• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • پی ٹی آئی کے قافلے پر پولیس کی شیلنگ،حالات خطرناک رخ اختیار کر گئے

پی ٹی آئی کے قافلے پر پولیس کی شیلنگ،حالات خطرناک رخ اختیار کر گئے

طاہر یاسین طاہر

پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں دو نومبر کواحتجاج میں شرکت کے لیے خیبر پختونخوا سے آنے والے مرکزی جلوس میں شامل افراد اور پولیس کے درمیان صوابی کے قریب جھڑپیں ہوئی ہیں۔یہ جھڑپیں پیر کی شام ہارون آباد پل پر پولیس کی جانب سے رکھے گئے کنٹینر ہٹانے کی کوششوں پر شروع ہوئیں جس میں مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور جواب میں پولیس نے آنسو گیس نے استعمال کی۔اس جلوس کی قیادت کے پی کےصوبے کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کر رہے ہیں۔ قافلے کے ارکان موٹر وے پر کنٹینرز اور دیگر رکاوٹیں ہٹانے کے لیے کرینوں کا استعمال کر رہے ہیں۔جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ اس جلوس میں شامل کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری ہیں۔قافلے میں شامل خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نےغیر ملکی میڈیا کے نمائندے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا قافلہ پرامن تھا اور جیسے ہی موٹروے پر چھچھ انٹرچینج پر پہنچے تو پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی۔انھوں نے بتایا کہ تصادم کے بعد پولیس پیچھے ہٹ گئی ہے اور ان کے کارکن کنٹینر ہٹا رہے ہیں اور راستہ تقریباً صاف ہو چکا ہے۔مشتاق غنی نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے ان کے کارکنوں پر ربڑ کی گولیاں بھی چلائیں جن سے 15 کے قریب کارکن زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا مزیدکہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی قیادت اور کارکن دونوں پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اسلام آباد پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ یاد رہے کہ کے پی کے ،کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کارکنوں کے ہمراہ پیر کو اسلام آباد کے علاقے بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ تک پہنچنے کا اعلان کیا تھا۔اس پر وفاقی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ کسی مسلح جتھے کے ساتھ آتے ہیں تو انھیں اس گروہ کا حصہ تصور کیا جائے گا۔پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے سے روکنے کے لیے وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کو اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی موٹر وے اور جی ٹی روڑ سمیت تمام زمینی راستوں کو بند کر دیا ہے۔

موٹروے پولیس کے کنٹرول روم کا کہنا ہے کہ اس وقت لاہور سے پشاور موٹر وے مکمل طور پر بند ہے جبکہ لاہور سے اسلام آباد جی ٹی روڈ کھلی ہے لیکن اسلام آباد سے پشاور تک جی ٹی روڈ بھی بند ہے۔اس اقدام کو صوبے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے احتجاج کیا تھا کہ جبکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ان اقدامات کو ملک میں سب سے بڑا سکیورٹی رسک قرار دیا تھا۔دوسری جانب اسلام آباد میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بنی گالہ میں رہائش گاہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو پولیس نے گھیرے میں لیا ہوا ہے اور کسی بھی رہنما کو بنی گالہ جانے کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ بعض سرگرم کارکن جنگلوں کے راستے رہائش گاہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔سڑک سے عمران خان کی رہائش گاہ کا فاصلہ پانچ کلومیٹر سے زیادہ ہے اور وہاں تک پیدل پہنچنا کارکنوں کے لیے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس وقت بنی گالہ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ اسلام آباد کی طرف آنے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا۔ادھر صوبۂ پنجاب میں پولیس کا تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے خلاف ’کریک ڈاؤن‘ جاری ہے۔پولیس نے صوبے کے مختلف اضلاع میں رات گئے سے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد روانگی سے روکنے کے لیے پکڑ دھکڑ شروع کر رکھی ہے۔پنجاب پولیس کی سپیشلکے مطابق اب تک لاہور، ملتان، فیصل آباد، سرگودہا اور گوجرانوالہ سمیت مختلف شہروں سے 1900 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
حراست میں لیے گئے کارکنوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان تحریک انصاف کے یوتھ ونگ سے ہے۔۔ پنجاب بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنماؤں کے مکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے کارکنوں کو 31 نومبر کو تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بنی گالہ پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔پنجاب بھر میں مختلف شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکے لگائے گئے ہیں جن پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔خیال رہے کہ اسلام آباد اور پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کی جا چکی ہے جس کے تحت پانچ سے زیادہ افراد کے اجتماع اور لاؤڈسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔

یہ وہ ساری صورتحال ہے جو آئندہ کا نقشہ ترتیب دے رہی ہے۔تمام ٹی وی چینلز،ویب سائٹس اور جدید ابلاغ کے دیگر ذرائع لمحہ لمحہ کی خبر شائع کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی اسلام آباد پہنچ پائے گی یا نہیں؟ اور اگر عمران خان اسلام آباد پہنچ بھی گئے تو وہ کتنے افراد اپنے ساتھ لانےمیں کامیاب ہو سکیں گے؟ اور پھر کیا وہ قلیل تعداد کے ساتھ اسلام آباد کو ڈیڈ لاک کر سکیں گے؟ یہ وہ سولالات ہیں جن کا جواب قبل از وقت مشکل ہے البتہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت نے بھی پلان اے،بی اور سی ترتیب دے رکھا ہو گا۔ممکن ہے حکومت اپنے کسی پلان کے تحت بنی گالا والے قافلے کو آہستہ آہستہ اسلام آباد آنے دے مگر یہ خیال رکھا جائے گا کہ کارکن ضرور تھک جائیں اور ان کی تعداد بھی بہت کم ہو تا کہ انتظامیہ انھیں آسانی سے قابو کر سکے۔ سر دست مگر جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ نہایت خطرناک اور وفاق کے لیے تباہ کن ہے۔ ایک صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ کو ایک ایسے صوبے کی پولیس نے روک لیا ہے جس پر پہلے ہی دیگر تینوں صوبے شاکی ہیں۔پاکستان کے ایک صوبے کے لوگوں کا یوں راستہ روکنا کسی بھی طرح درست نہیں بلکہ اس اقدام سے صوبائی تعصب فروغ پائے گا جو وفاق کو یقیناً کمزور کر دے گا۔ اقتدار کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کی دھن نون لیگ کی حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور ملک کے لیے بھی خطرناک ہو گا۔سامنے نظر آ رہا ہے کہ ،کے پی کے کے مظاہرین رکاوٹیں ہٹانے کے لیے بندوبست ساتھ لائے ہیں۔پولیس انھیں شیلنگ کر کے روک رہی ہے،یہ سلسلہ آگے چل کر بڑے تصادم کی شکل اختیار کر لے گا۔ خدا نخواستہ اگر انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ پی تی آئی نے تو دو نومبر کو ڈیڈ لاک کرنے کا اعلان کیا ہوا تھا مگر حکومت نے یہ سب دو تین دن پہلے کر کے پورے ملک کے شہریوں کوتکلیف میں مبتلا کر دیا ہے۔ منتخب حکومت کا یہ روپ اور رویہ آمرانہ رویوں سے بھی سخت ہے جس کی مذمت کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔موجودہ صورتحال کسی بھی طرح سیاسی بلوغت کا اظہارنہیں بلکہ حکومت کے خوف اور ہیجان کا مظہر ہے۔کاش سیاست دان سیاست اور مکالمہ کو ترجیح دیں،الزام تراشیوں اور ریاستی جبر کے بجائے معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔یہی سب کے مفاد میں ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply