موٹی کی کہانی ۔۔۔روبینہ فیصل

کیا ہے؟ ایک موٹی ہی تو کہا تھا ، اس نے مجھے وہ باتیں سنائیں کہ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے ،غصہ تو میری بھی ناک پر دھرا رہتا تھا ، بھاڑ میں جائے ، میں نے خود سے کہا ، اپنی عزتِ نفس کو تھوڑا سا سہلایا اور ، اسے پہلے فیس بک سے بلا ک کیا ، اس سے بھی تسلی نہ ہو ئی تو اسے سیل فون سے بھی نکال دیا ۔ بدتمیز کہیں کی ۔۔۔ ہوں !!
آج چار سال بعد مال میں نظر آئی ، وہی میک اپ سے پاک چہرہ ، کندھوں پر لہراتے گھنگریالے بال ، نہ انگلیوں میں کو ئی انگوٹھی ، نہ کانوں میں کوئی بالے ،عام سی جینز ، اور پھولدار شرٹ پہنے وہ دنیا مافیا سے بے خبر تھی ۔ میں نے اس کے قریب جا کر ٹھاہ کی آواز نکالی ، وہ فٹ بھر اونچا اچھلی ، اس کے حلق سے چیخ نکلنے سے پہلے، اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی ، تم !!کمینی !!یہ کہا اور مجھے گلے سے لگا کے بھینچ لیا ۔۔
” کم بخت تو مجھے ایسے ہی ڈرائے گی ۔۔ ”
نہ مجھے محسوس ہو ا کہ وہ سالوں بعد ملی ہے ، نہ اسے یاد تھا کہ وہ مجھ سے موٹی کہنے پر خفا ہو ئی تھی ۔۔ ہم کتنے ہی پل یو نہی ایک دوسرے کے گلے لگے کھڑی رہیں ۔پھر وہ اپنی مخصوص پاٹ دار آواز میں بولی :
“چل بے !کینڈا ہے یوں گلے لگے کھڑی رہیں تو نجانے لوگ کیا کیا سمجھنے لگیں۔”
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا “چل اپنے پرانے ڈھابے پر جا تے ہیں
یہ سنتے ہی ،اس کی آنکھوں میں پرانے دنوں کی یادوں کے کئی جگنو چمک اٹھے ۔۔
چل ۔۔ اس نے میرا ہاتھ سا لوں پرانی گرمجوشی سے دباتے ہو ئے کہا ۔۔
“لیکن نہیں ۔۔ سُن !یہیں فوڈ کورٹ میں ہی بیٹھ جاتے ہیں ، وہ ڈھابہ چھوٹا ہے اور تو بہت زور سے ہنستی ہے ۔۔ سب لوگ ہمیں ہی دیکھنے لگ جاتے تھے ۔۔یاد ہے نا ”
ہاں !! اس کی آنکھوں میں پیلاہٹ کی جھلک نظر آئی ، اور میں نے سوچا میرا وہم ہے ،وہ دھیرے سے بولی :
“چل یہیں کہیں بیٹھ جاتے ہیں ۔۔ اس کے اس طرح فوراً  مان جانے سے مجھے حیرت ہو ئی ، اورایک لمحے کو لگا کہ اس کی آنکھوں میں اترا پیلا رنگ میرا وہم نہیں ہے ۔ وہ تو ہر بات میں بحث کر تی تھی ۔۔۔
“تیرے گلے میں بیٹھی کوئل کا کیا حال ہے ۔۔ “؟میں نے اونچے سے سٹول پر بیٹھتے ہی پو چھا ۔۔کئی سال پہلے اس مال میں یہ شیشے کی بڑی کھڑکی نہ تھی ، آج تھی ، اور ہم نے بیٹھنے کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیا ، جہاں سے ہم مال کے اندر سجی سنوری چھتوں کی بجائے، باہر کھلا آسمان دیکھ سکیں ،جس پر اس وقت دھند کا بسیرا تھا ،اور ایسے ہی موسم میں سب لوگ یا تو ڈپریشن کی گولیاں کھانے لگ جاتے ہیں ، یا وٹامن ڈی کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ سورج ، یہاں کی سب سے خوبصورت تفریح ہے ۔
“مر گئی کم بخت کب کی ۔۔ اس کی آواز ، مجھے آسمان سے مال میں واپس لے آئی ۔
“کیا مطلب اب تو گا نا نہیں گاتی ۔۔۔ ”
نہیں یار ۔۔۔۔
کیوں یار ۔۔کیوں نہیں ؟
“کیوں گاؤں ؟ اورکس کے لئے گاؤں ؟ یہاں لوگوں کو میرے گانے سے زیادہ میرے میں انٹرسٹ ہو تا تھا ، ساتھ کافی پیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں ، آپ تو گھر میں اکیلی ہو تی ہیں ، آپ کے گھر ہی کیوں نہ مل لیا جائے ۔ ابکائی آنے لگی تھی یار ، رال ٹپکاتے بڈھوں کو دیکھ دیکھ کے ۔ اب تو اس سوشل میڈیا نے ان ہوس کے مارے بابوں کی زندگیاں اور آسان کر دی ہیں ۔ میں نے تو فیس بک ، ٹوئٹر سب بند کر دیا ہے ۔۔۔وہ بولے جا رہی تھی ۔جیسے آج بہت سالوں بعد بولنے کا موقع ملا ہو اور بس یہ آخری موقع ہو ۔۔۔
میں جو پرانی یادوں کو ذہن میں دہرا چکی تھی اور ان کے حساب سے ہم جب بھی ملتی تھیں بس ہنسنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہو تا تھامگر آج وہ صرف بول رہی تھی ، بغیر ہنسے ،سالوں پہلے بھی ہم اپنی اپنی ٹوکریوں میں اپنے اپنے حصے کے دکھ اٹھائے ہی ملتی تھیں مگر تب ہنسی بھی ہمارے ساتھ رہتی تھی ۔مگر اب تو ۔۔۔۔۔
میں نے بات کا رخ بدلنے کے لئے کہا :
“تو نے وزن بہت کم کر لیا ہے ۔۔ میری بات کا اتنا غصہ کھا گئی تھی ۔۔؟
“کو نسی بات ؟ “جیسے اسے ہماری علیحدگی کی وجہ یا د ہی نہ ہو ۔
“وہی جب میں نے تجھے موٹی کہا تھا ۔۔”
“اچھا کہا تھا ؟ وہ حیرانی سے بولی ، کب ؟ تو تو کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتی تھی ، تو نے کب کہا تھا ؟”
تو میں نے دل دکھانے کو تھوڑی کہا تھا ، میں نے تو تجھے motivateکرنے کو کہا تھا ۔مگر تو بہت ناراض ہو گئی تھی ۔۔
اچھا ؟ اتنی سی بات پر ؟ اور وہ بھی تجھ جیسی پگلی سے ۔۔ اب وہ باہر تنے آسمان میں سے کالے بادلوں کو اپنے ناخنوں سے کر ید رہی تھی ، کیونکہ وہ اپنے نا تراشیدہ ناخنوں سے میز کی سطح کھرچتی جا رہی تھی ، جب کے نظریں کالے بادلوں میں گم تھیں ۔
میں نے ا سکی آنکھوں کو غور سے دیکھاکہ شاید اس نے بھی بناوٹ سیکھ لی ہے ۔ مگر وہاں مجھے وہی سادگی نظر آئی جو اس کی ذات کا حصہ تھی ۔
ہم دونوں جب پہلی بار ملی تھیں ، تو وہ کہتی تھی ، تو لاہور اور میں دلی میں پیدا نہ ہو ئی ہو تی تو ہم جڑواں بہنیں ہو تیں۔ شکل ، نام ، عادتیں کتنی ملتی ہیں ، پھر خود ہی کہتی تھی ۔۔ لیکن قسمت نہیں ۔۔۔
میں کہتی تھی کس کی قسمت اچھی ہے ۔۔
وہ جواب دیتی تھی ، تیری۔۔۔اگرچہ تیرا شوہر تجھے محبت کے نام پر پابند رکھتا ہے ، بہرحال یہ قسمت ، نفرت کے نام پر کھلا چھوڑ دینے سے ہزار درجے بہتر ہے ۔اس کا اشارہ اپنی طلا ق کی طرف ہو تا ۔۔۔
جب ہم پہلی بار ملے تھے تو اس کے دل میں شوہر کی بے وفائی کا کانٹا اندر تک اترا ہو اتھا ۔
جو ہر بات میں اس کے حلق کی اندرونی جلد کو زخمی کرتا تھا ، اس لئے جو بھی بات اس کے منہ سے نکلتی تھی ، خون سے تر ہو تی تھی ، اوروہ جب مجھے اپنی پرانی تصویریں دکھاتی تھی تو ان میں مجھے دلی سے آئی ایک معصوم ، شفاف چہرہ لڑکی ، ہر تصویر میں ہنستی نظر آتی تھی ۔۔آنکھوں کی غیر معمولی چمک ، تصویر سے نکل نکل کر پڑتی تھی ۔ میں ان تصویروں کی چمک کھونے کا ماتم کرتی اور حلق سے مسلسل بہتے خون کی روک تھام میں مصروف رہتی  اور اس سے تصویروں سے نکلنے والی چمک کا پوچھتی :یہ خوابوں کی چمک تھی ؟
وہ کہتی: ہاں بڑے رنگ برنگے خواب تھے ، لیکن اب دیکھو مجھے ، میری آنکھیں کیسی ہیں ۔ وہ اپنا چہرہ میرے آگے پڑھنے کو رکھ دیتی تھی۔
میں اس کی بات کو مذاق میں اڑانے کے لئے کہتی تھی “تم اتنا بولتی ہو ، اتنا لڑتی ہو ، اتنا کڑ کڑ کرتی رہتی ہواس وجہ سے تمھاری آنکھوں میں چمک نہیں بلکہ مردنی  سی چھائی رہتی ہے ۔ خوش رہا کرو ، تم ابھی بھی پیاری ہو ، جوان ہو ، جاب کر تی ہو ، کوئی ساتھی ڈھونڈ لو ۔۔ اور خوش رہو۔ ساتھی ؟؟۔ وہ قہقے لگانے لگتی ۔۔ تم پاگل ہو ۔۔وہ مجھے کہتی ۔۔
“اچھا میں پاگل ہوں؟ ہنسو تو آہستہ”میں شرمندگی سے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو دیکھتی ، چھوٹے سے ریستوارن میں اس کی آواز ہر طرف پھیلتی تھی ۔
“تم مجھے چپ نہ کر وایا کرو ۔۔۔ ایک تم ہی تو ہو ، خالص دیسی گھی کی طرح ، جس سے توانائی ملتی ہے ، اب تم بھی نہ برائلر بننے کی کوش کر و۔۔”
میں اپنی تعریف پر لوگوں کو بھول جاتی اور اس کے ساتھ مل کر ایک بھر پور قہقہ لگاتی تھی۔
ویسے بھی میرے لئے لوگ نہیں ، وہ اہم تھی ، میری نئی نئی بنی ہو ئی دوست ، جس میں مجھے کبھی کبھار خود کی جھلک نظر آتی تھی ۔ لیکن میں موم کی طرح نر م تھی ، زندگی کی طرف رویہ مثبت ، وہ منفیت سے بھری پڑی تھی ، شک اس کی نس نس میں اترا ہوا تھا ۔ اور جب وہ مجھے بتاتی کہ کچھ سال پہلے ، طلاق سے پہلے ، کینیڈا میں آنے سے پہلے ، شوہر کی بے وفائی اور دھوکے سے پہلے وہ بالکل میرے جیسی تھی ، تو مجھے یقین نہ آتا تھا ۔۔ وہ بہت سچی تھی لیکن یہ بات مجھے جھوٹ لگتی ۔۔ اس کی شخصیت میں اتنی کڑواہٹ تھی کہ میں کسی بھی مٹھاس کا تصور نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔۔اور میں تو تب میٹھی تھی ۔۔۔ ہر کڑواہٹ سے دور !
“میں بھی دلی شہر میں بہت معصوم ہو ا کرتی تھی ، میں جب بیاہ کر کینیڈا آئی ، تو میں تب بھی بہت ہنستی تھی ، جب لوگ کہتے واہ جی اس کا شوہر ڈاکٹر ہے تو میں بہت فخر سے تن جاتی تھی ، اور خوب ہنستی تھی ، ہنسنے کے علاوہ مجھے آتا ہی کیا تھا ۔لیکن جب اس ڈاکٹرنے بچی کی پیدائش کے بعد روپ بدلا تو میں بکھر نے لگی ، میں ہنستی تو وہ کہتا پاگل لگتی ہو ، میں بولتی تو کہتا تم کتنا فضول بو لتی ہو ، میں رونے لگتی تو کہتا تم کس قدر جذباتی بے وقوف عورت ہو ۔میں لڑتی تو کہتا تم ایک نیگٹیو عورت ہو ،تم مجھے خوش نہیں رکھ سکتی ، جب میں اس کی بے وفائیاں اور دھوکے پکڑنے لگی اور چیخنے چلا نے لگی ، تو کہنے لگا تم ایک نفسیاتی مر یض ہو ، میری خوشیوں کو برداشت نہیں کر سکتی ۔ ایک sadist ہو ۔۔تمھیں بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔’اس کی زندگی میں بہت لڑکیاں تھیں مگر اس کے پروانے جیسے دل میں مستقل قیام نہ کر تی تھیں، تو میں مستقل بیوی ہونے کا تمغہ سینے پر سجائے خود کو محفوظ سجھتی تھی لیکن جب ایک دن یہ پتہ چلا کہ ایک کم عم سپینش ماڈل کے ساتھ کچھ  ز یادہ ہی وقت گزارنے لگا ہے تو بیوی اور محبوبہ کی صدیوں پرانی چھٹی حس نے مجھے بتا دیا کہ بی بی تیرا وقت پو را ہوا ، کوچ کی تیاری کرو اس قدرتی آلارم کے بجنے کے بعد میں نے دہائی دینی شروع کی تو وہ بے شرم مجرموں کی طرح مجھ سے بھی  زیادہ بلند آواز میں چلا نے لگا ۔۔۔ مجھے گالیاں دینے لگا ، مجھے پاگل ہو نے کے طعنے دینے لگا !
یہ قصے ، ایسے کئی قصے ، اس کے دماغ میں پھنسے ہو ئے تھے ۔ہم جب بھی ملتے بات کوئی بھی ہو رہی ہو تی ، اس کا تانا بانا ، مردوں کی ایسی ہی بے وفائیوں پر ٹوٹتا تھا ۔۔ اب وہ ہر مرد پر شک کرتی تھی ۔وہ اپنے اوپر بھی پاگل ہو نے کا شک کر تی تھی ۔۔
سنگل کا سٹیٹس ہو ، صورت اچھی ، باتونی ، اوپر سے گاتی بھی اچھا تھی ، تو مرد مکھیوں کی طرح اس کے گرد بھنبھنانے لگتے ، وہ دو چار دفعہ ہنس کے بات بھی کر لیتی ، اور جب انہیں شہ مل جاتی اور وہ پیچھے پڑ جاتے تو یہ اکتا جا تی اور پھر کوئی اچھا سا موقع دیکھ کر ان کی بے عزتی کر کے رکھ دیتی ۔اور پھر مجھے یہ سارے واقعات کسی لنچ میٹنگ میں سناتی ۔ میں نے اس کی ان باتوں کو اس کی دل لگی اور روز مرہ کی روٹین سے  زیادہ کبھی اہمیت نہ دی تھی ۔۔۔اور وہ خود کو بار بار یہی کہتی میرا کیا ہے مجھے تو ہے ہی بائی پولر ڈس آرڈر ، کبھی خوشی کبھی غم ۔۔ اور پھر ایک پاگلوں والا قہقہہ ۔ہر قصہ چاہے جیسا بھی ہو اس کے بعد ایک قہقہہ  ضرور لگاتی تھی ۔
میں اسے کہتی تھی ، مرد اچھے بھی ہو تے ہیں ۔ ایک ہی لاٹھی سے سب کو مت ہانکو !
مجھے غور سے دیکھتی جیسے میرے اندر پلنے والے شک کے بیچ کو سمجھ گئی ہو!
۔ اور پھر کہتی تیرا شوہر تجھے کبھی نہیں چھوڑے گا ۔۔ تو چھوڑنے ولا میڑیل نہیں ۔۔۔ یہ کہتے ہو ئے اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ جاتے ۔۔۔
میں کہتی تھی ،یار تم بھی بہت اچھی ہو ، کوئی تمھیں کیوں چھوڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔لازمی نہیں سب تمھارے ایکس کی طرح کے بے وفا اور دھوکے باز ہی ہوں ۔۔۔
پھر وہ کہتی : یار میری نانی کہا کرتی تھی ،زندگی میں سچی محبت اور سچا دھوکہ ایک ہی مرتبہ ہو تا ہے ۔ اور میں نانی سے کہتی تھی ، نانی دھوکہ بھی کبھی سچا ہو تا ہے ۔۔تو جواب دیتی تھی ، سچی محبت کو جب دھوکہ ملتا ہے تو وہ بڑا سچل دھوکہ ہو تا ہے ، اور وہ ساری عمر آسیب بن کے زندگی کو چمٹا رہتا ہے ۔ تو اب مجھے نانی کی بات سمجھ میں آتی ہے کہ دھوکے کاآسیب ہوتی کیا بلا ہے ۔۔۔ انسان ساری عمر کے لئے اعتماد سے با نجھ ہو جاتا ہے ۔۔ میں جواب دن کے چوبیس گھنٹے شک کر تی رہتی ہوں ۔ کیا کرؤں میرے اندر دھوکے کا سانپ بیٹھ گیا ہے ۔ وہ مجھے ہر وقت ڈنگ مارتا رہتا ہے ۔۔ مجھے لگتا ہے کو ئی بھی کبھی بھی کہیں بھی مجھے ڈس لے گا ۔۔ ہر عورت کو ہر مرد ڈس لے گا ۔۔۔۔نانی کہا کرتی تھی تو بہت پرخلوص اور سادہ ہے شاید سادگی کو دھوکہ ملے تو وہ ایسے ہی عمر بھر کر کے لئے بر باد ہو جا تی ہے ، ورنہ تو دیکھ نہ یہاں کتنی طلاق یافتہ عورتیں پھر تی ہیں ، ایک کو چھوڑ دوسرا کر ، دوسرے کو چھوڑ تیسرا کر ۔۔ ان میں تو اعتبار کا بانجھ پن نہیں اترا ۔وہ شاید خود بھی ایسی ہی ہوں ۔۔۔”
بولے جاتی بولے جاتی ۔۔مردوں سے عورتوں کی شامت آنے لگتی تو میں اسے ساتھ لگا لیتی تھی ، نہیں میری جان اچھے کی امید رکھو ۔ روایتی تسلیاں ، لیکن میرا دل اندر پتے کی طرح کانپنے لگتا تھا ۔۔۔۔ مگر تب کئی سال پہلے جب ہم ملتی تھیں تو اس کی ہنسی کی موت نہیں ہو ئی تھی ۔زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ تو وہ کھا چکی تھی ۔۔ ٹھکرائے جانے کی اذیت ، اس کے ہر سانس میں شامل تھی ۔۔۔مگر اب کیا ایسا ہوا تھا ۔۔ اب وہ مجھے کیوں مزید تھکی ہو ئی ، ٹوٹی ہو ئی ، قہہقوں کے بغیر نظر آرہی تھی ۔۔۔
میں نے تنگ آکر پو چھ ہی لیا ۔ تمھیں کیا ہے تم ہنستی کیوں نہیں ہو ؟ میں اس لئے تمھیں چھوٹے ریستوران میں نہیں لے کر گئی تھی کہ ہمارے قہقوں سے پاس بیٹھے لوگ تنگ ہو تے تھے ، آج اتنی کھلی جگہ پر بیٹھے ہیں ، مگر تمھارا ایک ننھا سا قہقہ بھی سنائی نہیں دے رہا ۔۔ کیا ہے تمھیں ؟کیا اکیلی رہ رہ کے تھک گئی ہو ؟ بیٹی بھی یو نیورسٹی چلی گئی ہو گی ۔۔۔۔۔۔اور تم تو کہا کرتی تھی جب بیٹی یو نیورسٹی چلی جائے گی تب تم کسی کے ساتھ ڈیٹنگ کا سو چوں  گی ۔۔ تب تو تم بیٹی کی وجہ سے کہیں زیادہ دیر بیٹھتی بھی نہیں تھی ۔
“اچھا میں ایسے کیا کرتی تھی ۔۔۔؟”اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا ۔۔۔
کیا تمھیں یہ بھی یا د نہیں ؟ مجھے حیرت سے زیادہ اب پریشانی ہو نے لگی تھی ۔۔۔تمھیں Alzheimerیا Dementiaوغیرہ تو کچھ نہیں ہو گیا ۔۔۔بی بی !!تمھیں یا د نہیں ، تمھاری صبح دوپہر ، شام ،رات ، سب کی روٹین میں بس تمھاری بیٹی کے شیڈول دیکھے جا تے تھے ۔۔میں نے اس کی یاداشت کو ہلایا جلایا ۔۔۔
اچھا ؟ میں ایسے کرتی تھی ۔کاش Dementiaہو جائے یار ۔دماغ میں بیٹھی دھوکے اور ٹھکرائے جانے کی تذلیل ہی نہیں نکلتی ، باقی سب لگتا بھول گئی ہوں ۔ اس نے خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھتے ہو ئے کہا ۔
“تمھاری زندگی تو گھومتی ہی تمھاری بیٹی کے گرد تھی ، تمھاراسابقہ شوہر اسے رکھتا نہیں تھا ، کیونکہ اسے نئی بیوی کے نخرے اٹھانے سے فرصت نہیں تھی ۔ اور تم ہر وقت ا پنی بیٹی کو جذباتی ، نفسیاتی الجھنوں سے دور رکھنے کے لئے اس کا سایہ بنی رہتی تھی ۔ اور اس زمانے کے سب دوستوں کو چھوڑ ، ملنے جلنے والوں تک کو تمھارے اس جنون کا پتہ تھا ، حتی کہ کچھ دن پہلے میں اس پارلر والی کے پاس ویکس کروا نے گئی جس کے پاس تم بھی جایا کرتی تھی ، تو اس نے بھی تمھارے بارے مجھ سے یہی سوال کیا تھا کہ اب تو ا سکی بیٹی یو نیورسٹی چلی گئی ہو گی ، اور اب تو اس نے شادی کر لی ہو گی یا کسی ریلشن شپ میں ہو گی ۔
یہ بات سن کر بھی وہ خاموش رہی۔ہاں بیٹی تو یو نیورسٹی چلی گئی تھی ۔تھوڑا رکتے ہو ئے بولی، میں بھی ریلشن شپ میں ہوں ۔۔۔
ارے واہ !! پھر تو تمھیں خوش ہو نا چاہیے ۔۔ ابھی بھی منہ پھلائے بیٹھی ہو ۔ جو سوچا تھا ، وہ تو ہو گیا ۔۔۔تصویر دکھاؤ مجھے جوان کی ۔ میں نے پرانے دنوں کی ہنسی کو زبردستی اپنے درمیان لاتے ہو ئے کہا ۔۔
ہاں دکھاتی ہوں ۔۔ یہ دیکھو ۔۔۔ اس نے اپنے موبائل سے ایک تصویر نکال کر میرے سامنے کر دی ۔۔
یہ کون ہے ؟ میں نے ایک عجیب سے بڑی عمر کے آدمی کو شرٹ نیکر پہنے ، اپنی طرف گھورتے دیکھ کر پو چھا ۔۔۔
“یہی تو ہے ” اسکی شکل کی طرح اس کا نام بھی عجیب سا تھا ۔۔۔
میں نے تھوک نگل کے بمشکل کہا ۔۔”ہاں اچھا ہے ”
“ہاں بڑا گڈ لکنگ ہے ، اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا ، ہنس کے کہتی تو میں سوچتی مذاق کر نے کی عادت ابھی بھی نہیں گئی ۔
65″سال کا ہے ۔وہ حسب معمول سچ بولی ۔سچ اس کی ذات کا حصہ ، بس وہی آج تک قائم تھا ۔۔
“ہاں اس حساب سے فٹ ہے ۔” میں نے اس سے  زیادہ خود کو تسلی دیتے ہو ئے کہا ۔۔
وہ پھر سچائی سے بولی ۔۔”روبی!! اس عمر میں مجھے کمپرومائز ہی کرنا تھا نا ، اس کا کولیسٹرول ہائی ہے ، ہارٹ کی کچھ پرابلمز ہیں ، شوگر بھی ہے ۔ایسی باتوں پر ہم پہلے بہت ہنسا کرتے تھے ۔ اب نہ وہ ہنس رہی تھی اور میرا تو اس بندے کی شکل اور بیماریوں کی لسٹ دیکھ کر دل تقریباً  بند ہو چکا تھا ۔ جب وہ بہت سال پہلے مجھے کہا کرتی تھی کہ بیٹی کے  یو نیورسٹی جاتے ہی ، پھر میں اپنے بارے میں سوچوں  گی ، تو تب مجھے خیال آتا تھا کہ یہ سالوں بعد کسی مرد کو ڈھونڈنے کی بات ایسے کر رہی ہے جیسے وقت اس پر رک جائے گا ، اور اس کی عمر آگے کو نہیں جا ئے گی ۔میں تب بھی ڈر کے سوچا کرتی تھی ، جب یہ اپنے لئے ساتھی ڈھونڈنے نکلے گی تو کیا اس کی عمر اتنی رہ گئی ہو گی کہ کوئی اچھا بندہ اسے مل جائے ، جوکم از کم اس کا ہم عمر ہی ہو ۔۔ لیکن تب میں یہ خدشہ ظاہر نہیں کر تی تھی ۔۔ آج سوچتی ہوں تب مجھے یہ بات ایک دفعہ اس کے ساتھ کر لینی چاہیے  تھی ، اسے بتا تی کہ بیٹی بڑی ہو گی تو تمھاری عمر میں بھی تو سالوں کا اضافہ ہو گا ۔۔ مگر میں تب چپ رہتی تھی ، آج مجھے اپنی وہ چپ یاد آئی تو خود پر غصہ آیا ۔۔۔
لیکن یہ نہیں کہ اسے خود نہیں پتہ تھا ، اس نے اگلے ہی لمحے کہا : اب اس عمر میں عورتوں کو اپنے سے دس پندرہ سال بڑے آدمی ہی مل سکتے ، کیونکہ میری عمر کے مرد تو میرے شوہر کی طرح اپنے سے دس پندرہ سال چھوٹی کی تاک میں ہو تے ہیں۔۔ انہوں نے مجھ سے کیوں شادی کر نی ۔ان کم بختوں کو خدا نے بھی فائدے میں ہی رکھا ہوا ہے ۔۔۔کچھ سال پہلے وہ یہ بات ہنس کے کہتی تھی ، اب اس سے ہنسا نہیں گیا ، نہ مجھ سے ۔۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھاما ، اور کھانے کی پلیٹ کو اپنے سے پرے سرکا دیا ۔۔۔۔کیونکہ اب مجھ سے ایک نوالہ بھی نہیں لیا جانا تھا ۔
وہ خاموشی سے کھاتی رہی ، کسی مشین کی طرح ، اسے یہ بھی خبر نہ ہو ئی کہ میں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا ، پہلے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایک پل میں بھانپ لیتی تھی ۔۔میں کہا کہتی کرتی تھی رائٹرز کی طرح کا مشاہدہ ہے تمھارا  اور اب بس ہنسی کی طرح آنکھیں بھی جیسے چپ سی تھیں ۔صرف باتیں ۔۔ باتیں اسی طرح ، بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔۔بس باتیں ہی باتیں ۔۔۔۔
میں نے اسے کہا:
“سالوں پہلے جب تم اپنے شوہر کے د ھوکوں اور دوسرے مردوں کے جال پھینکنے کے قصے سناتی تھی ، تو ایک ہی طرح کی منفی باتیں سن سن کر میرے سر میں درد ہو نے لگتا تھا ، مگر اب درد، سر میں نہیں بلکہ دل میں ہو رہا ہے ، کیونکہ پہلے یہ سب جھوٹ ، فریب اور مکر تمھارا فرسٹ ہینڈ تجربہ ہو تے تھے ، اب ان تیری میری دوری کے سالوں میں ، میں نے بھی تیری ا س تاریک دنیا کے چہرے دیکھ لئے ہیں ۔ دھوکے اور جھوٹ کے ماسک میں چھپے کئی چہرے میرے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں ۔میری ذات کے چمکدار جگنوؤں کو زمانے کے اندھیرے نے نگل لیا ہے ۔اب درد دل میں ہو رہا ہے ۔
اس نے مجھ سے کچھ نہ پو چھا ۔۔بلکہ کہنے لگی بس اب تو یہ سیکھ رہی ہوں کہ اس دنیا میں جینا کیسے ہے ؟جو دماغ میں پھنس گیا ہے ، دھوکہ ، فریب ، جھوٹ ، وہ جا تا ہی نہیں ۔۔ اسے بھیجنا ہے روبی ۔اس کم بخت کو نکالنا ہے وہاں سے۔ اب سانس گھٹنے لگا ہے ۔۔۔۔
“تم نے اپنی بیٹی کے لئے قربانی دی ، اپنی جوانی کے سارے سال ضائع کر دئے ( میں نے اس کے 65سال کے بوائے فرینڈ کا ذکر کئے بغیر کہا، کہ کیسا خسارے کا سودا کر بیٹھی ہے )اور اب جب وہ بڑی ہو گئی تو چلو یہ خوشی تو تمھیں ہو گی کہ تمھارا سفر رائیگاں نہیں گیا ۔۔۔ اور تمھیں ایک ساتھی بھی مل گیا ۔۔۔۔۔۔۔”
“ہاں مل گیا ۔۔لیکن جانتی ہو میری بیٹی اپنے باپ کے پاس چلی گئی ہے ۔ کیونکہ اسے وہاں جو پیسہ اور عیش و آرام مل رہا ہے ، وہ مجھ جیسی مزدور ماں افورڈ نہیں کر سکتی ۔ اور میں روک ٹوک کر تی تھی ، اپنا حق سمجھ کے ، کہ میں نے اس کی خاطر زندگی قربان کی ہے تو یہ میرا حق ہے کہ میں اس کی زندگی سنوارنے کے لئے روک ٹوک کر سکتی ہوں ۔۔۔روبی !! باپ اسے کھلا پیسہ اور آزادی دیتا ہے ۔ اور روک ٹوک نہیں کرتا اور وہ بھی اب مجھ سے دور بھاگتی ہے ، میری کڑ کڑ سے ۔۔۔ مہینے میں ایک دن جب اس نے مجھے ملنے آنا ہو تا ہے تو میں دروازے کے پاس کر سی ڈال کے بیٹھ جا تی ہوں اور آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتی رہتی ہوں کہ کوئی کار تو میری ڈرائیو وے پر آکر رکے گی ۔۔ کبھی کبھی آجاتی ہے ، کبھی کبھی ا س کا فون آجا تا ہے کہ کوئی ضروری کام آپڑا ، وہ نہیں آسکتی ۔۔ اس عمر میں جب وہ یو نیورسٹی جا رہی ہے، اس کے باپ کا نیا بچہ آرہا ہے ، وہاں سہولتیں تو ہیں ، مگر اس طرح کے ڈپریشن بھی ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہ یو نیورسٹی میں ڈراپ آوٹ ہو گئی ہے ۔۔۔میری زندگی تو گھاٹے کا سودا تھی ہی ، میری بیٹی بھی نہیں بچ سکی ۔۔۔ اور میرے پاس نہ بیٹی ہے نہ گھر کا سکون ۔۔۔۔بس یہ ہے ،
اسی 65 سال کے مرد کی تصویر میرے آگے کر تے ہو ئی بولی : دیکھا!! کیسا فٹ ہے ، جولی بھی ہے ، بہت اچھی کمپنی ہے ۔۔ انسان کو کمپنی چاہیے  ہو تی ہے ۔ وہ اس کی فیور میں پوا ئنٹس اکٹھے کر کر کے میرے ان کہے خدشوں کا جواب دے رہی تھی ۔ڈیٹنگ سائٹ سے ملا تھا ۔۔۔ اتنے سارے Appsکے ہو تے ہو ئے کوئی تنہا کیسے رہ سکتا ہے ؟ ہے نا سائنس کی ترقی ؟ بولتی جا رہی تھی
میں نے سوچا اب ہنس بھی لے گی ۔۔ مگر ایسا اب بھی نہ ہوا ۔۔۔
کھانا ختم کر کے ہم دونوں مال سے باہر آئیں ۔پارکنگ ائیریا میں کھڑی اس کی وہی پرانی نیلی سوک ، میری دوست کی وفادار طبیعت کا پتہ دے رہی تھی۔
“ارے وہی گاڑی ۔۔۔۔۔۔میں نے آواز میں خوشی بھرتے کہا ، جیسے اسے یقین دلا رہی ہوں کہ چیزیں نہیں بدلتیں ۔
وہ بولی “ہاں وہی گاڑی وہی گھر ،وہی سب کچھ ۔۔مجھ سے تبدیلی برداشت نہیں ہو تی ، میں چیزیں نہیں بدل سکتی ۔۔۔۔
لیکن انسان میرے اختیار میں نہیں ۔۔۔ وہ سب بدل جاتے ہیں”
“لیکن دیکھ میں نہیں بدلی ۔۔۔۔”میں نے شاباشی لینے کی غرض سے اس کے سامنے دانتوں کی نمائش کی۔
“تم بھی بدل گئی ہو ، پہلے تم ایک پھول کی طرح تازہ تھی، خوشبو دیتی مگر اب تمھارے گرد بھی کانٹے اگ آئے ہیں ۔ لوگوں نے تمھیں بھی نہیں بخشا ۔۔۔”
یہ کہہ کر اس نے مجھے گلے لگا لیا اور ہم دونوں نے اپنی اپنی تبدیلی کو اپنی آنکھوں کے اندر جلنے دیا ۔۔ اور پانی کو گالوں پر آنے سے روکا ۔
“یہ دیکھو میرے ہاتھ میری نانی جیسے ہو گئے ہیں ،یہ کم بخت کینیڈا “۔ وہ حسبِ عادت منہ ہی منہ میں بڑبڑائی ۔۔اور جب وہ اپنی
پرانی سوک کی طرف جا رہی تھی ،مجھے لگا کوئی 65سال کی کمزور سی عورت لاٹھی ٹیکتی چلی جا رہی ہے ۔۔میں نے اسے پیچھے سے پکارا :
سنو !! تمھار ا وزن بہت کم ہو گیا ہے ۔۔۔ اب تمھیں میں موٹی نہیں کہہ سکتی ۔۔۔۔۔میں نے اپنی طرف سے اسے ہنسانے کی آخری ناکام کوشش کر ڈالی ۔
“کاش میں موٹی ہی رہتی ۔۔ اور موٹی رہنے کے وہ سال مجھ پر رک جاتے ۔۔”

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply