امریکی سانپ کی کھال سے بنی چپل۔۔۔سعد اللہ شاہ

جون ایلیا نے کہا تھا: جانے کیا حادثہ ہے ہونے کو جی چاہتا ہے رونے کو مگر یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ بس ’’ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے‘‘ اور غالب نے کہا تھا کہ ’’مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں‘‘ میں کبھی سر پکڑ لیتا ہوں کہ پی ٹی آئی کے پاس کیسے کیسے نابغہ عصر موجود ہیں اور وہ نت نئے آئیڈیاز لے کر آتے ہیں کہ عقل شل اور حواس مبہوت ہوجاتے ہیں ’’جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی‘‘ قوم مہنگائی کی آگ میں جل رہی ہے پٹرول کی گرانی کے باعث ٹرانسپورٹر نے من مرضی کے کرائے بڑھا دیے ہیں۔ بے چارے مسافر رل گئے ہیں عید تو انہیں اپنے گھر کرنا ہی ہے مجبوری کا نام کچھ بھی رکھ لیں’’جنگل سے کب نکلتے ہیں آہو ڈرے ہوئے‘ پہلے انہیں شیر شکار کرتا تھا اور اب انہیں بلے سے ہانکا جا رہا ہے۔ نہایت معزز دوست نہایت دھیمے لہجے میں کہنے لگا’’یار سعد ! اتنے بے حس لوگ تو کبھی نہیں آئے کہ جنہیں عوام کے جذبات کا خیال تک نہیں‘‘ آپ یقین مانیے کہ ایک شریف النفس آدمی کے اس فقرے میں کتنا کرب اور اذیت چھپی ہوئی ہے۔ بندہ پوچھے آپ کم از کم عید ہی گزار لیتے۔ شاید یہ بھی آئی ایم ایف نے کہا ہو گا کہ مسلمان عید پر خوش نہ ہونے پائیں۔ مگر عمران خان کو کون سمجھائے کہ نیازی ان کی عادت ثانیہ ہے: جب توڑ لیا رشتہ ہی اس زلف رسا سے اب لاکھ وہ بل کھایا کرے اپنی بلا سے اب آتا ہوں میں اپنے اصل موضوع کی طرف جس کے لئے مجھے واقعتاً رونا آتا ہے کہ پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور خان صاحب کے مداح کیسے کیسے لوگ ہیں جو سرے سے زمینی حقائق سے لاتعلق ہیں اور اپنی دل پشوری میں لگے ہوئے ہیں ایک سرخی نظر نواز ہوئی کہ عمران خان عید کے روز سانپ کی کھال سے بنی ہوئی چپل پہنیں گے مجھے اس سے غرض نہیں کہ ساری خبر کیا ہے کہ ان کے مداح کی یہ خواہش تھی اور اس نے چار فٹ سانپ کی کھال سے یہ چپل تیار کروائی ہے اور اس کی قیمت ہزاروں میں ہے۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ اپروچ کیسی ہے۔’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘ آخر سانپ کی کھال ہی کیوں؟ ویسے ہی میرے ذہن میں منیر نیازی کے گھر میں ہونے والا واقعہ یاد آ گیا۔ اپنے قارئین سے شیئر کروں گا۔ منیر نیازی اور ریاض مجید بیٹھے تھے۔ نیازی صاحب نے کہا’’ریاض میرے گھر کے لان سے ایک خوبصورت رنگین سانپ نکلا۔ میری بیوی اسے مارنے لگی تو میں نے منع کر دیا کہ اتنا خوبصورت سانپ ہے‘‘ ریاض مجید نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ’’بھابی نے کہا کہ ایک ہی بہت ہے اس گھر میں‘‘ نیازی صاحب کہنے لگے ’’ریاض تینوں نال رکھنا ایویں اے پئی جیویں ڈب وچ سپ رکھنا‘‘ خیر یہ واقعہ تو برسبیل تذکرہ آ گیا۔ خان صاحب کو اس ناہنجار مداح سے پوچھنا چاہیے کہ یہ چپل چیتے کی کھال سے کیوں نہیں بن سکتی تھی۔ ویسے بھی خان صاحب اپنے سپورٹرز کو چیتے اورٹائیگرز کہتے ہیں۔ سانپ کو تو اس چپل سے کچل دینا چاہیے نہ کہ اسے پیروں میں ڈال لینا چاہیے بلکہ پائوں اس میں ڈال دیں۔ اب دیکھیے اس چپل پر سوشل میڈیا پر کیا اودھم مچتا ہے۔ سانپ کے شجرہ اور نسب کے بارے میں بھی سوال ہونگے۔ سانپ کوئی اچھی علامت نہیں بہرحال جس سانپ کی کھال سے چپل بنی ہے وہ آستیں کا سانپ تو نہیں ہو گا اور نہ وہ لڈو والا جس کے منہ میں آ کرکھلاڑی 99سے نیچے دس پر آ جاتا تھا۔ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل تو آپ سب نے کھیلا ہو گا۔ یہ سانپ خان صاحب کو سیڑھیاں ہی نہیں چڑھنے دیتے۔ حیرت ہے کہ مذکورہ مداح خان صاحب کے پیروں تک ہی محدود رہا۔ اس کی نظر چپل پر ہی گئی خدا کے بندے تو کوئی جناح کیپ ہی پیش کر دیتا۔ آپ نے خان صاحب کے سر کے بارے میں نہ سوچا نہ دھیان دیا۔ ایک اڑتا ہوا مصرع صوفی شاعر کا ذہن میں آیا’’ساڈے چم دیا جتیاں کرے کوئی‘‘ بہرحال لگانے والے نے ’’پاپوش کو لگائی گرہ آفتاب‘‘ میڈیا نے بھی بعض مقامات پر خان صاحب کی چپل کو زیادہ ہائی لائٹ کیا تبھی تو جوتا پیش کرنے والے نے چپل سے متاثر ہو کر یہ کام کیا۔ وہی جو مولانا ظفر علی خان نے کہا تھا’’شہر میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا‘‘ خیر جوتے کا ذکر تو متبرک جگہ بھی ہے کہ جب اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جوتے اتار کر وادی میں آئو‘‘ پر عمران خان تو پہلی مرتبہ مدینہ شریف جوتے اتار کر گئے تھے۔ اب کے چپل بہت مہنگی ہے اور ہے بھی سانپ کی کھال سے بنی! پی ٹی آئی والے یقینا اس کی کوئی نہ کوئی توجیہہ پیش کریں گے کہ آخر اپنے قائد کا دفاع بھی تو کرنا ہے۔ میرے معزز قارئین اصل بات تو میں نے آپ کو بتانی ہے کہ چپل کسی عام سانپ سے نہیں بلکہ امریکی سانپ کی کھال سے بنی ہے۔ یہ وہی سانپ ہے جس کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ۔’’بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ‘‘ اور یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ سانپ کی کھال سے تیار ہونے والی یہ پہلی اور واحد چپل ہے اور یوں یہ اعزاز صرف خان صاحب کے حصے میں آ رہا ہے۔ میرے اپنے خیال میں یہ کوئی اچھا تحفہ نہیں ہے کہ اب چپل بھی امریکی سانپ کی کھال سے بنی ہوئی پہن لیں۔ واقعتاً ہم سر سے پائوں تک امریکہ کے شکنجے میں ہیں ایک مرتبہ امریکہ نے ہمیں میکسی پاک گندم بھیجی تھی اور اسے اونٹوں پر لاد کر اونٹوں کے گلے میں پلے کارڈ لٹکائے گئے تھے جن پر لکھا تھا Thank you america۔خیر مجھے وہ غیرت مند شخص یاد آیا جس نے بش پر جوتا اچھالا تھا۔ اب تو جوتا ہی امریکہ سے آ رہا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ یہ چالیس ہزار میں بننے والی چپل شیخ رشید کو بیچ کر چالیس ہزار روپے صدقہ کر دیں یہ سانپ کی کھال سے بنی چپل شاہ محمود قریشی کو بھی دی جا سکتی ہے۔ پھر ایک مصرع ذہن میں آ گیا۔’’سپاں دے پتر کدی میتر نہیں ہوندے بھاویں چولیاں دودھ پلائیے۔ ویسے حیرت ہے کہ بھارت میں بہت زیادہ سانپ ہیں اور وہ اس کی تجارت بھی کرتے ہیں مگر ان کے ذہن میں سانپ کی کھال سے چپل بنانے کا خیال نہیں آیا۔یہ صرف پی ٹی آئی کے کارکن کو سوجھی جو امریکہ میں رہتا ہے: انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں اک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں خان صاحب کفایت شعاری کی بنیاد پربے زبان بھینس کو ترجیح دیتے ہیں مگر سانپ کی کھال کا جوتا جو چالیس ہزار میں پڑا ہے پہنیں گے۔ جب حکمران ایسے کام کرتے ہیں تو تکلیف ہوتی ہے۔ پچھلی حکومت میں بھی ایسے میلے ٹھیلے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92 نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply