پاکستان کے سلگتے مسائل اور واحدحل

پاکستان کے حالات ہم سب ہی جانتے ہیں۔ روزانہ ہی قتل وغارت، لوٹ مار، اغوا، ڈکیتیاں، کرپشن، اربوں روپے کے غبن، منی لانڈرنگ، اداروں کی بدحالی، محکمہ ہائے صحت، تعلیم اور خوراک کی بداعمالیاں، خواتین کے ساتھ ظالمانہ سلوک، ہرکمزور کا استحصال، ہر شعبہ زندگی میں مافیاؤں کی اجارہ داری، عدالتوں میں بے انصافیاں، بچوں کے ساتھ زیادتیاں، شرمناک ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ، اور اسی طرح کے اور بہت سے معاملات، لاکھوں سلگتے ہوے مسائل ہیں؛ جن پر روزانہ کی بنیاد پہ ہمارے لکھاری لکھ بھی رہے ہیں، صحافی بے نقاب بھی کر رہے ہیں، ہمارے دانشور نئے نئے مشورے بھی دے رہے ہیں۔ سب کچھ ہو رہا ہے مگر مسائل ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ روپ بدل بدل کے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ سیاستدان بس ایک دوسرے کو لعن طعن کرکے اور عملی طور پہ ایک دوسرے کی پردہ پوشیاں کرکے اپنے دن بہتر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مسائل تو ہین اور بے حد ہیں، اور ہر روز کچھ نئے مسائل بے نقاب بھی ہو رہے ہیں لیکن حل کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوتا، کیوں؟ آخر کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمارے ملک میں نیک لوگ نہیں ہیں؟ کیا ہمارے دیس میں اہل لوگ نہیں ہیں؟ کیا ہم قومی طور پہ شعور نہیں رکھتے؟ یا ہمارے دلوں پہ مہریں لگ چکی ہیں اور خون سفید ہو چکے ہیں؟ کیا کمی ہے آخر ہمارے اندر؟ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے جس بھی ادارے میں جتنے بھی اعلی ترین عہدوں کے لوگ ہوتے ہیں، یا ہمارے کسی بھی سطح کے حکمران، چاہے کتنے ہی قابل اور سمجھدار کیوں نہ ہوں، اپنے ذاتی مفاد کو ملکی و قومی مفادات پر بہت زیادہ ترجیح دیتے ہیں، اور اپنے ذاتی مفاد اور آسائش کے لئے کسی بھی ملکی اور قومی مفاد کو قربان کرنے میں ذرا بھر بھی نہیں جھجھکتےـ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں صرف ایک پارٹی اور مذہبی پارٹیوں میں صرف تین پاڑیاں ایسی ہیں جنکے اندر نہ تو کسی سطح پہ کوئی کرپشن ہے اور نہ ہی کسی بھی سطح پہ کوئی ضمیر و ملت فروشی اور نہ ہی کسی بھی طرح کا کوئی دنیاوی لالچ ہے۔ غیر سیاسی مذہبی جماعتوں میں تبلیغی جماعت پہلے نمبر پہ مخلص اور نیک لوگوں کی جماعت ہے، اور دوسرے نمبر پہ ہے جماعت الدعوہ، اور تیسرے نمبر پہ دعوت اسلامی ہے ـ جبکہ سیاسی جماعتوں میں واحد محب وطن اور بے لوث اور حقیقی باشعور جماعت ہے، جماعت اسلامی۔ یہاںممکن ہے کہ اکثر قارئین اپنی ذاتی وابستگیوں کی وجہ سے مجھ سے اختلاف کریں، مگر جو لوگ مکمل غیرجانبدار ہو کے جائزہ لینگے وہ جان جائیں گے کہ ملک کی ساری سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کا خواہ وہ صرف مذہبی ہیں یاصرف سیاسی یا سیاسی و مذہبی، سب کا مشاہدہ کیا جائےاور سب کی اندرونی حالت اور انکے ذمہ دار افراد (لیڈر شپ) میں شامل افراد کا جائزہ لیا جائے تو سب کچھ بلکل واضح ہو جاتا ہےاور جو حقیقت سامنے آتی ہے،
اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہی چار جماعتیں ملک میں ایسی ہیں جنکی ہر سطح کی قیادت اور عام ممبران بھی انتہائی ایماندار، دیانتدار اور ملک و قوم کے مخلص اور ہر لحاظ سے صاف ستھرے لوگ ہیں جبکہ باقی ہر جماعت میں اس کے کرتا دھرتاؤں میں کرپشن اور مفاد پرستی دیکھنے کو ملتی ہے ـ

یہ تو تھی موجودہ ملکی صورت حال، اب آتے ہیں اس صورت حال کے حل کی طرف۔ دنیا کی ساری تاریخ اٹھا کے دیکھیں، ملکوں کے حالات جان کے دیکھیں، کسی بھی مملکت میں ان سب بیماریوں کے سدباب کا جو ہمارے یہاں گھر کیے بیٹھی ہیں، ایک ہی حل ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے; ملکی قانون کی ملک کے ہر طبقہ پہ یکساں گرفت، اسی طرح ہر ادارے کے قوانین کی ادارے کے ہر فرد پہ یکساں گرفت۔ اب یہ تو عام سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ مملکت اسلامی ہو یا غیر اسلامی، قانون اسلامی شرعی ہو یا یاکوئی اور، جب قانون توڑنے کا بلا تفریق سخت محاسبہ ہوگا تو معاشرے میں کسی کا بھی استحصال مشکل تریں کام ہو جائے گا، اسی طرح ادارے بھی مضبوط ہونگے اور ہر ادارہ اپنا کام اچھی طرح سے کر سکے گاـ (قارئین گرامی،یہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ میں یہاں نظاموں کا تجزیہ نہیں کر رہا، بلکہ پاکستان کے حالات کو درست کرنے کے لئے حل سمجھانے کی کوشش میں ہوں)

اب یہ تو طے ہے کہ ملک میں آئین و قانون کی مکمل عملداری ہی ہمارے ان سلگتے ہوے مسائل کا واحد حل ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ;یہ ہونا کیسے ممکن ہے؟ یہ تو صاف اور بالکل واضح ہو چکا ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی قوتیں تو ایسا نہیں ہونے دینگی، اسی طرح عدلیہ، پولیس،اور انتظامی محکمے بھی جن حالات میں گھِرے ہیں،ممکن ہی نہیں کہ وہ قانون کی یکساں عملداری کو نافذ کر سکیں وہ سب ایسے جال میں جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے باہر نکلنا چاہ کر بھی ان کے لئے ممکن نہیں، اسکے علاوہ اسکی ٹھوس وجہ یہ بھی ہے کہ ان سب کے مفادات بھی تو ان ہی حالات سے جڑے ہوے ہیں، پھر کیا ہونا چاہئیے؟ تو اس سوال کا بہت سادہ اور منطقی جواب یہ ہےکہ “ہم عام مگر باشعور لوگ اپنے لیڈراور اپنے حاکم، اپنے ذاتی مفادات اورذاتی پسندو ناپسند کے بجائے ان لوگوں کو چن لیں جو وقعتاً دیانتدارخوف خدا رکھنے والے اور ملک و قوم کے مخلص ہیں”۔ جن ممالک میں قانون کی عملداری بہتر ہے، وہاں تو قانون کے ڈر سے لوگ دیانت دار رہنے پہ مجبور ہو ہی جاتے ہین، مگر پاکستان جیسی صورتحال میں دیانت دار اور مخلص لوگ وہی ممکن ہیں، جنکو خوف خدا ہو، اور جنکی ساری زندگیاں دین اسلام کی روشنی میں صاف ستھری گذرتی ہوں، جو صرف زرق حلال ہی کھاتے ہوں اور جو صبر و شکر کی زندگی جینا جانتے ہوں۔ اب ایسے افراد پاکستان میں انفرادی طور پہ تو ساری دنیا سے زیادہ ہیں، مگر بحیثیت جماعت اس اجلے کردار کی حامل جماعتیں صرف وہی چار ہیں جنکا اوپر تذکرہ کر چکا ہوں اور ان چار جماعتوں میں بھی تین تو انتہائی مخلص اور دیانتدار لوگوں کی ایسی جماعتیں ہیں جو کہ بدقسمتی سے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دئے بیٹھی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ جماعتیں جو کام کر رہی ہیں، اسکی اہمیت اور ثمرات بھی کم نہیں ہیں، ایک اچھا اور بہترین معاشرہ تشکیل دینے میں انکی بہت زیادہ خدمات ہیں، مگر انکے سیاست سے دور رہنے سے نقصان یہ ہوا ہےکہ بہت سے اہل اور دیانتدار افراد جو ملک و ملت کے لئے بہت کارآمد ثابت ہو سکتے تھے،نھیں ہو رہے اور انکے سیاست سے دور کی وجہ سے انکی جگہ سیاسی لیڈر مفاد پرست اور چور اچکے بن رہے ہیں ـ

اسکے بعد رہ جاتی ہے ایک واحد جماعت “جماعت اسلامی”۔ اس وقت ملک میں دستیاب یہی ایک ایسی جماعت ہے جو ملک میں قانون کی عملداری کو سب کے لئے یکساں طور پہ قائم کر سکتی ہےـ یہ بات میں کسی مفروضہ کی بنیاد پہ ہر گز نہیں کہہ رہا بلکہ اسکے کہنے کی ٹھوس وجوہات ہیں، ایک وجہ یہ ہےکہ اس جماعت نے جماعت اسلامی کے اندر اسکے اپنے قانون کی مکمل عملداری گلی محلہ کے عام ترین رکن سے لے کر جماعت کے مرکزی لیڈر تک گزشتہ ستر سالوں سے قائم کی ہوئی ہے، اور جماعت اسلامی کے ہر سطح تک کے تمام ارکان اس کے آئین و دستور کے یکساں پابند ہین، اور چونکہ یہ ایک خالص اسلامی نظریات پہ یقین رکھنے والےافراد کی جماعت ہے، تو اس میں وہ تمام انفرادی و اجتماعی معاشرتی خوبیاں بھی موجود ہیں جو دین اسلام نے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے ترتیب دے رکھی ہیں ـ اس ساری صورت حال کو سمجھ کر ہمارے پیارے ملک پاکستان کے ان سلگتے ہوے مسائل کا صرف یہی واحد حل رہ جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کو ملک کی باگ دوڑ سمبھالنے دی جائے۔ لیکن سوال پھر یہ اٹھتا ہے کہ ایسا بھی کیونکر ممکن ہو سکے گا؟؟ جبکہ ملک میں ہر طرف کسی نہ کسی مافیا کا قبضہ ہے، بڑی سیاسی جماعتیں ہر میدان میں ساری اہم جگہوں پر اپنے لوگ تعینات کر کے قبضہ جمائے بیٹھی ہیں، ہر علاقہ کے بااثر افراد، چوہدری، جاگیر دار، وڈیرے، عوام جنکی بات سنتی اور مانتی ہے، وہ سب ان ہی کے نمائندہ ہیں،؟ تو دوستو، اسکا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے تو اپنا تجزیہ کریں کہ، کیا ہم واقعی خلوص دل سے ملک و قوم کی فلاح چاہتے ہیں؟ اور اگر جواب ہاں میں ہو تو پھر اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی فائدوں، برادری ازم، علاقائی و لسانی، یا کسی اور طرح کے تعصب کو پسِ پشت ڈال کر معاشرے کے تمام اچھے اور دیانتدار لوگوں کو چاہے وہ جس بھی پارٹی و جماعت میں ہوں، جس بھی مکتبہ فکر سے ہوں ، اپنا حامی بنانے کے لئے نکل پڑیں، اور پھر سب کو ساتھ لے کر، جس جس حد تک جسکی ہمت اور طاقت ہو، جماعت اسلامی کے دست و بازو بننے کی کوشش کریں، اور اس جماعت کو اتنا مضبوط کر دیں کہ یہ ہماری اسمبلیوں میں ہماری نمائدہ بن جائے اور ہمارے لئے بھی اسی طرح کے عدل و انصاف اور فلاحی زمہ داریاں سر انجام دے، جیسے وہ پہلے ہی اپنے ہزاروں اراکیں کو اپنی حد تک دیّے ہوے ہے۔ سارے ملک کی ملکی وسائل سے ویسی ہی خدمت کرے، جیسی اپنے وسائل سے الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعے نادار اور مصیبت زدہ طبقوں کی کر رھی ہے، جس میں پھر بھلائی ہی بھلائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں یہ نہیں کہتا کہ جماعت کو مضبوط کر کے اسے بے لگام چھوڑ دیا جائے، ہر گز نہیں۔ جب ہم اسکا حصہ ہونگے تو اس کے ہر فیصلہ میں ہمارا اپنا بھی ایک حصہ اور کردار ہوگا، جماعت کے اندر کا مضبوط احتساب کا نظام، جو گزشتہ ستر سال سے جماعت کے ہر ذمہ دار کی پوری نگرانی اور مکمل محاسبہ کررہا ہے، اسی کے تحت وہ محاسبہ آگے بھی جاری رہے گا، جسکی بدولت یہ ممکن ہی نہیں ہوگا کہ جماعت کے ذمہ داران اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی برت سکیں۔ دوستو، یہ سچ ہے کہ یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مشکل سہی مگر یہی واحد اور ممکن حل ہے۔ اور یقین کیجئے کہ یہی واحد حل ہے ہمارے پیارے دیس کے سلگتے مسائل کاـ سوچئے گا ضرور۔

Facebook Comments

مبارک حسین انجم
لاہور میں سکونت ہے، ہومیو پیتھک ڈاکٹر ہوں، باقی میری تحریریں ہی میرا حقیقی تعارف ہیں-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply