• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سرجیکل سٹرائیک کا عدم ثبوت اور پاکستان میں اتفاق رائے ۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

سرجیکل سٹرائیک کا عدم ثبوت اور پاکستان میں اتفاق رائے ۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

وزیراعظم کی زیرِ صدارت پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں شریک رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر پر حکومت کا ساتھ دینے اور مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتحال اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے بارے میں پیر کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بھارتی جارحیت اور لائن آف کنٹرول میں فائرنگ خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام مسلح افواج کے ساتھ مل کر کسی بھی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس اعلامیے میں تمام سیاسی جماعتوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ اعلامیے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ انڈیا مسئلہ کشمیر سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر رہا ہے.

پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں نے انڈین جارحیت کا موثر جواب دینے پر پاکستانی مسلح افواج کے اقدام کو سراہا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عوام اور تمام سیاسی جماعتیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی مکمل حمایت کرتی ہیں اور مطالبہ کرتی ہیں کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت حل کروایا جائے۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی اہمیت کے معاملات خصوصاً کشمیر کے حوالے سے ہم سب اکھٹے ہیں۔ ان کا کہنا تھا انڈیا اپنی جارحیت سے کشمیر کی تحریک کو کچل نہیں سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ کشمیریوں کی حالتِ زار کو عالمی اسطح پر اجاگر کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتھک کوششیں کی جائیں گی۔وزیرِاعظم نے سیاسی جماعتوں کے مشوروں پر ہر ممکن عمل کرنے کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ آج کے اجلاس سے پاکستان اور کشمیر کاز دونوں مزید مضبوط ہوئے ہیں۔

اجلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت کے ساتھ متعدد معاملات پر اختلافات کے باوجود وہ مسئلہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے معاملے میں وزیراعظم کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک متحد پاکستان ہی بھارتی جارحیت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘کشمیر کے تنازعے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم مسئلہ کشمیر پر یکجان ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ‘اقوام متحدہ میں وزیراعظم کا خطاب پاکستانی قوم کے جذبات نمائندگی کرتا ہے۔

دریں اثنا بھارتی حکومت کے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیک کے دعوئوں کی اصل سامنے آنا شروع ہو گئی ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا ہے۔ سرجیکل سٹرائیک جس کے بارے نریندر مودی اور بھارتی فوجی حکام کہتےنہیں تھکتے تھے ، جب اس بارے بھارتی مٰڈیا نے ثبوت مانگے تو بھارتی حکومت اور عسکری قیادت کے پاس اس کا کوئی ٹھوس جواب نہ تھا۔ راج ناتھ سے بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ ابھی تک سرجیکل سٹرائیک کی ویڈیو فوٹیج کیوں جاری نہیں کی گئی ہٰیں جبکہ اس حملے کے بارے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں جس کے جواب میں راج ناتھ کا کہنا تھا کہ ابھی اس حوالے سے انتظار کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ امر واقعی ہے کہ بھارتی سیاسی و عسکری قیادت نے اپنی شعلہ بیانی سے جنگی ماحول بنا دیا تھا جبکہ عالمی برادری کی سفارت کاری اور پاکستان کی جانب سے سخت ترین جوابی کارروائی کے پیش نظر بھارت عملاً کارروائی کرنے سے گریز پا رہا۔ اپنی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بالآخر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دے دیا گیا۔ جبکہ اس حوالے سے بھارت کوئی ثبوت اور دفاعی ماہرین کے سوالوں کے جواب نہیں دے پا رہا ہے جس سے یہ ثابت البتہ ہوتا ہے کہ سرجیکل سٹرائیک ایک شوشہ کے سوا کچھ بھی نہیں،جبکہ پاک فوج بھی اس حوالے سے اپنے ترجمان کے ذریعے بتا چکی ہے کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہی ہوئی ہے ، کوئی سرجیکل سٹرائک نہیں ہوئی اور اگر ایسا کیا گیا تو اس کا بھر پور جواب دیا جائے گا۔ بھارت کو یہ بات خوب معلوم ہے کہ پاکستانی قوم اپنے تمام تر سیاسی و فکری اختلافات کے باوجود یکجان ہے۔ وزیر اعظم ہائوس میںہونے والا پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس اس امر کا غماز ہے ۔ یہاں اگر مذہبی قیادتوں کو بھی یکجا کر لیا جاتا تو ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ اہم ہوتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply