الیکشن 2018 ہما کس کے سر بیٹھے گا۔۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

موجودہ دور میں ملک ایک خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے جس میں ہر طرف ایک بے چینی کی فضا قائم ہے ملک بھر میں جو حالات ہیں اس کے ذمہ داروں کا کوئی پتہ نہیں چلتا کوئی اس کو اب طالبان کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ تو کوئی بیرونی ہاتھوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرارہا ہے ۔ 2013کے الیکشن کی نسبت اس الیکشن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ الیکشن اتنے خطرناک نہیں ہونگے ۔ 2013میں انتخابی مہم کمزور ہوگئی تھی کیونکہ اس وقت طالبان طاقت میں تھے ۔ اب حالات پہلے سے نہیں رہے ۔ جو پہلے طاقت   تھی اب وہ کمر توڑدی گئی ہے ، مگر 2018میں ٹوٹی کمر کے ساتھ جب انتخابی جلسوں اورریلیوں میں دھماکے شروع ہوئے تو ایک خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔

اگر پشاور کی بات کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ حالات پھر اسی نہج پر آگئے ہیں جو پہلے 2008کے بعد سے2010تک تھے جس میں کچھ عرصہ کے لئے تبدیلی   آگئی تھی مگر اب پھر سے دہشتگردوں نے پشاور کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے جس سے شہر میں خاموشی کی فضا قائم ہوگئی ہے اور وہ شوروغل نہیں ۔دوسری جانب اس وقت جو ملکی حالات چل رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں ایک عام آدمی تو کیا اب تو مڈل کلاس کا بھی زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے ۔ ڈالر 128 تک پہنچ گیا ہے اور آمدنی کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں۔امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کی تیاری میں مصروف نظر آتی ہیں عوام بھی الیکشن کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2018کے الیکشن سے حالات معمول پر آجائیں گے غریب کو دو وقت کی روٹی میسر آ جائے گی ،جو بچے بیماریوں کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی سے گزر رہے ہیں ان کے لیے کسی مسیحا کا بندوبست ہو جائے گا۔جو بچہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر سکول نہیں جا سکتا اس کے لیے کسی سکول کا انتظام ہو جائے گا،موجودہ حکومت سے اس کی امید رکھنا اندھوں کے شہر میں چشمے اور گنجو ں کے شہر میں کنگھے بیچتے کے مترادف ہے۔

دوسری صورت میں الیکشن کا انتظار کرنا ہی اصل مسائل کا حل ہے۔ اگر الیکشن کا جائزہ لیا جائے تو نہیں لگتا کہ کوئی بڑی تبدیلی آئے گی، شاید چہرے تبدیل ہوں لیکن پالیسیاں وہی رہیں گی کیونکہ اس حکومت نے حالات اس قدر خراب کر دیئے ہیں کہ اگلی حکومت جو تحریک انصاف کی ہی کیوں نہ ہو، چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائے گی بہر حال اچھی امید رکھنی چاہیے ،پاکستان مسلم لیگ ن اور پی پی پی اور دیگر جماعتوں نے سیاسی حربے  استعمال کیے  ہیں ۔ دینی جماعتوں نے پھر سے ایکا کر لیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ان کی خیبر پختونخوا  میں حکومت رہی مگر آخری دنوں میں پھر انہوں نے راستے جدا کرلئے ،اب ان کی  آپس میں گاڑھی چھن رہی ہے ،صوبہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی پھر سے اُبھر کر سامنے آگئی ہے ۔ ہارون بلور کی خودکش دھماکے میں شہادت نے عوامی ہمدردی حاصل کرلی ہے ۔ جس سے ان کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا۔تحریک انصاف کی پشاور میں پوزیشن اتنی خراب نہیں ہے مگر ایم ایم اے اور عوامی نیشنل پارٹی ان کو ٹف ٹائم دے گی ۔

مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے راہ ہموار ہوچکی ہے ۔نواز شریف کی گرفتاری کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت تھوڑی بہت کم ہوئی ہے جس پر پاکستان تحریک انصاف کومیاں برادران کی بہت سی سیٹیں ملیں گی جبکہ دوسری جانب کے پی کے میں اے این پی کا ووٹ بنک خراب کرنے کی مکمل تیاریاں ہوچکی ہیں اور امید ہے کہ تحریک انصا ف کے پی کے میں عوامی نیشل پارٹی، پیپلزپارٹی، اور ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کا  ملکہ رکھتی ہے، مولانا فضل الرحمان کی  حیثیت اپنی جگہ قائم رہے گی ،ہوسکتا ہے ایم ایم اے کی بحالی کے بعد پنجاب اور کے پی کے میں جے یو آئی کچھ سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جائیں اور آئندہ حکومت میں جس کے ساتھ چاہیں مل جائیں ،البتہ کے پی کے میں اگر تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر ہوئی تو ایم ایم اے اور تحریک انصاف صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں سندھ میں متحدہ کو اس دفعہ مشکل سے ہی سیٹیں ملیں گی او رپی پی پی اور پاکستان تحریک انصاف کی برتری قائم رہے گی اگر میاں صاحب نے بہت تیر مارا تو ایک آدھ سیٹ سے زیادہ آگے نہیں جا پائیں گے البتہ کراچی کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔

ٹارگٹ کلنگ سے تنگ کراچی کی عوام کس کو ووٹ دے گی الیکشن سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن جن جماعتوں کو سپریم کورٹ نے کراچی کے حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اگر عوام دوبارہ بھی انھیں ووٹ دے تو حالات درست نہیں ہو سکتے کراچی میں اس بار تحریک انصاف کا سکہ چل سکتاہے اگر تحریک انصاف چند بلوچوں کو اپنے ساتھ ملالے اور حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھائے کیونکہ بلو چستان کے حالات اس قدر خراب ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی نئی تنظیم سر اٹھا سکتی ہے جو بلوچستان کے مستقبل کے لیے بہتر نہیں ہو گااگر اپوزیشن بشمول پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی،ایم ایم اے اور دوسری علاقائی سیاسی پارٹیاں پاکستان کے حالات درست کرنا چاہتی ہیں تو ان تمام جماعتوں کو الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا اپنانا ہو گا تاکہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کا راستہ روکا جا سکے کیونکہ پارلیمنٹ سے باہر کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو اور عوام کو بھی سوچنا ہو گا کہ اسے تمام تر صوبائیت اور لسانیت کی بنیا د پر ووٹ دینا ہے یا قائد اعظم اور علامہ اقبال نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اسے شرمندہ تعبیر کرنے والوں کو ووٹ دینا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دفعہ کے الیکشن پہلے کے ہونے والے الیکشن سے بہت مختلف ہیں جس کے بارے میں عمران خان کہتے آرہے ہیں کہ میرے پاس نوجوانوں کی سونامی ہے اور سونامی اس دفعہ سب کو بہا کر لے جائے گا ، اس میں شک بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان میں 60 فی صد نوجوان ہیں جو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے مگر جو پالیسیاں ہیں ان میں عمران خان کو بھی تھوڑی بہت تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔رہی بات  پی پی پی کی، تو وہ عوام کے سامنے ہے اگر اب بھی عوام ان پر اعتماد کریں گے یا پھر عوامی نیشنل پارٹی پر بھروسہ کریں گے تو یہ ان کی غلطی ہوگی یا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگی لیکن یہ بات تو آنے والے الیکشن میں طے ہے کہ حکومت کسی کی بھی اکیلے بننے کے چانسز نہیں ،اب الیکشن میں کس  پارٹی کو مینڈیٹ ملتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ جوڑ توڑ کا موسم ختم ہوچکاہے اور یہ موسم الیکشن تک جاری رہے گا جس میں بہت سے تناور درخت دوسری پارٹیوں کے صحن میں گر بھی سکتے ہیں یا ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply