پنجاب کرپشن کہانی۔۔۔ایم مختار/حصہ اول

سابق  وزیراعلیٰ پنجاب اور خود ساختہ خادم اعلیٰ، جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب کی ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں جناب فرما رہے تھے کہ بیوروکریسی میں کام کرنے والے بہت سے نگینے ہیں مگر افسوس میں جس کا نام لوں اگلے دن اسے نیب پکڑ لیتی ہے، جس پر انہوں نے اور ساتھ بیٹھے لوگوں نے قہقہے لگائے۔۔۔۔۔

اسی طرح آپ نے اکثر ان کی زبانی سنا ہوگا کہ اگر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو تو عوام کا ہاتھ ہوگا، میرا گریبان، مجھے پھانسی پر  لٹکا  دیاجائے، میں ایک منٹ بھی نہیں لگاؤں گا اور کرسی چھوڑ کر چلا جاؤں   گا  وغیرہ وغیرہ ۔۔

حضور ! کرپشن تحقیقات اور انکوائریوں سے ثابت ہوتی ہے اور سب نے دیکھا کہ نیب نے آپ کے ایک ہیرو بیوروکریٹ احد چیمہ کو گرفتار ہی کیا تو آپ کی چیخیں نکل گئیں اور جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھیں ، یہ چیخیں بلند ہوتے ہوتے مریخ تک جا پہنچیں۔ جناب! اگر چوری نہیں کی تو تلاشی دینے میں کیا مسئلہ ہے؟ احد چیمہ اگر بے گناہ ہے تو کیسے نیب اس کو سزا دے گی؟ تمام معاملات فائلز اور ریکارڈ میں موجود ہیں، نیب کے  پاس پروفیشنل اور تجربہ کار ٹیمز ہیں اور چیئرمین جناب کی پارٹی کا لگایا ہوا ہے، ڈر کاہے کا حضور؟

اگر احد چیمہ نے کچھ گڑ بڑ یا کرپشن کی ہے تو ایک بیوروکریٹ کی کرپشن سےخادم اعلی کو کیا مسئلہ؟ انہیں تو کہنا چاہیے  تھاکہ کرپشن کی ہے تو اس کو سزا ملنی چاہیے مگر موصوف تو ایسے تڑپ رہے تھے جیسے احد چیمہ نہیں حمزہ شہباز کو گرفتارکیا گیا ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کے احد چیمہ ہی وہ طوطا ہے جس میں آپ کی جان ہے؟؟

تو قارئین ، ہم آپ کو مختصراً بتاتے ہیں کہ احد چیمہ کیا ہے؟
متوسط اور کم آمدنی والے خاندانوں کو چھت فراہم کرنے کی غرض سے آشیانہ قائد کے بعد، پنجاب حکومت نے آشیانہ اقبال کے نام سے ایک اور منصوبہ شروع کرنے کا پلان بنایا اور مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر، انکے بھائی ، احد چیمہ کے کچھ رشتے داروں اور دیگر میں سے کچھ فرنٹ مین  کا انتخاب کرکے انہیں مخصوص علاقوں میں لگ بھگ 3000 کنال زمین خریدنے کا ٹاسک دیا گیا۔ جیسے ہی خریداری مکمل ہوئی، خادم اعلیٰ صاحب کی حکومت نے اس منصوبے کا اعلان کرکے انہی لوگوں(کب اعلان ہوا؟)سے یہ زمینیں مہنگے داموں خرید لیں۔ جیسے ہی زمین کا کام مکمل ہوا، 20 جنوری 2015 کو پی ایل ڈی سی سے معاہدے کے تحت آشیانہ اقبال کا منصوبہ ایل ڈی اے کو دے دیا گیا جس کے ڈی جی احد چیمہ تھے۔

اسکے بعد اخبار میں ٹینڈر دیا جاتا ہے۔ پیرا رولز کے مطابق ہر خواہشمند کمپنی اپنی گزشتہ کارکردگی، پاکستان انجینئرنگ کونسل کا سرٹیفکیٹ اور دیگر کوائف جمع کرانے ہوتے ہیں جن کا جائزہ لیکر پیرا کسی کمپنی کو ٹھیکہ الاٹ کرتا ہے۔ پیرا نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے میرٹ پر ٹھیکہ چوہدری لطیف اینڈ سنز کو دیا۔ مگرپھر ایک دن اچانک خادم اعلیٰ نے ایک میٹنگ بلائی جس میں ڈی جی، ایل ڈی اے احد چیمہ نے بھی شرکت کی۔ اس میٹنگ میں خادم اعلیٰ نے آشیانہ اقبال کےلیے لطیف اینڈ سنز کا ٹھیکہ ختم کرنے کا حکم دیا جس کے لیے لطیف اینڈ سنز کو 19 کروڑ کا معاوضہ اور 50 لاکھ کلیم کے طور پر ادا کیے گئے۔

واضح رہے کہ قانونی طور پر خادم اعلیٰ ایسا کوئی حکم جاری کرنے کے مجاز ہی نہیں۔ اسکے بعد احد چیمہ نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے مارچ 2015 میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت خود ہی کاسا ڈویلپرز کو 14 ارب کا کنٹریکٹ دے دیا۔ کہا جاتا ہے کہ بڑے میاں صاحب نے ایک وفاقی وزیر کی سفارش کی تھی کہ اپنے اس بچے کا خیال رکھا جائے ۔

پانامہ فلیٹس والی آف شور کمپنیوں، نیلسن اور نیسکول کی طرح، کاسا ڈویلپر بھی ایک آف شور کمپنی تھی جس میں جوائنٹ ونچر کے تحت 3 سب کمپنیاں تھیں اور ان میں سے سب سے بڑی کمپنی بسم اللہ انجینرنگ تھی جس کے پاس اسکے 90 فیصد شیئرز تھے۔ یہ کمپنی پاکستان انجینئرنگ کونسل کے مطابق اس ٹھیکے میں شامل ہونے کی اہل ہی نہیں تھی۔ پی پی ایکٹ کی شق 14 (D, H, J) کے تحت کنٹریکٹ دینے سے پہلے جوائنٹ ونچر میں موجود تمام کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز کی تفصیلات حاصل کرنا لازمی ہے مگر احد چیمہ نے جے وی ممبران کی آپس کی ملی بھگت سے ایک ایم او یو منظور کیا جس میں ان تفصیلات کو پوشیدہ رکھا گیا تاکہ “اپنے بچے” کی معلومات کو خفیہ رکھا جاسکے۔ اس سارے کام سے عوام کو قریبا 73 کروڑ کا چونا لگا۔

اب تک یہ سارا کام انتہائی صفائی اور خاموشی سے جاری تھا مگر اس کو بےنقاب کیا پاکستان انجینئرنگ کونسل نے۔۔۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرف سے کمپنیز کو ان کے تجربے اور کارکردگی کی بنیاد پر ایک سپروائزری لائسنس دیا جاتا ہے جس میں کمپنیز کو C1 سے C6 تک مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان کی تقسیم ایسے ہوتی ہے کہ اگر ایک کمپنی سی 1 کیٹیگری میں 50 لاکھ کا ٹینڈر لیکر اچھا کام کرتی ہے تو اسے سی 2 کیٹگری کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے جس میں وہ ایک کروڑ تک کا ٹھیکہ لے سکتی ہے۔ اس میں اچھی کارکردگی دکھانے پر اسے سی 3 کیٹگری الاٹ ہوتی ہے۔ یوں جیسے جیسے کیٹیگری بہتر ہوتی جاتی ہے، کمپنی زیادہ مالیت کا ٹھیکہ لینے کی اہل ہوتی جاتی ہے۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرف سے بسم اللہ انجینئرنگ کمپنی کو سی 3 کیٹیگری کا ہی سرٹیفکیٹ ملا تھا جس کے مطابق وہ صرف 10 کروڑ مالیت کا ٹینڈر ہی لے سکتی تھی مگر احد چیمہ نے مبینہ “اپنے بچے” سے ساز باز کرکے اسے 14 ارب کا ٹھیکہ دے دیا اور یہی ٹھیکہ ان کے گلے پڑگیا۔ اس کام کی رشوت کے طور پر موضع تیڈھا میں احد چیمہ نے اپنے بھائی سعود چیمہ، بہن سعدیہ منصور اور کزن احمد حسن کے نام پر 32 کنال زمین لی جس کی مالیت قریباً 31 ملین روپے بنتی ہے۔ یہ رقم پیراگون سٹی کے ذریعے ایک بنک اکاونٹ سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہوتے بالاخر اس زمین کی ادائیگی کےلیے استعمال ہوئی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply