جمہوریت پرسوشل میڈیا کی تلوار(1)۔۔افتخار گیلانی

بھار ت میں 2014کے عام انتخابات کی کوریج کے دوران صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ کے ایک سینما ہال کے منیجر کے دفتر میںموجود چند افراد سے جب میں انتخابی رجحان کو جاننے کی کوشش کر رہا تھا، تو ایک مقامی سیاسی کارکن نے لقمہ دیکر کہا کہ یہ انتخاب دراصل ٹکنالوجی اور انسانی احساسات کے درمیان ایک جنگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نریندر مودی یہ انتخابات واضح اکثریت سے جیتتے ہیں، تو بھارت کیا پوری دنیا میں انتخابات لڑنے کی نوعیت ہی بدل جائیگی۔ ان انتخابات میں جس طرح دنیا کی تاریخ میں پہلی بار مودی اور انکی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کا بڑے پیمانے پر استعمال کرکے افواہوں اور آدھے سچ کو پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کی، اسکی کہیں نظیر نہیں ملتی ہے۔ اس کے بعد اسی طریقہ کو امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اور پاکستان میں مسلم لیگ اور عمران خان کی تحریک انصاف نے پروان چڑھایا۔ سمستی پور کے اس مقامی سیاسی کارکن نے ثابت کردیا کہ جنوبی ایشیاء میں بہاریوں سے بڑھ کر کوئی سیاسی نبض شناس نہیں ہے۔ صوبہ کے دیہی علاقوں میں گھوم کر پتہ چلا کہ موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے ایک ایسی مہم چل رہی ہے، جو سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے براہ راست ذہنو ں کو متاثر کر رہی تھی۔ مغربی صوبہ گجرات جہاں مودی وزیرا علیٰ تھے، کو ایک ایسے خطہ کے طور پر پیش کیا جارہا تھاکہ جیسے وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں ۔ بتایا جاتا تھا کہ بقیہ بھارت کو بس کانگریس اور اسکے حواریوں نے پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اسی طرح کی ایک مسیج میں کسانوں کو بتا یا گیا تھا کہ گجرات حکومت نے کسی علاقہ میں کیلے کی فصل اگانے والے کسانوں کیلئے ایسی صاف و شفاف سڑکیں بنائی ہیں، تاکہ منڈیوں میں جانے والے ٹرکوں میں انکے پکے ہوئے کیلے پچکنے سے بچ جائیں۔واپسی پر جب ہم نے اپنے اخبار کے گجرات ایڈیشن سے گذارش کی کہ کسی رپورٹر کو اس خطہ میں بھیج کر وہاں کے کسانوں سے اس کے بارے میں معلومات اکھٹی کریں، تو معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں کیلے کی فصل ہی پیدا نہیں ہوتی ہے اور سڑکوں پر دیگر دیہی علاقوں کی طرح ہی گڑھے کھدے ہوئے تھے۔ مگر جب تک اس کا پتہ چلتا ، عوام پر جادو چل چکا تھا۔ ایک سال بعد اسی صوبہ میں اسمبلی انتخابات کی کوریج کے دوران، میں دربھنگہ ضلع سے نیپال کی سرحد سے ملحق علاقہ مدھوبنی کی طرف رواں تھا کہ راستے میں ایک مسلمان پولیس سب انسپکٹر ،نے پوچھا کہ کیا دہلی میں ایسی کوئی بات ہو رہی ہے کہ انتخابات کے بعد مسلمانوں کو بھارت چھوڑ کر پاکستان جانا ہوگا؟ سوال پر میں چکرا گیا۔ میں نے پوچھا کہ ایسا وہ کیوں سمجھتا ہے اور کس نے یہ افواہ پھیلائی ہے؟ پولیس کے ایک فرد کی حیثیت سے اسکو فوراً ہی اس افواہ باز کو گرفتار کرکے نشانہ عبرت بنانا چاہئے۔ اس نے جواب دیا ’’کہ وہ پاس کے ملاحوں کے گاوٗ ں میں بسے چند آسودہ حال مسلم گھرانوں کے محلہ میں رہتا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک تین منزلہ مکان تعمیر کیا ہے۔ چند روز سے گائوں کا نمبردار مسلسل گھر آکربتا رہا ہے کہ اپنا مکان جلد فروخت کرو، انتخابا ت کے بعد کوئی دام نہیں دیگا۔ کیونکہ اس کے فون پر مسیج آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جلد ہی پاکستان بھگایا جائیگا۔‘‘ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی افواہیں پھیلانے اور ان سے ذہن سازی کرنے میں بی جے پی نے تمام مخالفین کو مات دے دی ہے۔پہلے ا نتخابی بخار ووٹنگ کے دن سے قبل ایک یا دو ماہ تک رہتا تھا۔ مگر بی جے پی نے اب اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک سال بھر انتخابی بخار میں مبتلارہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ہر دوسرے دن ہیجانی مسائل پیدا کئے جاتے ہیں، اور ایک بحث لوگوں پر زبردستی مسلط کی جاتی ہے۔ یہ حجاب پہننے کا مسئلہ ہو سکتا ہے، مسلمان تاجروں کا ہندو عبادت گاہوں کے قریب دکانیں کھولنا یا پھر 1990 میں کشمیری ہندوؤں کے اخراج پر بننے والی فلم کے اوپر گفتگو۔بی جے پی کے سوشل میڈیا روم میں کام کرنے والے ایک سابق کارکن کا کہنا ہے کہ پارٹی کے پاس کم از کم ایک لاکھ واٹس ایپ گروپس اور سو سے زائد فیس بک صفحات ہیں۔ پارٹی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ تقریباً ہر بھارتی شہری جس کے پاس اسمارٹ فون ہے وہ اس کے کسی نہ کسی گروپ کا ممبر ہو۔ ان گروپس کے ذریعے پیغامات اور ویڈیوز کی ترسیل کرکے فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ کو پھیلاکر پولرائزیشن کی جاتی ہے۔ حال ہی میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔ مسز گاندھی نے اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے دلیل دی کہ فیس بک اور ٹویٹر جیسی عالمی کمپنیاں بھارتی ووٹرز پر اثر انداز ہونے کی نہ صرف کوشش کر رہی ہیں، بلکہ بے جے پی کو ایک ہموار میدان بھی فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے پلیٹ فارم باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔ سمرتھ سرن، جو کانگریس پارٹی کی سوشل میڈیا سیل میں کام کرتے تھے، کا کہنا ہے کہ بھارت میں بی جے پی نے اور خصوصاً نریندر مودی نے اس میڈیم کو پہلی با انتخابی ہتھیار کے بطور استعمال کیا۔مودی وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی اس میڈیم کی اہمیت کو سمجھ چکے تھے۔ گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر، انہوں نے اپنی ریاست میں ترقی کا تاثر پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا بھر پور استعمال کیا۔ وہ ایک منظم سوشل میڈیا ٹیم اور آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے والے پہلے شخص تھے۔ جب کہ دوسری پارٹیاں اس میڈیم کے بارے میں بے خبر تھیں۔ حال ہی میں ختم ہونے والے پانچ صوبائی انتخابات میں، فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کے علاوہ، بی جے پی نے یوٹیوب اور انسٹاگرام کی رسائی کا بھی فائدہ اٹھایا۔(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply