مانچسٹر میں داعش کی دہشت گردی

مانچسٹر میں داعش کی دہشت گردی
طاہر یاسین طاہر
یورپ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔مسلم دنیا بھی دہشت گردوں کے فکری رویے کی سزا بھگت رہی ہے۔افغانستان،عراق،شام،لیبیا،پاکستان،صومالیہ سمیت کئی ملک القاعدہ،النصرہ،الشباب،طالبان کے مختلف گروہوں،لشکر جھنگوی،جند اللہ سمیت کئی تنظیموں کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔یعنی ساری دنیا ہی وحشیوں کے نشانے پر ہے۔حیرت انگیز طور پہ یہ سب دین کی سر بلندی کے نام پر ہو رہا ہے اور اس سے بھی افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے فکری، معاشی و رہائشی پشت بان یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ بلکہ وہ تازہ بیانیہ تراش رہے ہیں کہ دہشت گردی کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ بے شک دین کا دہشت گردی سے کیا تعلق؟اسلام اپنے نام سے ہی سلامتی اور امن کا دین ہے۔پھر ایسا بیانیہ تراشنے کی ضرورت کیا؟
در اصل اس بیانیے کی تراش خراش کرنے والے اس خوف سے نفسیاتی چھٹکارہ چاہتے ہیں جو انھیں لاحق ہے۔وہ اسے ردعمل کہتے ہیں۔امریکی اور برطانوی پالیسیوں کا۔کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم کا۔بوسنیا اور روہنگیا مسلمانوں کی مدد کا جواز وہ اس بیانیے میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ حق نہیں بلکہ تکلیف دہ جھوٹ ہے۔کیا القاعدہ ،النصرہ،طالبان اور اب ان سب سے خونخوار داعش ایک عالمی خلافت کا خواب نہیں دیکھ رہے؟یقیناً دیکھ رہے ہیں۔غزوہ ہند کے نام نہاد مجاہدین اپنے فہم میں علیحدہ سے غلبہ اسلام کے لیے قتال کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔بہت سی جزئیات مل کر آخری تجزیے میں مذہب کی سر بلندی اور ایک خاص فہم اسلام کے فروغ کے لیے انسان کشی پر آمادہ ہیں۔مانچسٹر میں کنسرٹ کے اختتام پر ہونے والے کود کش حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم داعش نے یہ کہہ کر قبول کی کہ یہ حملہ خلافت کے ایک مجاہد نے کیا ہے۔
برٹش ایرینا میں خودکش دھماکا کرکے 22 افراد کو قتل کرنے والا حملہ آور مانچسٹر میں مقیم لیبیا سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں پیدا ہوا جو سابق ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں اپنا آبائی وطن چھوڑ کر برطانیہ آئے تھے۔برطانوی میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس 22 سالہ حملہ آور سلمان عابدی کے بارے میں یہ جاننے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ اس نے یہ دھماکا اکیلے کیا یا اس کے پیچھے کوئی نیٹ ورک بھی موجود تھا۔ ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق عابدی کا خاندان جنوبی مانچسٹر کے علاقے فیلو فیلڈ میں 10 سال سے مقیم تھا۔پولیس کے مطابق برٹش ایرینا دھماکے میں ملوث ہونے کے شبہ میں شہر کے جنوبی حصے سے ایک 23 سالہ نوجوان کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔دریں اثنا برطانیہ کی وزیر اعظم ٹریزا مے نے خبردار کیا ہے کہ مانچیسٹر حملے کے بعد برطانیہ میں کسی بھی وقت اگلا حملہ ہو سکتا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے خطرے کی سطح کو بڑھا دیا گیا ہے۔
برطانیہ میں حکومت نے مزید حملوں کے امکان کے پیشِ نظر خطرے کی سطح کو بڑھا کر “کریٹیکل “کر دیا گیا ہے جبکہ تمام اہم عمارتوں کی نگرانی کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ فیصلہ منگل کی شام کابینہ کی “کوبرا کمیٹی “کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔اس پہلے برطانیہ میں جولائی 2005 میں بھی زیر زمین چلنے والی ٹرینوں میں مسلسل دھماکے ہوئے تھے جن میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ان حملوں میں بھی ملوث افراد بد قسمتی سے مسلمان ہی تھے۔
فرانس،بیلجیم،بر طانیہ،گلاسکو،امریکہ وجرمنی سمیت ہونے والی دہشت گردی یا خود کش حملوں میں ملوث افراد مسلمان ہی ہیں۔ ظاہر ہے اس کے ردعمل میں غیر مسلم کمیونٹی میں اشتعال آنا لازمی ہے۔اسی اشتعال کے تحت مانچسٹر حملوں کے بعد ایک مسجد پر بھی حملہ کیا گیا اور اسے جلانے کی کوشش کی گئی۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے کو مسلم امہ پر حملہ قرار دیا جاتا رہا اور افغانستان کی جنگ کو صلیبی جنگ سے تعبیر کیا جاتا رہا ،اگرچہ اس حوالے سے امریکی صدر بش نے بھی یہی کہا تھا۔لیکن دیانت داری سے کوئی بتائے کہ امریکہ کا مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کیا افغانستان میں پناہ گزین نہیں تھا؟کیا نائن الیون کے حملوں کے بعد طالبان نے بھنگڑے نہیں ڈالے تھے؟کیا حملہ آوروں کی کثیر تعداد کا تعلق سعودی عرب سے نہیں تھا؟کوئی ذی فہم اسے یوں ٹال نہیں سکتا کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔حضور دہشت گردی کا مذہبی تفہیم سے گہرا تعلق ہے۔ یہ کہہ دینا کہ دہشت گردوں اور دہشت گردیا کا کوئی مذہب نہیں ،جھوٹ ہے۔بقول ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب،کہ دہشت گردوں کا نہ صرف مذہب ہوتا ہے بلکہ ان کی فقہ بھی ہوتی ہے۔
القاعدہ،النصرہ،طالبان،الشاب اور داعش کی کارروائیوں سے نقصان کس کا ہوا؟ مسلمانوں کا اور صرف مسلمانوں کا۔یورپ میں کارروائیوں سے ان عام مسلمانوں کی زندگی عذاب ہو گئی جو بے چارے رزق حلال کمانے کی خاطر دیار ِغیر میں موجود ہیں۔انتہا پسند ہر معاشرے اور سماج میں پائے ہیں۔ یورپ کے انتہا پسندوں کا نشانہ وہ عام مسلمان ہیں جنھیں نہ تو داعش کے ریاستی و خلافتی تصور سے اتفاق ہے اور نہ ہی وہ القاعدہ کے دینی تصور سے مانوس ہیں۔وہ نہ تو الشباب کی کارروائیوں کو جائز سمجھتے ہیں اور نہ ہی طالبان کے خود کش حملوں کو درست مانتے ہیں۔لیکن وہ نشانہ اس لیے بن رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ نام نہاد اسلامی تحریکوں نے جتنا نقصان اسلام کو پہنچایا اتنا شاید ہی غیر مسلموں نے پہنچایا ہو۔دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں سے تو ہر عدل پسند انسان کو ہمدردی ہے ہی، مجھے تو یورپ میں بسنے والے ان عام مسلمانوں سے بھی ہمدردی ہے جو ناکردہ گناہوں کی معافیاں مانگ کر اپنی نوکریاں اور زندگیاں بچانے کی تگ و دو میں ہیں۔اے کاش،یورپ کے سارے عدل پسند داعش کے حقیقی پشت بانوں کا گریبان پکڑیں اور ان کی نام نہاد عالمی پاور اور ان کے ہم رکاب ،تقدس کے خداوںکو بیچ چوراہے آشکار کر دیں۔
اسلام بے شک امن،رواداری،اور سلامتی کا دین ہے مگر یہ بھی تلخ سچ ہے کہ خود کش حملہ آور بھی تو جنت کے حصول کے لیے ہی پھٹتا ہے نا۔ جب ایسا ہے تو بے شک دہشت گردی کا مذہبی تصور سے گہرا تعلق ہے۔ اے کاش علمائے اسلام گوشہ نشینی اور سیاسی مفادات کے بجائے اسلام کے حقیقی چہرے کی ترجمانی کریں ،اے کاش۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply