جے آئی ٹی کے اداروں پر تحفظات اور عوامی مزاج

جے آئی ٹی کے اداروں پر تحفظات اور عوامی مزاج
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ اس وقت ملک میں جے آئی ٹی،پاناما لیکس،اور اس سے متصل سیاسی بیانات و حرکیات ہی عوامی توجہ کا محور و مرکز ہیں۔ اپنی روزمرہ کی تمام تر مشکلات کے باوجود عام آدمی کو پانامہ کیس کے منطقی نتیجے سے بھی گہری دلچسپی ہے۔پاناما لیکس کے حوالے سے کیس جب سپریم کورٹ میں لے جایا گیا تو اس کی مسلسل سماعت پہ بھی عوامی توجہ دیدنی تھی جبکہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس کیس کی مزید تحقیقات کے حوالے سے بنائی جانے والی جے آئی ٹی اور اس کے طریقہ تفتیش و تحقیق سے بھی شریف خاندان کے ہمدردوں سمیت عام پاکستانیوں کو بھی گہری دلچسپی ہے۔یاد رہے کہ حکومت کو اس حوالے سے بڑا سخت اعتراض ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے بیٹے حسین نواز اور حسن نواز کو جے آئی ٹی میں بلوا کر انتظار کیوں کروایا جاتا ہے،نیز یہ کہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے پر بھی شدید تحفظات حکومت نے ظاہر کیے اور عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔عدالت میں اس وقت پاناما کیس ،جے آئی ٹی اور اس سے متصل کئی ایک درخواستیں زیر سماعت ہیں۔
جہاں حکومت کو اس مرحلے پر جے آئی ٹی، اس کے اراکین اور اس کے طریقہ کار پر تحفظات ہیں وہی پر جے آئی ٹی کے اراکین نے بھی ریاستی اداروں پر سخت الزاما ت عائد کیے ہیں اور کہا ہے کہ انھیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کی جانے والی رپورٹ میں جے آئی ٹی نے الزام لگایا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ریکارڈز کی حوالگی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جبکہ یہ تمام ادارے متعلقہ دستاویزات میں جعلسازی اور چھیڑ چھاڑ کے بھی مرتکب ہیں۔واضح رہے کہ یہ رپورٹ خفیہ طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی تاہم بعد ازاں نامعلوم عناصر نے اسے میڈیا پر لیک کردیا۔تمام 6 تفتیش کاروں کے دستخط کے ساتھ جمع کروائی گئی جے آئی ٹی کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ اصلاحی ہدایات جاری کریں تاکہ حکومتی مشینری کا غلط استعمال روکا جاسکے۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ گواہان، جے آئی ٹی ممبران اور ان کے اہل خانہ کی سلامتی اور ان کی نوکریوں کا تحفظ یقینی بنائے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق، ایس ای سی پی کے گواہان سے تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ادارے کے چیئرمین ظفر الحق حجازی چوہدری شوگر ملز لمیٹڈ کے خلاف دائر منی لانڈرنگ کیس کو بند کرنے میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔رپورٹ میں دعوٰی کیا گیا کہ اس شوگر مل کے خلاف تحقیقات کا آغاز 2011 میں ہوا جبکہ 8 جنوری 2013 سے چیئرمین ایس ای سی پی کی ایما پر ان تحقیقات کو 2016 میں ختم کردیا گیا۔رپورٹ کے مطابق تحقیقات کو یوں ختم کیا جانا ایک مجرمانہ عمل ہے اور ان افراد کو مدد فراہم کرنے کے مترادف ہے جن کے خلاف یہ تحقیقات جاری تھیں۔ جبکہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں حسین نواز تصویر لیک اور جے آئی ٹی ارکان کو دھمکیاں موصول ہونے کے معاملے پر کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب جمع کرادیا ہے، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے اٹارنی جنرل سے رپورٹ کا پوچھا تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے رپورٹ نہیں دیکھی۔حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کا اعتراف کیا ہے، اسکے نتائج کیا ہونگے، اس سے بھی آگاہ کرونگا، جے آئی ٹی کا سی سی ٹی وی کیمروں پر کنٹرول نہیں، ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت زبانی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔
دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پاناما لیکس تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو بدنام کرنے اور اس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرادی۔پی ٹی آئی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف پاناما تحقیقات میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے عدلیہ اور جے آئی ٹی کے خلاف مہم شروع کروا رکھی ہے جبکہ عوام کے سامنے ایسا ظاہر کیا جارہا ہے کہ،حکمراں جماعت غیرقانونی جوڈیشل کارروائی کا شکار ہے۔
ہمیں یہ امر تسلیم کرنا پڑے گا کہ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔بعض تجزیاتی رپورٹس اس جانب بھی اشارہ کرتی ہیں کہ ایک طے شدہ عمل کے نتیجے میں شریف خاندان کو تمام الزامات سے با عزت بری کر دیا جائے گا۔لیکن یہ قیاس ہے ۔اصل بات قانون کی عمل داری اور ریاستی اداروں کا احترام ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں اداروں کے بجائے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے۔پاناما لیکس ایک مالیاتی سکینڈل ہے اور اس کی تحقیقات ضرور ہوں،اور نہ صرف وزیر اعظم اور ان کے خاندان سے بلکہ ان تمام افراد سے جن کے نام پانامہ لیکس کے آف شور ایشو میں آئے ہیں۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ،اگر وزیر اعظم صاحب جے آئی ٹی میں پیش ہونے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے تو اس سے ان کی اخلاقی ساکھ مضبوط ہوتی۔ مگر ہم ایسے بد قسمت معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اخلاقیات کے بجائے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔
موجودہ صورتحال میں، جو کہ عوام کے علم میں ہے، اس کے تحت عوامی ہمدردیاں جے آئی ٹی اورسپریم کورٹ کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ نہال ہاشمی کی دھمکی آ میز تقریر اور نون لیگ کے دیگر سیاسی کرداروں کا لہجہ خطرناک حد تک 1997 والا ہو چکا ہے۔ جس سے خدشہ ہے کہ وزیر اعظم کی پیشی کے موقع پر یا بعد ازاں حکمران جماعت اپنی سیاسی طاقت کا کوئی منفی استعمال کر سکتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو ملک میں انارکی پھیلے گی اور اس کا سرا سر نقصان جمہوریت اور جمہوری اداروں کو ہی ہو گا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”جے آئی ٹی کے اداروں پر تحفظات اور عوامی مزاج

  1. میں نے ایک پوسٹ پہ دیا ہوا اپنا ایک کمنٹ دیلیٹ کرنا ہے براہ مہربانی طریقہ کار بتا دیں یا خود ڈیلیٹ کر دیں

Leave a Reply