گدھے ۔۔۔ عبد ال رؤف خٹک

ایک مرتبہ یوں ہوا کہ مجھے اچانک اک تحریر لکھنے کی سوجھی اور وہ بھی طنزو مزاح پر مبنی۔ ایک جانب یہ خیالات بن رہے تھے اور ساتھ ساتھ دوسری جانب دماغ میں اس تحریر کے حوالے سے شرارت بھی چل رہی تھی کہ کیا لکھوں گا اور کیسے لکھونگا۔ میں اپنے خیالات کو ایک جگہ جمع کرنے کے بعد میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ شام کو کام سے فارغ ہونے کے بعد مجھے اپنا وہ کام یاد آیا جسے ادھورا چھوڑ دیاگیا تھا۔ اب میں نے موبائل کھولا اور تحریر لکھنا شروع کردی۔

تحریر کا نام رکھا “ گدھے، گدھے ہوتے ہیں”۔ میں نے گدھوں پر لکھا لیکن میرا لکھا گدھوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر گدھوں میں ایسا کیا ہے کہ جب بھی تحریر پوری ہونے لگتی اسے یہ کہہ کر واپس کردیا جاتا کہ ابھی گدھوں کو رہنے دو اور اس طرح میری لکھی تحریر رہ جاتی اور اکثر مجھ سے ضائع ہوجاتی۔

پھر ایک دن طے پایا کہ ابھی گدھوں کو رہنے دو۔ گدھے نہ ہوئے انسان ہوگئے۔ ایک اور دن خیال آیا کیوں نہ گھوڑوں کو موضوع سخن بنایا جائے؟ کیونکہ گھوڑے ” گھوڑے ” ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ وہ طاقتور بھی ہوتے ہیں اور ہر کسی کو بھاتے بھی ہیں۔ 

پھر سوچنے لگا ،گھوڑوں پر لکھوں گا کیا؟ وہ تو اپنی صفات آپ ہیں۔ ان پر کیا لکھنا،ل۔ ان میں گدھوں والی کوئی بات ہی نہیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو گھوڑوں کے مقابلے میں گدھوں پر لکھنا آسان ہے۔ کچھ بھی لکھ سکتے ہو۔ُ گدھا وہ جانور ہے جو ہے تو شریف لیکن  جسے گدھا کہو تو برا نہیں مانتا۔ ایک دن میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ اگر گدھوں پر لکھنا پسند نہیں تو گھوڑوں پر لکھ دوں؟ محترم ہنسنے لگے اور کہا گدھوں پر دوبارہ لکھو۔ میں نے کہا گدھوں پر لکھ لکھ کر تھک چکا ہوں سدھرنے والے تو ہے نہیں۔ جناب نے پھر قہقہ لگایا۔

کبھی کبھار مجھے ایسا لگتا ہے کہ گدھے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ حقیقی گدھا جو ازل سے ہے ،تا ابد رہے گا۔ کچھ ایسے ہیں جو گدھے دکھائی دیتے ہیں کبھی کبھار سوچتا ہوں؟ گدھوں کا کیا کام اس دنیا میں ؟ ویسے اگر گدھے نہ ہوتے تو پھر ہم گدھا کس کو کہتے؟ کہتے ہیں کہ گدھے کے سر پر کبھی سینگ بھی ہوا کرتے تھے ،لیکن دیکھے آج تک کسی نے بھی نہیں۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ گدھے کے سر پر سینگ ہو یا سونے کا تاج، گدھا ہے گدھا ہی رہے گا۔ ویسے گدھے نے آج تک اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر یہ خود کو بدلنے کی کوشش کرتا تو آج یہ گدھا نہ ہوتا بلکہ یہ بھی ہم جیسا ہوتا۔

اچھا ہمارے یہاں محاورتاً انسانوں کو بھی گدھا کہا جاتا ہے لیکن اس صورت میں جب وہ انسان ” انسان” بن کر بھی گدھوں والی حرکتیں کرے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ انسان گدھا بن جاتا ہےلیکن گدھا کبھی انسان نہیں بنتا۔ یہی اک منفرد پہچان ہے گدھے کی کہ وہ کسی کی نقل نہیں کرتا لیکن انسان سب گدھے بنے پھرتے ہیں۔  سناہے گدھے گھاس شوق سے کھاتے ہیں لیکن گوشت نہیں کھاتے۔ ہم انسان ” جانور ” بن کر گھاس تو نہیں کھاتے لیکن انسان بن کر گدھوں کا گوشت ضرور کھاتے ہیں 

Advertisements
julia rana solicitors

اب سوچ رہا ہوں اس تحریر کو یہیں سمیٹنا شروع کردوں۔ یہ میری آخری تحریر ہوگی گدھوں پر۔ اس کے بعد گدھوں پر نہیں لکھوں گا۔ وجہ گدھوں کا ناراض ہونا۔ ویسے گدھوں پر بہت کم لوگ لکھتے ہیں۔ اس کی وجہ گدھوں کے بارے میں جانکاری نہ ہونا۔ ہم نے گدھوں پر اک عرصے بعد لکھا جب ہم یہ جان چکے تھے کہ اصل ” گدھے ” کونسے ہیں۔ کیونکہ اب اصل اور نقل گدھوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ یاد رکھیے گا، گدھے صرف شکل سے نہیں جانے جاتے بلکہ خصلتیں بھی دیکھنی پڑتی ہیں۔ اور اس کی پہچان ہر کسی کو نہیں۔ 

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply