عبوری وزیر اعظم کااعلان،کیا یہی جمہوریت ہے؟

عبوری وزیر اعظم کااعلان،کیا یہی جمہوریت ہے؟
طاہر یاسین طاہر
سابق وزیر اعظم جو کہ عدالت عظمیٰ سے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل ہو چکے ہیں، ان کی صدرات میں گزشتہ سے پیوستہ روز مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔جس میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جذباتی خطاب کیا اور کہا کہ مجھے اس طرح کے سلوک کی امید نہ تھی، انھوں نے سوال اٹھایا کہ احتساب صرف ایک خاندان کا ہی کیوں؟ کیا باقی سب صادق اور امین ہیں؟جب میں نے استعفیٰ نہیں دیا تو نکال دیا گیا،ملک کو صحیح ڈگر پر لانے کے لیے ہر قربانی دوں گا۔ ہمیشہ کی طرح پارلیمانی ممبران نے تالیاں بجا کر اظہار یکجہتی کیا۔میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی کے بعد مسلم لیگ نون نے شاہد خاقان عباسی کو پہلے 45 دن کے لیے عبوری اور پھر شہباز شریف کو مستقل وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس عہدے کے لیے لیگی رہنما اور سابق وفاقی وزراء رانا تنویر حسین اور خرم دستگیر خان بھی مضبوط امیدوار تھے۔صدر مملکت نے نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے منگل یکم اگست کو سہ پہر تین بجے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں نئے قائد ایوان کا چنائو کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب،شہباز شریف لاہور کے حلقہ این اے 120 سے اپنے بھائی کی خالی ہونے والی نشست سے ضمنی انتخاب لڑیں گے اور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کر اسمبلی کی رہتی مدت کے لیے مستقل وزیر اعظم بنیں گے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد میں واقع پنجاب ہاؤس میں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے قبل وزیراعظم ہاؤس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں 4 گھنٹے طویل اجلاس منعقد ہوا جس میں پاناما فیصلے کے بعد پارٹی کی سیاسی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ہمیں اس امر میں تو کلام نہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں سوائے جماعت اسلامی کے کسی کا بھی رویہ جمہوری نہیں، بلکہ ان پارٹیوں کے فیصلے فرد واحد کے ہوتے ہیں، جنھیں برائے نام مشاورتی اجلاسوں میں توثیق دی جاتی ہے۔مسلم لیگ نون اپنے نام سے ہی ایک شخصی جماعت ہے۔اب جبکہ اس جماعت کے سربراہ ہی نا اہل ہو چکے ہیں تو کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، بشمول اس سوال کے کہ پارٹی کا آئندہ صدر کون ہو گا؟ اگرچہ قرائن ہیں کہ اس پارٹی کو رائے ونڈ سے نواز شریف ہی چلائیں گے، مگر تا بہ کے؟
یہ بات تسلسل سے کہی جاتی ہے کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا، یا یہ کہ ادارے مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتے۔ مگر اس سوال کو بھی فراموش مت کیا جائے کہ مینڈیٹ جمہوری روایات کے تسلسل اور پارلیمانی بالادستی کے لیے دیا جاتا ہے، نہ کہ خاندانی بادشاہتوں کو مستحکم کرنے کے لیے۔میرےنزدیک میاں نوازشریف صاحب کی نااہلی سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ،پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی جماعت کے پاس ایک بھی ایسا قابل شخص موجود نہیں جسے مستقل وزیر اعظم بنایا جائے؟نواز شریف صاحب کی نظر انتخاب اپنے ہی بھائی پہ پڑی اور یقیناً وزیر اعلیٰ پنجاب کی، وزارت اعلیٰ پنجاب کے لیے نظر انتخاب اپنے شہزادے حمزہ شہباز پہ پڑے گی۔اس حوالے سے میڈیامیں پہلے سے ہی مہم شروع کروا دی گئی ہے۔جمہوریت کے نام پر ذہنی غلامی کی اس سے کم تر مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ رویہ صرف مسلم لیگ نون کا ہی نہیں بلکہ خود کو جمہوریت کی چیمپئن سمجھنے والے جماعت پاکستانی پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔اگر محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی بالغ نظر سیاسی رہنما اپنی “وصیت “میں پارٹی قیادت کے لیے بلاول و زرداری کا انتخاب لکھتی ہیں تو یہ ان کی شہادت سے بھی بڑا المیہ ہے۔
یوسف رضا گیلانی صاحب کی نا اہلی کے بعد راجا پرویز اشرف صاحب کو وزیر اعظم بنائے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آصف علی زرداری ممکنہ طور پر فریال تالپور کو نا اہل نہیں کرانا چاہتے تھے۔جبکہ بلاول تو اس وقت پارلیمنٹ کے ممبر ہی نہ تھے۔جب شہ کے مصاحب کہتے ہیں کہ تاریخ عدالت کے اس فیصلے کو خود دیکھے گی، تو ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جناب آپ کی جمہوریت کو بھی تاریخ گہری نظر سے دیکھ رہی ہے۔اس وقت تک ملک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہو ہی نہیں سکتے جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہو گی۔ جس دن نون لیگ کی قیادت شریف خاندان سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ ،جماعتی الیکشن کے ذریعے آئی اور اسی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت زرداری و بھٹو خاندان سے ،جماعتی انتخاب کے ذریعے کسی دوسرے کے ہاتھ آئی تو اس وقت ملک میں جمہوری عمل کی ابتدا ہو گی۔
ابھی تک نواز لیگ ہو، یا پیپلز پارٹی، یا پی ٹی آئی،جمعیت علمائے اسلام (ف) ہو یا کوئی اے این پی،فیصلے فرد واحد کے ہوتے ہیں ،جنھیں جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔اس جمہوریت کے لیے مفادات کے اسیر لوگ تو دو چار خاندانوں کے غلام بنے رہیں گے مگر اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی استعمال کرنے والی نئی نسل، اب شریف و بھٹو خاندان کی نسلوں کی غلامی قبول نہیں کرے گی۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ممکن ہے اسی سیشن میں مسلم لیگ سے ہی کوئی “حقیقی مسلم لیگ “نکل آئے جیسا کہ اس جماعت کی روایت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک سیاسی جماعتوں کے سربراہان عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے، انھیں یوں ہی 62/63 کا ڈنگ لڑتا رہے گا۔کیا شریف خاندان سے زیادہ اہل کوئی نہیں؟ کہ وزیر اعظم آئندہ کے لیے مستقلاً شہباز شریف ہی ہوں گے؟ کیا پیپلز پارٹی میں کوئی اور اہل نہیں کہ بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی تیاریاں اور جوڑ توڑ کیا جا رہا ہے؟خاندانی جمہوریتیں عوامی مفادات کے بجائے خاندانی مفادات کے لیے کام کرتی ہیں اور خوشامدیوں کو انعام و اکرام سے نوازتی ہیں۔ویسے کیا عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایل این جی سکینڈل سے بچ نکلیں گے؟ اگر دوبارہ کھل گیا تو؟ اور کیا حدیبیہ پیپرز ملز کیس سے شہباز شریف بچ جائیں گے؟

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply