بیگمات سے معذرت کے ساتھ ۔۔۔ عبدالرؤف خٹک

محفل میں اک سکوت سا طاری تھا کہ اچانک ہمارے اک بہت ہی بزرگ دوست ڈرامائی انداز میں محفل میں وارد ہوئے اور ھاتھ میں کیک کا ڈبہ تھامے اسے الہڑ نوجوان کی طرح ھاتھ میں لہراتے، گانا گاتے ہوئے گویا ہوئے “یہ لو، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے سب کو کھلادو”۔ ہم نے پوچھا سر یہ کیک کس خوشی میں ؟ ایک مرتبہ پھر بھنگڑا ڈالتے ہوئے بولے یار بیگم صاحبہ بچوں سمیت کراچی گئی ہے۔ گھر خالی ہے اور بڑا سکون ہے۔ بس یہ جملہ سننا تھا کہ محفل میں سارے شادی شدہ سر کی خوشی میں برابر کے شریک ہوگئے۔ یہ سب ایسے خوش ہوئے جیسے سب کے سروں سے بلا ٹل گئی ہو۔ وہا چند کنوارے دوست احباب بھی موجود تھے اور ہمارے ساتھ وہ بھی اس نہ سمجھنے والی خوشی میں شامل ہوگئے۔ اب کنوارے کیا جانیں خالی گھر کا سواد۔ ارے خالی گھر وہ گھر ہوتا ہے جس میں بیگم نہ ہو۔ 

پہلے پہل ہم سمجھتے تھے کہ بیگم پر گولہ باری کرنے کا عمل صرف ہماری طرف سے ہوتا ہے، لیکن جوں جوں شادی شدہ ہونے کا دورانیہ اور عمر بڑھتے گئے تو احساس ہوا کہ صرف میں ہی اس بلا کا مارا نہیں بلکہ سب ہی اس آسیب کے مارے ہیں۔

پہلے پہل تو ہم بیگم کو میکے جانے کی اجازت ہی نہیں دیتے تھے بلکہ لڑ پڑتے تھے کہ ابھی تو آئے تھے۔ اب حالات یہ ہیں کہ اگر ہمیں آج پتا چلتا ہے کہ بیگم نے پرسوں میکے جانا ہے تو ہماری خوشی یہ خبر سننے کے بعد ڈبل ہوجاتی ہے اور ہم اپنی خوشی کا ساماں اسی دن سے شروع کردیتے ہیں۔ ویسے بیگم کے ساتھ ساری زندگی گزارنا بھی اک کمال ہے اور یہ کمال ہر شادی شدہ مرد کو حاصل ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں ان کی شادی کو قریباً دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ چھے ماہ تو بڑی خوشی اور سکون سے گزارے لیکن اس کے بعد ہم نے اپنے دوست کو ہیلمٹ پہننے کا مشورہ دے دیا۔ وجہ شادی شدہ قاری خوب جانتا ہے۔ میں نے اک ساتھی سے پوچھا آپ کی بیگم گھر میں آپ کو پیار سے کس نام سے پکارتی ہے؟ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے یار وہ کیا پکارتی مجھے یاد نہیں لیکن میں انھیں پیار سے بلا کہہ کر پکارتا ہوں ،اور جب وہ اس لفظ پر احتجاج کرتی ہے تو میں انھیں اپنی اردو سے مرغوب اور قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ بلا کے معنی صرف بلا ہی نہیں بلکہ بلا کے معنی “بہت زیادہ” کے بھی ہیں۔ 

یاد رہے، بیگم وہی خاتون ہوتی ہے جسے پانے کے لئیے ہم سے تین بار پوچھا جاتا ہے کہ منظور ہے اور ہم تینوں بار آنکھیں بند کر کے کہتے ہیں ، ہاں! بابا منظور ہے دے تو سہی۔ پھر اسی منظور نظر کو ہم اپنی نظروں سے دور چاھتے ہیں۔ عورت سے شادی کرنا اور پھر اسے سنبھالنا یہ بھی ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ پر صرف شادی شدہ مردوں کو ہی عبور حاصل ہے۔

عورت کو اس بات پر بھی برتری حاصل ہے کہ وہ ساری دنیا سے تو ڈرتی ہے مگر اپنے ہٹے کٹے خصم سے نہیں ڈرتی۔ بیچارے خاوند کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتا مگر اک کمزور اور ناتواں قسم کی استری سے ڈرتا ہے۔ ہمیں ہمارا بچپن یاد ہے کہ جب ابو جی گھر تشریف لاتے تو اماں جی خدمت میں جت جاتیں۔ آج کے دور میں ابو جی گھر تشریف لاتے ہیں تو محترمہ عموماً  آدھی نیند پوری کر چکی ہوتی ہیں۔ اب ابو جی بھی وہ ابو جی نہیں رہے۔ سیدھا باورچی خانے کا رخ کرتے ہیں جو بھی گرم ٹھنڈا ملتا ہے اسی پر گزارہ کرلیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے اگر دیکھا جائے تو بیگم کے حوالے سے مرد زیادہ احتجاج کرتا ہے۔ مرد حضرات نے جتنی بھی تحریریں لکھیں ہیں خاص کر مزاح پر وہ زیادہ تر بیگمات پر ہوتیں ہیں لیکن عورتوں نے جتنا بھی لکھا انھوں نے مردوں کی طرح احتجاج نہیں کیا۔ میں نے بھی اس تحریر کے بعد فیصلہ کرلیا ہے کہ اب ہم نے کوئی بھی ایسی تحریر نہیں لکھنی جس میں بیگمات کی جگ ہنسائی کا ساماں ہو۔ یہ تحریر اس بزرگ دوست کے لئیے تھی جو بیگم کے جانے کی خوشی میں پھولے نہیں سما رہے تھے، امید ہے میری بیگم صاحبہ سمجھ جائیں گی۔ 

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply