ہاں میں جنگ چاہتا ہوں ۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد فیصل رفیق

ہم لوگوں میں سے زیادہ تر لوگ سیاست اور سیاستدانوں سے نفرت اور برات کا اظہار کرتے ہیں، اور سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے ہیں، مگر ہم خود نفرت کی سیاست کرنے میں زرا سی بھی جھجک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں آج کل جس طرح نفرت کا لاوا پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے، اس کے ذمہ دار نہ تو دونوں ممالک کے سیاست دان ہیں نہ ہی افواج کیونکہ ان کو ہم ہی اپنا لیڈر اور رہنما بناتے ہیں۔ اس ساری نفرت کے ذمہ دار ہم لوگ ہیں۔ بات صرف سوشل میڈیا پہ بیٹھے بڑے اور چھوٹے جنگجوؤں کی نہیں، یہ نفرت ہم لوگوں میں ایسے رچ بس گئی ہے جیسے نفرت ہم نے ماؤں کے پیٹ سے سیکھی ہے۔

کہتے ہیں محبت اور نفرت دونوں بہت کارآمد چیزیں ہیں بلکہ نفرت تو محبت سے بھی زیادہ کام کی چیز ہے کیونکہ نفرت میں انسان وہ وہ کام کر جاتا ہے جو محبت میں صرف سوچے ہی جاسکتے ہیں، محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والا Motivation یعنی حوصلہ افزائی وہ چیز حاصل ہونے پہ مدہم پڑ جاتی ہے مگر نفرت میں وہ قائم ودائم رہتی ہے۔ خیر بقول رومی نفرت ہو یا محبت دونوں کی زیادتی زہر ہے۔ ہم لوگوں نے نفرت کو پالنا تو سیکھ لیا مگر نفرت کو صحیح معنوں میں استعمال کرنا ابھی تک نہیں سیکھا، اس کی چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ جاپان اور امریکہ اک زمانے میں دشمن تھے اور اب بھی ہیں مگر انھوں نے اپنے لڑائی کے میدان بدل لیے ہیں، اور دونوں کی معیشت ہمارے مقابلے کہاں ہے ؟

ہمیں نفرت نہیں ہوتی تو بس اپنے لوگوں کی غربت سے نہیں ہوتی ہے، اگر نہیں ہوتی تو ناانصافی سے نہیں ہوتی، اگر نہیں ہوتی تو ہزاروں کی تعداد میں غیر طبی اموات سے نہیں ہوتی، انڈیا میں ہونے والے ریپ اور اموات سے نفرت نہیں ہوتی، پاکستان قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی سے نہیں ہوتی، اپنے مذہب و مسلک کے شرپسندوں سے نہیں ہوتی ، ہاں نفرت ہوتی ہے تو بس ہزار کلومیٹر دور اپنے جیسوں سے، اپنے جیسے مرنے والے، اپنے جیسے غربت کی آگ میں جلنے والے سے، اور نفرت بھی کیوں؟ کیونکہ الگ مذہب، مسلک، قومیت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سب بول رہے ہیں کہ جنگ نہیں ہونی چاہیئے، میں کہتا ہوں جنگ ہو، مجھے جنگ چاہیے، اور میں جنگ کا طلبگار ہوں، جنگ ہو اور ایسی ہو کہ اک دفعہ کرہ ارض کو یہ جنگ یاد رہے۔ ہاں میں جنگ چاہتا ہوں غربت کے خلاف ہاں میں جنگ چاہتا ہوں مہنگائی کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں ناانصافی کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں عدم برداشت کے خلاف ہاں میں جنگ چاہتا ہوں قومی، مذہبی اور مسلکی انتہا پسندی کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں کرپشن کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں نشے کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہاں میں جنگ چاہتا ہوں بے روزگاری کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں جہالت کے خلاف ہاں میں جنگ چاہتا ہوں نفرت کے خلاف، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں، ہاں میں جنگ چاہتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply