محمد رفیع کے جنازے میں لڑکیوں کی شرکت۔ صفی سرحدی

گیارہ جون 2014 کو میری ممبئی سے واپسی ہورہی تھی چونکہ میں دلیپ کمار سے مل کر دہلی واپس آرہا تھا اور راجدھانی ایکسپریس ٹرین کے سفر میں میری ہمسفر، پینٹ شرٹ میں ایک بہت ہی نفیس ہندو خاتون تھی جو میرے سامنے کی سیٹ پر براجمان تھی ۔ اسکی رنگت سانولی تھی اور عمر کوئی پچاس سال کے قریب ہوگی۔ اداکار تو مجھے دلیپ کمار ہی پسند ہے یہ تو اُسے پتا چل چکا تھا کیونکہ میں اتنی دور پشاور سے ممبئی صرف اور صرف دلیپ کمار سے ملنے کیلئے چلا آیا تھا۔ لیکن جب پسندیدہ گلوکاروں کے حوالے سے بات ہونے لگی تو میں نے حسرت سے کشور کمار کا نام لیتے ہوئے کہا، “افسوس وہ اب ہم نہیں رہے، اور گستاخی معاف آپ ہندو لوگ تو لاش کو بھی جلا  دیتے ہیں ورنہ میں کشور کُمار کی قبر پر  حاضری دینے کے بعد ہی ممبئی کو خدا حافظ کہتا”۔ یہ  سن اُس خاتون کے زبردست قہقے  بلند ہوئے  اور پھر مُسکراتے ہوئے کہنے لگی “واہ تم تو کشور کُمار کے بھی بہت بڑے فین ہو۔”۔ پھر وہ کہنے لگی مجھے تو محمد رفیع کی آواز بہت پسند ہے۔ میں نے اُن سے اتفاق کرتے ہوئے کہا اجی کون کمبخت ہوگا جسے محمد رفیع کی آواز پسند نہیں ہوگی۔ میں نے اُن سے پوچھا۔ “کیا آپ محمد رفیع سے زندگی میں کبھی ملی ہیں۔ ؟آپ ممبئی میں رہتی تھیں  اور تب تو آپ جوان بھی تھیں۔ ” میرے اس سوال پر اُس نے حسرت سے کاش کے (ش) کو لمبا کرتے ہوئے کہا۔ “کاش! میں اُن سے اپنی اور انکی زندگی میں تو نہیں مل سکی جسکا مجھے عمر بھر افسوس تو رہے گا  لیکن آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتی جاؤں کہ میں محمد رفیع کے جنازے میں شریک ہوئی تھی”۔ یہ سن کر میں ایک خوشگوار قسم کی حیرت میں مبتلا ہوگیا اور میں انہیں حیرانی سے دیکھتا چلا گیا۔  وہ کہنے لگی، “جس دن محمد رفیع کی موت ہوئی تھی خوش قسمتی سے اس دن اُنکا جنازہ ہمارے کالج کے سامنے سے ہی گزرنے والا تھا لیکن تب بدقسمتی سے کالج کے پرنسیپل نے بھیڑ کی وجہ سے کالج کا مین گیٹ بند کروا دیا اور جب میں نے کالج کا گیٹ بند ہوتے دیکھا تو مجھے ایسا لگا جسے کہ میرا دل بند کردیا ہو۔ اس وقت میرا دل شدید دُکھنے لگا اور تب میں نے بے قراری میں اپنی ساری سہیلیوں کو اکھٹا کیا اور انہیں بتایا کہ اب ہم سب کالج کی دیوار پھلانگ کر جائیں گے ۔  اس وقت میں فرسٹ ایئر میں پڑھ رہی تھی ۔ جیسے ہی محمد رفیع کا جنازہ ہمارے کالج کے سامنے گزرنے لگا تو میں نے سب سے پہلے کالج کی دیوار سے چھلانگ لگا ڈالی یہ کہتے ہوئے اس نے فاتحانہ انداز میں تالی آگے بڑھائی اور میں نے داد دینے کیلئے اسکی تالی قبول کی۔ وہ مسکرائی اور پھر کہنے لگی۔ میرے بعد میری ساری سہیلیاں بھی کالج کی دیوار سے چھلانگ لگا بیٹھیں اور یوں ہم سب اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوچکے تھے جو محمد رفیع کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا، “کہا جاتا ہے کہ ممبئی میں اُس وقت تک کا سب سے بڑا دیکھا جانے والا جنازہ محمد رفیع کا تھا جس کے پیچھے دس ہزار سے زیادہ کا ہجوم چل رہا تھا جس میں ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان تو ویسے بھی شریک تھے اور میں نے سنا ہے اس دن مسلسل بارش بھی ہورہی تھی”؟۔ تو انہوں نے بتایا جی بالکل آپ نے ٹھیک سنا ہے اُس دن تیز بارش بھی ہورہی تھی لیکن پھر بھی لوگوں کا ایک سمندر تھا جو کہ محمد رفیع کے جنازے کے ساتھ بہتا چلا جارہا تھا۔ 

 

Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply