سارے پادری و مولوی ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔ صفی سرحدی

فرانسیسی افسانہ نگار موپساں کو میں بہت مانتا ہوں کیوں کہ انہوں نے مجھے اپنی کہانی “was it a dream” کیا یہ کوئی خواب تھا” کے ذریعے دوسروں کی نجی زندگی کا احترام کرنا سکھایا۔ موپساں کی یہ کہانی دو محبت کرنے والوں کے بارے میں ہے۔ پیرس میں ایک دیوانہ ہوتا ہے، جو اپنی محبوبہ کو دیوانگی کی حد تک پیار کرتا ہے۔ اور اُس کی محبوبہ پورے ایک سال سے اس کے ساتھ   بِنا شادی   کے رہ رہی ہے۔ ایک شام اُس کی محبوبہ بارش میں خوب، بھیگی بھاگی، ہوئی گھر لوٹتی ہے اور دوسری صبح اُسے کھانسی شروع ہوجاتی ہے اور پھر مسلسل کھانسی اور سخت بُخار کی وجہ سے وہ بستر سے لگ جاتی ہے۔ ڈاکٹر آتے ہیں اور نسخے لکھ کر چلے جاتے ہیں اِسی طرح دوائیاں بھی آتی رہتیں ہیں جنہیں ہمدرد قسم کی خواتین پلاتیں رہتیں ہیں۔ اُس کی محبوبہ کے ہاتھ گرم رہتے ہیں اور ماتھا بھی جلتا رہتا ہے۔ جبکہ انکھیں تو انگارہ بن چکی ہوتی ہیں۔ اور پھر وہ بدقسمت دن بھی آجاتا ہے جب اُس کی محبوبہ آخری وقت کی انتہائی نحیف سانسیں لینی لگتیں ہیں۔ اس دوران جب نرس کی آواز” آہ” کہتی ہوئی گونجتی ہے، تو دیوانے کو علم ہوجاتا ہے۔۔۔ کہ اب اُس کی دنیا ہمیشہ کیلئے ویران ہوگئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی محبوبہ کی بند انکھیں دیکھ کر وہ پادری کو بلاتا ہے۔ پادری مری ہوئی لڑکی کو دیکھ کر اس سے پہلا سوال کرتا ہے۔ کیا یہ تمہاری داشتہ تھی۔؟
اپنی محبوبہ کے بارے میں پادری کے منہ سے داشتہ کا لفظ سن کر وہ سوچنے لگتا ہے کہ اس قسم کے سوالات کے ذریعے یہ میری محبوبہ کی ہتک کررہا ہے۔ پادری یا کسی اور کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی اخلاقی طور پر اُس کے لیے مناسب ہے کہ وہ ایسی عورت کی تذلیل کرے، جو مرچکی ہے۔ اس وجہ سے وہ غصے میں آکر پادری کو چلتا کردیتا ہے۔ پھر وہ دوسرے پادری کو بلا لیتا ہے۔ جو بڑا ہمدرد، نرم گفتار اور شائستہ مزاج نکلتا ہے۔ اس لیے جب وہ پادری اُس کی مری ہوئی محبوبہ کے بارے میں اچھے کلمات بولنے لگتا ہے تو اُس کی انکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply