین چار لاکھ سے بھی کم ہو وہ ایک سال میں بہتر تعلیم کے لیے ایک لاکھ کے قریب کی رقم کیسے ادا کریں گے؟ اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ آپ کی وہ یونیورسٹیاں جو کسی گنتی میں شمار کی جاتی ہیں، اسلام آباد، لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان جیسے بڑے شہروں میں ہی موجود ہیں، ان شہروں سے باہر بسنے والا انسان پہلے تو اپنے بچے کو لاکھ کے قریب بھر کر یونیورسٹی میں داخلہ دلوائے گا، اس کے بعد ہر ماہ کم از کم آٹھ سے دس ہزار رہائش کھانے پینے کا خرچ دے گا، تمام اخراجات دیکھیں جائیں تو ماہانہ بیس سے پچیس ہزار کا خرچ ہے اور سالانہ تین چار لاکھ روپے بنیں گے۔

سو جس کی سالانہ آمدن ہو ہی تین چار لاکھ سے کم وہ اپنے بچے کو بہتر تعلیم دینے کے سپنے بھی نہ دیکھے۔ اگر اس کے بچے کے پاس بہتر تعلیم نہیں ہوگی تو اس کے پاس بہتر روزگار نہیں ہوگا، بہتر روزگار نہیں ہوگا تو معیاری زندگی جینے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوگا، معیاری زندگی نہیں ہوگی تو ہم اس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور پھر پورے سماج کے رویوں پر ایک مرتبہ غور کر کے دیکھیں۔۔۔ تو شاید ہمیں پھر ادراک ہوگا کہ دراصل ایک عام انسان کا مسئلہ بھی ہمارا اپنا مسئلہ ہے۔

اور اب ہم سیاسی پارٹیوں کی جانب آتے ہیں، کوئی بھی ایک پارٹی جو یہ منشور رکھتی ہو کہ ہم تخت سنبھالتے ہی ایک عام آدمی کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنائیں گے۔۔۔؟

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ بڑے شہروں کے علاوہ دیگر شہروں میں بسنے والے عوام کے بچے اپنے شہر میں ہی رہ کر معیاری تعلیم پا سکیں؟

یا پھر ایسا ممکن ہے کہ وہ ان بڑے شہروں کی یونیورسٹیوں میں مفت تعلیم پا سکیں۔۔۔؟

اگر ہمیں بہتر مستقبل چاہیے تو اپنے مستقبل کے سرمایہ ‘نوجوان نسل’ پر توجہ دینی ہوگی۔ بہتر تعلیم ان کا حق ہے، بہتر روزگار کے مواقع ان کا حق ہے، بہتر اور معیاری زندگی ان کا حق ہے۔۔۔ ان کے حق کے لیے بات کریں، ان کے حق کے لیے آواز اٹھائیں، یہی بنیادی طور پر ہماری اپنی بہتری ہے، ہماری اپنی ترقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ووٹ جسے مرضی دیں، غور ضرور کریں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply