آپ پیسے ہی دے دیں ۔۔۔۔ عزیر سالار

کام والی کے لیے بڑا بہترین قسم کا مٹن الگ رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
آج عید کی چھٹیوں کے بعد آئی، اسے دیا تو کہنے لگی کہ اس کے پاس فریج نہیں ہے، پہلے ہی گھر میں گوشت پڑا خراب ہو رہا ہے، ہمیں گوشت نہیں چاہیے “آپ پیسے ہی دے دیں، امی کے پچھلے مہینے والے ہیپاٹائٹس کے انجیکشن ختم ہونے والے ہیں، نئے لینے ہیں۔

ادھر…. مکمل سکوت….
پھر میں نے سوچا پتہ نہیں یہ دین کے ٹھیکیدار امت کو زمانے کے ساتھ کیوں نہیں چلنے دیتے— آخر زمانے کی ترجیحات کے ساتھ چلنے میں انہیں کیا تکلیف ہے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ زمانے کو ہزاروں سال پیچھے دھکیلنا خدا کی کون سی خدمت ہے؟

انکے چھوٹے سے بند دماغوں میں بس اتنی سی بات نہیں آتی کہ یہ زرعی اور پولٹری انقلاب کا دور ہے اب جدید فارمنگ اور کنٹرول شیڈز کی موجودگی میں گوشت اور خوراک کا قحط بلکل بھی نہیں ہے یعنی خوراک کی قلت نہیں صرف غیر منصفانہ تقسیم ہے، قحط سالی نہیں جیسے ہزاروں سال پہلے ہوا کرتی تھی۔

کچھ سمجھ نہیں آیا تو ایک مثال سے سمجھیں فرض کریں آج غریب کے پاس اگر دو آپشن ہوں کہ پانچ سو روپیہ نقد لینا ہے یا پندرہ سو روپے کلو والا دیسی بکرے کا گوشت؟ تو وہ ضرور پانچ سو نقد لے گا اور اس سے ڈیڑھ سو کی مرغی خریدے گا اور بقیہ ساڑھے تین سو روپے کا آٹا، دال اور چینی… اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے خوراک سے زیادہ دوا کی ضرورت ہو اور یوں آپ ایک کلو گوشت کے بدلے تین غریب گھرانوں کے لئے ایک دن کی خوشی خرید سکتے ہوں۔

اب کیا کریں…
اللہ پاک نے تو مغز استعمال کرنے کے لیے دیا تھا، انہوں نے سمجھ لیا یہ آرگن بس قبر کے کیڑے موٹے تازے کرنے کے لیے ہے۔
خبردار اگر کسی نے آئی فون کا نام لیا تو…. آئی فون ثواب کی نیت سے نہیں لیا جاتا جبکہ بکرا آپ اللہ کو خوش کرنے، غریبوں کو خوراک دینے یا پھر پل صراط پر سے گزرنے کے لیے لیتے ہیں …. دھیان کرنا اگر آپکی ملازمہ بغیر دوا کے تڑپتی بددعائیں دیتی مر گئی تو یہ بکرا پل صراط پر ٹڈ مار کر گرا بھی سکتا ہے۔
فیر نہ کہنا اللہ میاں مولوی صاحب نوں وی پھڑو مینوں تے انہاں کُج دسیا ای نئیں سی—- آہو

چلیں یہ تو ہو گیا ایک زاویہ۔ اب عید الاضحٰی کو دوسرے رخ سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔
عید الاضحٰی مسلمانوں کا ایک شاندار تہوار ہے، یہ تہوار ایثار و قربانی کا درس دیتا دنیا کا شاید سب سے بڑا تہوار ہے۔۔۔۔
لیکن اب بہترین ذرائع ابلاغ کی مدد سے ہم بہت سی معلومات تک رسائی رکھتے ہیں اور بہتر نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ اب تک ہم یہ تو جان چکے ہیں کہ آج ڈیری، پولٹری اور زراعت میں انقلاب برپا ہونے کے بعد خوراک کے قحط پر بہت حد تک قابو پایا جا چکا ہے۔ مسئلہ صرف خوراک کی غیر منصفانہ تقسیم میں ہے۔ پھر یہ کہ مرغی کا گوشت اتنا سستا ہے کہ عموماً نچلا طبقہ اسے مہینے میں دو چار بار افورڈ کر ہی لیتا ہے اور اگر انہیں اس کے لیے رقم دی جائے تو زیادہ بہتر طریقے سے مینیج کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی گوشت اب کوئی ایسی ضروری چیز نہیں جس کے لیے تین دنوں میں ٹرلین ڈالر خرچ کر دیے جائیں، بلکہ کچھ دوسری چیزیں سرخ گوشت سے زیادہ اہم ہیں مثلاً آج علاج، روزگار اور تعلیم وغیرہ کے بغیر زندگی کا تصور ہی دھندلا ہے جبکہ سرخ گوشت کے بغیر آج تک کسی کو تڑپتے نہیں دیکھا گیا۔

اب واپس آتے ہیں دنیا کے بہترین سبق کے حامل تہوار اور مسلمانوں کے عظیم مذہبی فریضے عید الاضحٰی کی طرف- تو جناب اوپر والی تحریر کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اس عظیم تہوار کی شکل بدل دی جائے اور دس ذوالحجہ کو جانور قربان کرنے کی صدیوں پرانی روایت کو پرانا سمجھ کر ختم کر دیا جائے۔ ایسا بالکل نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی کرنا چاہیے، تہوار کی روح باقی رہنی چاہیے اور اس دن جیسا کہ اللہ پاک کی نظر میں خون بہانا سب سے پسندیدہ عمل ہے تو یہ فریضہ ضرور ادا کیا جائے لیکن آج اسکے کچھ قواعد و ضوابط طے کرنے کی ضرورت ہے۔

اب قواعد و ضوابط کیا ہوں، یہ طے کرنا کھلے ذہن کے علماء کرام کا کام ہے جو سطحی سوچ کے حامل لکیر کے فقیر نہ ہوں بلکہ امت کو زمانے کے ساتھ لے کر چلنے کا مشن رکھتے ہوں۔

میں حتمی طور پر تو نہیں جانتا کہ یہ قواعد و ضوابط کیا ہو سکتے ہیں لیکن آج اس مسئلے کا حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے اپنی رائے پیش کر رہا ہوں۔ مثال کے طور پر کچھ قواعد جو میرے ذہن میں ہیں وہ یہ کہ غیر ضروری طور پر مہنگا جانور خریدنے کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ یہ اسراف اور نمود نمائش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کے علاوہ ایک گھر کے لیے ایک سے زیادہ جانور قربان کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ مزید جو بہترین طریقہ ہو سکتا ہے وہ یہ کہ قربانی کے جانور پر کم سے کم سو فیصد ایثار ٹیکس عائد کیا جائے۔ یہ ٹیکس کی رقم سرکار اور عوام کی مشترکہ ٹیمیں دیانتداری سے فقراء میں تقسیم کرنے کا بندوبست کریں… اس سے ہم معاشرے میں بڑی تبدیلیاں دیکھیں گے مثلاً ایک گائے کی قیمت سے کسی بیروزگار کو روزگار مل جائے گا، ایک بکرے کی قیمت میں کسی کے سبھی بچوں کی سالانہ فیس کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔
یقین جانیں اس طرح انقلابی تبدیلیاں کر کے اس دن کو حقیقی “عید” میں
تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بس اکابر پرستی جو کہ “میں” کی بگڑی ہوئی شکل ہے (“میرے” اکابر) سے چھٹکارا اور خلوص نیت شرط ہے۔
یعنی ہمیں خلوص نیت کے ساتھ وہ سمجھنے کی ضرورت ہے جو خالق کائنات نے مخلوق کو اپنا کنبہ قرار دے کر ہم سے چاہا ہے۔
یہ بھی جان لیں کہ ہم سے پچھلے لوگ ہم سے زیادہ ذہین ہرگز نہیں تھے، اس لیے “عقل اور اخلاص” پر بھروسہ کر کے اللہ کا نام لیں اور زمانے کی ضرورتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی طرح امت کی حالت بدلے گی کہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جو قوم اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرتی ہے اللہ پاک اسی کا ساتھ دیتا ہے۔
یقین جانیں اس طرح انقلابی تبدیلیاں کر کے اس دن کو حقیقی “عید” میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”آپ پیسے ہی دے دیں ۔۔۔۔ عزیر سالار

  1. دلی مبارکباد. مکالمہ جیسے روشن خیال بلاگ میں چھپنے پر.
    ایک سائنسی اور منطقی ذہن بہت زیادہ گلکاریاں نہیں کرتا… منٹو اور عصمت جیسا تلخ ہوتا ہے.. یہی تلخی, جھنجھلاہٹ آپ کے ہاں بھی ہے اور بلاجواز نہیں ہے.
    آپ دیکھتے ہو کہ عوام کالانعام تو عقیدت کے بیل لیے گھوم رہے ہیں.. مقدس چوہدری چاہیں تو ان سے منظم مشقت لے کے نئے موسم کی کونپلیں نکلوائیں یا پھر ان کو سات حصوں میں قربان کر ڈالیں… عام آدمی کی عقیدت کو اسی کی فلاح کے لیے استعمال کرنا اگر مذہب ہے تو یہ سب وحشت ہے

Leave a Reply