کتھا ایک سرکس کی ۔۔۔ رمشاء تبسم

کیپیٹل ون ایرینا میں عمران خان کا جلسہ یا لگایا گیا مجمع  دیکھ کر مجھے احمد عدنان طارق کی لکھی گئی اٹلی کی کہانی “سرکس کا گھوڑا” یاد آ گئی۔ جبکہ موجودہ تحریر میں “گھوڑے”  کو معاذ بن محمود کی لکھی گئی تحریر”عمران خان کا امریکی خیر مقدم اور چند غیر (سنجیدہ) حقائق” میں مذکورہ “خچر” سمجھا لکھا اور مانا جائے۔

‏کہانی کچھ یوں ہے۔

جگمگاتی روشنیاں،مسحور کن موسیقی اور سرکس رنگ کی نرم نرم مٹی۔ یہ وہ زندگی تھی جو پائریلو کوپسند تھی۔ بلکہ اس سے باہر زندگی کے متعلق تو وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ جہاں تک اسے یاد تھا وہ فقط سرکس میں ناچنے والا گھوڑا ہی تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد اس نے یہی کام کیا تھا۔ اس کی تربیت اور حفاظت ہمیشہ کارلو نے کی تھی۔ یوں پائریلو، کارلوسے بہت محبت کرتا تھا۔

آج رات بھی پائریلو یہی کام کررہا تھا۔ پہلے وہ چاروں ٹانگوں پر ٹھمک ٹھمک ناچتا رہا۔ پھر اس نے اگلی دونوں ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیں اور اسی طرح ٹھمکے لگائے۔ آخر میں دونوں ساتھیوں نے لوگوں کی تالیوں کا جھک کر شکریہ ادا کیا۔ اگرچہ اس رات کی کارروائی بھی عام راتوں کی طرح ہی تھی۔ مگرپھر بھی پائریلو کو کچھ عجیب سالگ رہا تھا۔ جیسے کوئی انجانہ خوف ہو۔

جیسے ہی ڈانس ختم ہوا کارلو نے پائریلو کے کان میں کچھ بتایا۔ پائریلو کارلو کے جسم کے ساتھ اپنی تھوتھنی رگڑ رہا تھا۔ کارلو نے بتایا کہ کیونکہ وہ جس سرکس میں کام کرتے ہیں وہ ایک چھوٹا سا سرکس ہے جس نے کبھی بھی بہت زیادہ منافع نہیں کمایا لہذا سرکس کامالک اسے ختم کررہا ہے۔ کل وہ تمام ٹینٹ، سامان لانے والے ٹرک اور جانور بیچ دے گا۔ حتیٰ کہ تم بھی بِک جائو گے۔ پائریلو کی یہ بات سن کر غم کی انتہا نہیں رہی۔ کارلو نے اسے بتایا کہ اگر وہ بہت غریب نہ ہوتا تو اسے خود خرید لیتا مگر اب اسے کسی اور سرکس میں کام ڈھونڈناپڑے گا اور پائریلو بھی کسی مارکیٹ میں بِک جائے گا۔ یہ کہہ کر کارلوپائریلو سے رخصت ہو گیا۔

اگلے دن گھوڑے کو جانوروں کی منڈی میں بیچنے کے لئے بھیج دیا گیا۔ اب وہ منڈی میں خاموشی سے کھڑا تھا۔ ایک کے بعد ایک گاہک اسے دیکھنے آرہا تھا۔ پائریلو کو سرکس اور کارلو یاد آ رہا تھا۔ وہ سخت اداس تھا۔ آخر کار ایک کسان نے اسے خرید لیا۔ کسان کو پائریلو بہت پسند آیا تھا۔ وہ ایک تگڑا گھوڑا تھا اور کسان کو امید تھی کہ وہ اپنے ہل کے آگے پائریلو کو جوت لے گا۔ وہ اسے اپنے کھیتوں میں لے گیا اور ایک آدھ دن کے لئے اسے کھُلا چھوڑ دیا تاکہ اس کی ماحول سے شناسائی ہو جائے۔ پھر ایک صبح اسے اپنے کھیت میں اس کے پیچھے ہل جوت کر اپنی بنجرزمین میں چلانے لگا۔ گھوڑا بندھے ہوئے ہل لے کر زمین میں سیدھی کیاریاں تیار کرنے لگا۔ وہ کھیت کے ایک کنارے تک جاتا اور پھر واپس مڑ کر دوسرے کنارے تک آجاتا۔ کسان کو گھوڑے کی محنت دیکھ کربہت خوشی ہو رہی تھی مگر گھوڑے کا دماغ کہیں اور ہی تھا۔ ہوا سے سرسراتی گھاس، درختوں کے پتوں سے پیدا ہونے والا شور اسے واپس سرکس میں لئے جا رہا تھا جیسے وہ اور کارلو اکٹھے ہیں۔ جیسے موسیقی بج رہی ہے اور وہ ناچ رہا ہے۔ پھر اچانک وہ دنیا و مافیا کو بھول کر کھیت میں ناچنے لگا۔ کبھی دوٹانگوں پر اور کبھی چاروں ٹانگوں پر۔ وہ اندھا دھند ناچ رہا تھا۔اس کے پیچھے ہل بھی کھیت میں کبھی ادھر جا رہے تھے تو کبھی ادھر۔ کسان کی ساری زمین کا ستیاناس ہو گیا۔ وہ اسے روکتا ہی رہ گیا، مگر پائریلو تو ناچنے والا گھوڑا تھا۔ اس نے رقص تبھی ختم کیا جب اسے لگا کہ سرکس میں اس کا ایکٹ ختم ہو گیا ہے۔ اس نے جھک کے درختوں او ر گھاس کا اس طرح شکریہ ادا کیا جیسے سرکس میں بیٹھے تماشائیوں کا کرتا تھا اور پھر خاموش کھڑا ہو گیا۔

ظاہر ہے کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ ایک منڈی میں بِکنے کے لئے کھڑا تھا۔ گاہک آتے رہے، اور جاتے رہے۔ آخر کار اسے دودھ بیچنے والے ایک گوالے نے خرید لیا جو اسے لے کر دور اپنے مویشیوں کی طرف روانہ ہو گیا۔ اگلے دن اس نے پائریلو کو اپنی دودھ لے جانے والی گاڑی کے آگے جوت لیا جس پر دودھ کے کریٹ اور بوتلیں لدی ہوئی تھیں۔ سارا دن دودھ والے نے دودھ کی دکانوں پر سپلائی کیا۔ کبھی وہ سڑک کی ایک دکان پر رکتا اور کبھی دوسری۔ پائریلو سارا دن دودھ گاڑی کھینچتا رہا۔ پھر گھروں کی باری آئی اور تمام گھروں میں دودھ پہنچایا گیا۔ پائریلو محنت سے کام تو کرتا رہا مگر اس کا دل بدستور اداس تھا اور وہ مسلسل کارلو اور سرکس کو یاد کررہا تھا۔ لوگ کاروں اور سائیکلوں پر سوار اس کے قریب سے گزرر ہے تھے۔ اس کے ارد گرد بڑی چہل پہل تو تھی البتہ تھا تو وہ سرکس میں ناچنے والا گھوڑا ہی۔ اسے یہ سب پسند نہیں آ رہا تھا۔ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ہارن مستقل بج رہے تھے اور اسے سرکس کی موسیقی یاد آ دلا رہے تھے۔ بالآخر ایک وقت اس کی برداشت ختم ہوئی۔ پھر اس نے وہی کیا جووہ چاہتا تھا۔ اس نے بیچ سڑک میں ناچنا شروع کر دیا۔ کبھی چار ٹانگوں پر تو کبھی دو ٹانگوں پر۔ وہ ٹھمک ٹھمک ناچتا رہا۔ اس کے ادھر ادھر جانے سے دودھ گاڑی میں پڑے دودھ کے کریٹ ہلنے لگے اور دودھ کی بوتلیں سڑک پر گِر کر ٹوٹنے لگیں اور سڑک پر جیسے دودھ کی نہر بہنے لگی۔ گوالے نے پائریلو کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر پائریلو اپنے دل کی حسرت نکال کرہی رُکا۔ پھر اس نے مجمع کو جھک کرسلام کیا اور ان سے داد وصول کی۔ یہ وہ مجمع تھا جو اسے ناچتا دیکھنے سڑک پر جمع ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دو دن بعد پھر ایک مارکیٹ میں بِکنے کے لئے کھڑا تھا۔ گاہک آتے رہے اسے دیکھتے رہے مگرپائریلو کو ان کی کوئی پروا نہ نہیں تھی۔ وہ کارلو اور سرکس کویاد کرتا رہا۔

اس سے پہلے کہ کوئی نیا گاہک اسے خریدتا پائریلوکو دور کچھ رنگ برنگے سائبان نظر آئے۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے وہ سرکس کے ٹینٹ ہوں۔ وہ رسی تڑوا کر وہاں سے بھاگ نکلا۔ بھاگتا بھاگتا وہ ان خیموں تک پہنچا تو اس کی خوشی سے انتہا نہ رہی۔ واقعی وہ ایک سرکس کے ٹینٹ تھے۔ سرکس کے ٹینٹ خالی تھے کیونکہ ابھی سرکس کا شو شروع ہونے کا وقت نہیں ہوا تھا۔ لیکن موسیقی بجا کر مختلف کھیل تماشوں کی ریہرسل ہو رہی تھی۔

رِکی جو سرکس کا مالک تھا اس وقت ایک شعبدہ باز کا امتحان لے رہا تھا جو ایک وقت میں کوئی گیندیں کیچ کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر اس سے گیندیں سنبھالی نہیں جا رہی تھیں۔ آخر اس نے شعبدہ باز کو مخاطب کرکے کہا کہ کارلو یہ تمہارے بس کی بات نہیں یہ ملک کا سب سے بڑا سرکس ہے اور میں تمہیں اس میں کام نہیں دے سکتا۔ پائریلو نے کارلو کو فوراً پہچان لیا وہ فوراً اس کے پاس پہنچا اور پیار سے اپنی تھوتھنی اس سے رگڑنے لگا۔ کارلو کو بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا پائریلو اتنا خوش تھا۔ کہ وہ خوشی سے بے اختیار ناچنے لگا کبھی چار ٹانگوں پر اور کبھی دوٹانگوں پر۔ اور جب اس کا ناچ ختم ہوا تو اس نے جھک کر رِکی اور کارلو کو سلام کیا۔ رِکی پائریلو کے ناچنے سے بہت متاثر ہوا۔

ابھی یہ منظر جاری تھا کہ اسی اثناء میں گوالے کے ساتھ کئی لوگ پائریلو کو پکڑنے سرکس میں پہنچ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے پکڑپاتے۔ رِکی نے گوالے سے پوچھا کہ وہ گھوڑے کوبیچنا چاہتا ہے؟ گوالے نے اثبات میں جواب دیا اور مزید کچھ سنے بغیر اپنی رقم لے کر چلتا بنا جو اس نے پائریلو کو خریدنے پر خرچ کی تھی۔ وہ اس گھوڑے سے مزید دودھ کا نقصان نہیں چاہتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد رِکی نے کارلو کو بھی پائریلو کے ساتھ سرکس میں کام کرنے کی آفر کی جو اس نے خوشی سے قبول کرلی۔

اس طرح آخر کار دونوں دوست دوبارہ اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آئندہ کبھی علیحدہ نہ ہونے کا تہیہ کیا۔ اب پھر وہی سرکس تھی وہی موسیقی وہی جلتی بجھتی روشنیاں اور وہی پائریلو کی ٹھمک ٹھمک۔ یقینا یہ وہی زندگی تھی جو پائریلو اور کارلو چاہتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کہانی میں پائریلو کو خچر سمجھنے اور خچر کو دورہ امریکہ  کی قیادت کرنے والی شخصیت سے جوڑنے والا یقیناً کوئی پٹواری، جیالہ، یا ملک دشمن ہے۔ کیونکہ ملک دوست تو دھڑا دھڑ جلسے کی عظمت سے بھرپور تصاویر شئیر کر کے سستی روٹی، سستا علاج، سستی اور معیاری اعلی تعلیم، نوکریاں اور گھر حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کتھا ایک سرکس کی ۔۔۔ رمشاء تبسم

  1. ماشااللہ سے زندگی میں بہت سی گھٹیا تحریریں پڑھی ہیں ۔۔۔ لیکن آپ کی اس تحریر کے گھٹیا پن نے سارے ریکارڈ توڑ دئے ہیں ۔۔ اللہ آپ کو اس سے بھی مذید تنزلی عطا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین

    1. بہت شکریہ میرا ماننا ہے ۔بد دعا کرنے والا خود بد دعا کے اثر میں ہوتا ہے۔آپ پر نفرت نہیں ترس آ رہا ہے۔اور سچے دل سے دعا ہے اللہ آپ کو ہدایت دے اور آپ کے گٹھیا پن میں کمی واقع ہو۔آمین۔ ذیادہ طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

Leave a Reply