میناکماری(3)-ناصر خان ناصر

مینا کماری 1 اگست 1933 کو پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا اصل نام مہ جبین تھا۔ پیار کا نام چنی تھا۔ ان کے شوہر انھیں پیار سے منجو کہتے تھے اور وہ ان کو چندن کہتی تھیں۔ مینا کماری نے 6 برس کی عمر سے فلموں میں بطور چائلڈ اداکارہ کام شروع کیا۔ تب ان کا نام بے بی مینا رکھا گیا تھا۔ انھوں نے کئی  فلموں میں گیت بھی گائے اور اپنی وفات تک لگاتار کام کرتی رہیں۔ حتیٰ  کہ کسی فلم کے چند مناظر ہسپتال کے بستر مرگ پر بھی ان پر فلمائے گئے کیونکہ ان میں بستر سے اٹھنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔

ان کا انتقال پُر ملال 31 مارچ 1972 کو ممبئی کے سینٹ الزبتھ کلینک میں محض 38 برس کی عمر میں ہو گیا تھا۔ انھیں کثرت شراب نوشی کے باعث جگر کا سرالسس ہو گیا تھا۔ وہ علاج کے لیے لندن بھی تشریف لے گئی  تھیں جہاں وہ ایک ماہ تک رہی تھیں اور ٹھیک ہو گئی  تھیں۔ ڈاکٹروں نے انھیں مکمل آرام کی تلقین کی تھی مگر وہ علاج مکمل کروائے بنا ہی بھارت واپس لوٹ آئیں اور واپس آتے ہی فلموں میں کام شروع کر دیا۔ بچپن میں ان کو تعلیم کا بے حد شوق تھا مگر ان کے والدین نے انھیں اسکول نہیں جانے دیا اور زبردستی فلموں میں کام کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ دن رات کام کر کر کے اپنے سارے کنبے کو پالتی رہیں۔ پھر ظالم باپ سے چھپ کر شادی کی۔ سال بھر میں ہی والد کو پتہ چل گیا اور انھوں نے ان کو گھر سے نکال دیا۔ شوہر کے گھر تشریف لے آئیں جہاں ان سے بہت بُرا سلوک کیا گیا۔ ان کی ساری آمدنی چھین لی جاتی تھی اور ان پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی  تھیں۔ ان پر بلاوجہ شک کیا جاتا تھا۔ شوہر کے جاسوس ہر گھڑی ان پر نظر رکھتے تھے۔ شوہر کی مار پیٹ پر بھی صبر و شکر کیا مگر جب شوہر کے اسسٹنٹ باقر صاحب نے بھی ان پر اپنا ہاتھ اٹھایا تو مینا کماری کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ گھر چھوڑ کر اپنی بہن کے گھر چلی گئیں اور طلاق کا مطالبہ کر دیا۔

کمال امروہوی صاحب نے بھی صلح صفائی کی کوئی  خاص کوشش نہیں کی۔ یوں اس جوڑے میں علیحدگی ہو گئی۔ تنہا اور اداس مینا کماری نے خود کو شراب کی نذر کر دیا۔ لوٹنے والے سارے خود غرض رشتہ دار پھر انھیں جی بھر کر لوٹنے لگے۔ انھیں سہارے کی تلاش تھی مگر تشنگی اور تنہائی  ہی ان کا مقدر تھی۔

وہ ساری عمر دل لگا کر کام ہی کرتی رہیں۔ انھوں نے99 سے زائد فلموں میں کام کیا اور اپنے ہر کردار کو گویا جان بخش کر زندہ کر دیا تھا۔ انھیں بھارت کی ٹریجڈی کوئین کا خطاب دیا گیا تھا۔ مینا کماری بہت عمدہ شاعری کرتی تھیں۔ انھیں کتب بینی کا بھی بڑا شوق تھا اور وہ فارغ وقت میں کتابیں پڑھتی تھیں۔ گڑیا اور پتھر جمع کرنا ان کے مشغلے تھے۔ ان میں ایک اور عجیب بات یہ تھی کہ وہ ہر کھانے میں حتیٰ  آئس کریم تک میں نمک ملا کر کھایا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب زندگی میں نمک مل سکتا ہے تو آئس کریم میں کیوں نہیں؟

انھیں رات کی بچی سوکھی روٹیاں اگلے دن کھانا بھی پسند تھا۔ وہ اپنے فلمسازوں سے مکمل تعاون کرنے کی عادی تھیں۔ اک عجب رکھ رکھاو، شان ، لکھنو ادب آداب اور شائستگی ان کے اطوار سے ٹپکتی تھیں۔ ان کی آواز میں عجب کھنک اور اک سوز سا تھا۔ ان کے ڈائیلاک ادا کرنے کا طریقہ بے حد منفرد اور فطری تھا اور انھیں آواز کے اتار چڑھاو، چہرے کے ایکسپریشن پر ملکہ حاصل تھا۔ ان کی فلم دائرہ میں ان کے چہرے پر کئی  منٹوں پر محیط ایک کلوز  اپ فلمایا گیا تھا جس کا تذکرہ گینز بک آف ریکارڈ میں بھی بطور دنیا کے سب سے لمبے کلوز اپ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح فلم صاحب بی بی اور غلام میں گیتا دت صاحبہ کی آواز میں ایک گانا “نہ جاؤ  سیاں چھڑا کے بئیاں، قسم ہے تم کو میں رو پڑوں گی ” ان پر فلمبند کیا گیا جو سارے کا سارا صرف بستر پر لیٹے ہوئے ہی ہے مگر مینا کماری نے اپنے ایکسپریشنز سے اس میں جان ڈال کر اتنا شاندار بنا دیا ہے کہ کوئی  بوریت محسوس نہیں ہوتی۔ مینا کماری نے فلم “میں بھی تو لڑکی ہوں” اور خواجہ احمد عباس صاحب کی فلم “چار دل چار راہیں” میں میک اپ کے ذریعے ایک کالی کلوٹی لڑکی کے کردار بخوبی ادا کیے۔

مجھے ذاتی طور پر ان کی فلموں “چتر لیکھا” ” بہو بیگم” اور “سہارہ” میں ان کی ایکٹنگ بہت اچھی لگتی ہے۔

چتر لیکھا کے ایک سین میں وہ بے بسی سے روتے ہوئے اچانک اک عجب کرب سے مسکرا دیتی ہیں تو ان کی فطری اداکاری اداکاری نہیں رہتی، اک ارفع آرٹ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
فلم بہو بیگم میں ان کا کردار بہت پاور فل تھا۔ اس فلم میں جب ان والد انھیں اپنی حویلی سے نکال کر دروازہ بند کر دیتے ہیں تو وہ اک لمحہ کرب و اداسی میں ڈوب جاتی ہیں، پھر ایک بلند چیخ مار کر ایسی دردناک آہ و بکا کرتی ہیں کہ دیکھنے والوں کا کلیجہ پھٹ جائے۔

یہ اتنا پاور فل سین تھا کہ اسے دیکھ کر فلم بینوں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا۔ ہر جگہ سینما گھروں سے لوگ سچ مچ روتے ہوئے نکلتے تھے۔

اسی طرح فلم سہارا میں انھوں نے ایک اندھی عورت کا کردار یوں ادا کیا کہ وہ پل بھر میں آنکھوں سے دیکھنے والی عام خاتون نہیں لگیں۔ اس فلم میں وہ جھولیاں اٹھا اٹھا کر روتے پیٹتے ہوئے ایک ظالم سیٹھ کو انتہائی  نفرت سے گالیاں و بددعائیں دیتی نظر آتی ہیں مگر اسی لمحے ان کو پتہ چلتا ہے کہ اسی سیٹھ نے ان کے بچے کی جان بچائی  ہے تو وہ بلکتی ہوئی اسے دل سے دعائیں دینے لگتی ہیں۔ ان لمحات کے ایکسپریشن کو انھوں نے سچ مچ یوں ادا کیا کہ ہماری آنکھوں سے بھی خودبخود آنسو جھر جھر بہنے لگے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply