• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • کالم
  • /
  • بھارت : تاریخی مساجد اور مسلم دورکے شاہکار نشانہ پر (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

بھارت : تاریخی مساجد اور مسلم دورکے شاہکار نشانہ پر (2،آخری حصّہ)۔۔افتخار گیلانی

جب بھارت کے اتر پردیش صوبہ کے ایودھیا شہر 1992 میں بابری مسجد کو مسمار کیا گیا ، تو مجھے یا د ہے ، تو کئی افراد کا استدلال تھا کہ اس جگہ کو ہندووں کے حوالے کیا جانا چاہئے تاکہ اس سے دونوں فرقوں کے درمیان نفرتیں کم ہو جائیں گی اور اس کے بدلے دیگر مساجد کے تحفظ کی گارنٹی لی جاسکتی ہے۔ چونکہ انہی دنوں پارلیمنٹ نے مذہبی مقامات ایکٹ 1991بھی پاس کیا تھا ، جس کی ر و سے بابری مسجد کے بغیر دیگر تمام عبادت گاہوں کی پوزیشن جو 1947میں تھی، جو ں کی توں برقرار رکھی جائیگی، اسلئے یہ بھی دلیل دی جا رہی تھی کہ اب بقیہ تمام مساجد کو قانونی تحفظ فراہم ہو گیا ہے، اسلئے مسلمانوں کو اب گھبرانے یا خواہ مخواہ ایشو بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اب بھارت میں پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کئے گئے اس قانون کو کالعدم کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم ویشو ہندو پریشدکے نشانہ پر ملک بھر میں 25ہزار مساجد و قبرستان اور وقف کی جائیدادیں ہیں، جو ان کے مطابق عہد قدیم میں ہندو عبادت گاہیں تھیں۔ دراصل الہٰ آباد ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ نے جس طرح بابری مسجد کے قضیہ سے متعلق اپنے فیصلوں میں قانون کو طاق پر رکھ کر عقیدہ کو بنیاد بنا کرمسمار شدہ مسجد کی زمین ہندو فریقین کے سپرد کی، اس سے شہہ پا کر ہندو تنظیمیں دیگر عبادت گاہوں پر حق جتا رہی ہیں۔ بابری مسجد کے کیس میں بھگوان رام کر فریق بنا کر اس کی طرف سے عرضی دائر کی گئی تھی۔ بالکل اسی طرح ان دونوں کیسوں میں بھی بھگوان وشیویشوراور بھگوان کرشن کو فریق بنا کر عرضی دائر کی گئی ہے۔ ایک عجیب و غریب استدلال میں سپریم کورٹ نے باضابطہ رام للا کو فریق مان کر مسجد کی زمین اسی کے سپرد کی اور سماعت کے دوران یہ بھی تسلیم کیا کہ چونکہ رام للا نابالغ ہے۔ اسی لئے ویشو ہندو پریشد کی سرپرستی میں ان کے وکیل سی ایس ویدیا ناتھن ان کا کیس لڑیں گے۔ مستقبل میں شاید ہی کوئی یقین کرے گا، کہ 21ویں صدی میںدنیا کے کسی جمہوری ملک کی سپریم کورٹ نے ایک اساطیری شخصیت کو فریق بنا کر اس کے دلائل ریکارڈ پر لاکر اس کے حق میں فیصلہ بھی سنادیا۔ مگر یہ اب ایک کھلی حقیقت ہے کہ قانون اور آئین کی پروا کیے بغیر عدالت نے کہا کہ Limitation of Law کا اطلاق ہندو دیوتائوں پر نہیں ہوتا اور نہ ہی ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان دیوتائوں کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔یہ بھی اب حقیقت ہے کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو ریٹائرمنٹ کے بعد اسی فیصلہ کی وجہ سے ا یوان بالا یعنی راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا۔ بنارس کی عدالت میں جب ہندو انتہا پسندوں کے وکیل نے گیان واپی مسجدپر دعوی درج کیا، تو پارلیمنٹ کے 1991کے قانون کا حوالہ دیکر اسکو پہلی سماعت کے دوران ہی خارج کردینا چاہئے تھا۔ مگر کورٹ نے کیس کو سماعت کیلئے نہ صرف منظور کیا بلکہ ایک سروے ٹیم بنا کرمسجد کے احاطہ کے سروے کرانے کا حکم دے دیا تاکہ معلوم کیا جائے کہ وہاں کسی مندر کے آثار تو نہیں ہیں۔ کیونکہ ہندو وکیل نے دعوی کیا ہے کہ مسجد دراصل پاس کے ویشویشور مند ر کا حصہ ہے۔ بلکل اسی طرح آثار قدیمہ کو بابری مسجد کی جگہ پر کھدائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ اس کی بنیادوں کے نیچے کسی مندر کے آثار پتہ کئے جائیں۔ خیر بابری مسجد کی بنیادوں کے بارے میں آثار قدیمہ نے یہ تو رپورٹ دی کہ 16ویں صدی میں جب مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس وقت وہاں کو ئی عمارت موجود نہیں تھی۔ ہاں اس جگہ پر جو آثار ملے، ماہرین کے مطابق وہ زیادہ سے زیادہ 11ویں یا 12ویں صدی کے ہوسکتے تھے ۔ یعنی مسجد کی تعمیر سے قبل 400سال تک اس جگہ پر کوئی عمارت موجود نہیں تھی، جس کو مبینہ طور پر مسمار کرکے مسجد بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ دستور میں موجود قانون حد یعنی Law of Limitation کو نظر انداز کرکے آثار قدیمہ یا اساطیری شخصیات کو فریق بنا کر اور عقیدہ کی بنیاد پر عدالتی فیصلے دینا نہایت ہی خطرناک رجحان ہے۔ دنیا میں شاید ہی کو ئی ایسی عمارت یا جگہ ہوگی، جس کے نیچے کسی نہ کسی قدیم تہذیب کے آثار نہ پائے جائیں گے۔ اسکو اگر واقعی بنیاد بنایا گیا تو بھارت میں شاید ہی کوئی مندر بچ جائیگا، کیونکہ ایک وقت پوری آبادی نے بدھ مت اختیار کیا تھا ۔ جب آدی شنکر اچاریہ نے ہندو ازم کا احیا کیا تو بدھ عبادت گاہوں کو مسمار کرکے مندر تعمیر کروائے گئے تھے۔ ایک اندازہ کے مطابق زمین کی عمر 4.54بلین سال کے لگ بھگ ہے اور اس میں انسانی آبادی کا وجود 50ہزار سال سے ہے۔ اس دوران کئی تہذیبوں یا انسانی آبادیوں نے اس کو آباد کیا ۔ پھر تلاش معاش کی وجہ سے یا تو ہجرت کرکے دیگر علاقوں کی طرف چلے گئے یا جنگوں یا آفات سماوی کی وجہ سے نیست و نابود ہو گئے۔ لہذا دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہوگا ، جہاں کھدائی کرکے کچھ نہ کچھ آثار برآمد نہیں ہونگے۔ اسی لئے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ کوئی شخص کسی جائیداد یا جگہ پر یہ دعویٰ کرے کہ ہزار یا کئی سو سال قبل یہ اس کے آباو اجداد کی ملکیت تھا، دنیا کے تمام ملکوں کے دستوروں میں قانون حد یعنی Law of Limitationشامل کیا گیا ہے، جس کی رو سے ایک خاص مدت کے بعد کوئی بھی عدالت ملکیتی دعویٰ کا کوئی بھی کیس سماعت کیلئے منظور نہیں کرسکتی ہے۔ اس قانون کی عملداری کی ایک واضح مثال لاہور کا شہید گنج گوردوارہ ہے۔ 1762ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں جب پنجاب برطانوی عملداری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ پریوی کونسل نےLaw of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ 1850ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ 1880ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitationکا حوالہ دیکر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔پاکستان بننے کے 74سال بعد بھی یہ گوردوارہ آب و تاب کے ساتھ لنڈا بازار میں کھڑا ہے۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی پاکستانی سیاستدان نے برطانوی عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ملک اور اسکے موجودہ حکمرانوں کیلئے شہید گنج گوردواے کا قضیہ ایک سبق ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply