سچ تو یہ ہے۔۔۔ آصف محمود

 سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں پہلی بار کسی سیاستدان کی کتاب خریدی اور پھر پورے اہتمام سے پڑھ ڈالی ۔ یہ امید تو ہر گز نہیں تھی کہ چودھری شجاعت حسین نے اس میں کوئی علمی اور فکری مضامین باندھے ہوں گے لیکن اتنا گماں ضرور تھا کہ چودھری صاحب جیسے وضع دار اور بزرگ سیاست دان جب اتنے اہتمام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں تو اپنے تجربے کی روشنی میں اہم قومی معاملات کا ایک سنجیدہ تجزیہ ضرور کریں گے جس سے میرے جیسے طالب علموں کے سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا ۔ پھر جب انہوں نے یہ دعوی بھی فرما دیا کہ اس کتاب میں انہوں نے ’’ صرف اور صرف سچ‘‘ لکھا ہے تو میرا تجسس اور اشتیاق اور بڑھ گیا ۔ میں سارے کام چھوڑ کر مسٹر بکس پر پہنچا،پورے 995 روپے ادا کیے اور کتاب اٹھا لی ۔

اب جب اس کا مطالعہ کر کے فارغ ہوا تو سچ تو یہ ہے کہ سوچ رہا ہوں ان پیسوں کا پزہ یا آئس کریم ہی کھا لی ہوتی ۔ چودھری شجاعت حسین ایک طویل عرصہ اقتدار کا حصہ رہے ۔ ایسا آدمی اگر کتاب لکھ ہی رہا تھا تو لازم تھا وہ قومی اہمیت کے کچھ معاملات کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں زیر بحث لاتا ۔ چودھری صاحب نے اس بھاری پتھر کو چوم کر وہیں چھوڑ دیا اور معاملات پر ایک سطحی سا تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

مثال کے طور پر وہ ایک اہم میٹنگ کا ذکر کرتے ہیں جس میں وزیر اعظم، وزیر خزانہ ، وزیر خارجہ اور چودھری صاحب موجود ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق بہت غصے میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں جنیوا معاہدے پر دستخط نہ کیے جائیں ۔ مجھے امید تھی کہ اب چودھری شجاعت حسین بتائیں گے کہ جنرل ضیاء کا کیا موقف تھا اور وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کیا کہہ رہے تھے۔ لیکن چودھری صاحب نے ایسا کچھ نہیں لکھا ۔ ان کے لیے اس واقعے میں اہم ترین چیز صرف یہ تھی کہ جنرل ضیاء غصے میں باتیں کرتے کرتے صوفے سے نیچے گر گئے۔ یہ سطحیت ایک نا تجربہ کار صحافی کی رپورٹنگ میں ہو توشاید گوارا کر لی جائے لیکن ایک سابق وزیر اعظم کی افتاد طبع یہ ہو تو بد مزہ کر دیتی ہے ۔

چودھری شجاعت حسین نے اس کتاب میں شریف خاندان کا طریقہ سیاست کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ۔ کس طرح شہباز شریف قرآن پر قسم کھا کر وفاداری کا یقین دلانے کو تیار تھے اور کیسے چھ ہی ماہ میں سارے وعدوں کو بھلا بیٹھے۔ کیسے کیسے انہوں نے وعدہ خلافیاں کیں اور پھر کس طرح منتیں کر کر کے چودھری صاحب کو راضی کیا ۔ کیسے جنرل ضیاء الحق نے ڈانٹ کر کہا چودھری پرویز الہی کو کابینہ میں شامل کیا جائے اور ڈانٹ سن کر نواز شریف کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کیسے نواز شریف ان کے والد کی حویلی کے باپر پیسے لے کر آگئے اور بڑے چودھری صاحب نے کہا اس نوجوان کو یہ کہہ کر واپس بھیج دو کہ ہم پیسے لینے والے نہیں دینے والے ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق حادثے کا شکار ہوئے اور بیگم شفیقہ ضیاء الحق نے رہائش کے مسئلے کے لیے فون کیا تو نواز شریف نے کرائے کا گھر لینے کا کہہ کر آنکھیں پھیر لیں اور چودھری شجاعت حسین کی والدہ محترمہ نے بیگم شفیقہ ضیاء کو اپنا گھر خالی کرا کے پیش کردیا کہ جب تک آپ کا اپنا گھر تعمیر نہیں ہوتا اس میں رہیے ۔

سوال یہ ہے کہ ایک طویل رفاقت میں کیا چودھری شجاعت حسین کو شریف برادران میں کوئی ایک خوبی بھی نظر نہ آئی ۔ یہ کتاب اگر اس دور میں لکھی جاتی جب نواز شریف اور چودھری شجاعت ایک ہی جماعت میں ہوا کرتے تھے تو کیا تب بھی نواز شریف کو ایسے ہی پیش کیا جاتا ؟ چودھری صاحب کے بقول نواز شریف نے پہلے چھ ماہ ہی میں آنکھیں بدل لی تھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کی حقیقت اگر وہ صرف چھ ماہ میں ہی جان گئے تھے تو اس کے بعد اتنے سال چودھری صاحب نواز شریف کے ساتھ کیا محض ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے رہے؟ چودھری صاحب اپنی کتاب میں یہ تو بتاتے ہیں کہ افتخار چودھری جب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تووہ افتخار چودھری کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر جنرل مشرف کے پاس لے گئے اور راستے میں انہیں کہا کہ آپ نے جنرل مشرف کو یوں اعتماد میں لینا ہے انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔

چنانچہ جب ملاقات ہوئی تو افتخار چودھری نے جنرل مشرف سے کہا کہ وہ ان کے اعتماد پر پورا اتریں گے اور ان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے۔ مشرف مطمئن ہو گئے اور پھر افتخار چودھری کو چیف جسٹس بنا دیا گیا ۔ لیکن چودھری صاحب یہ نہیں بتاتے کہ ان کی اپنی پہلی ملاقات جنرل مشرف سے کب ہوئی تھی ؟ خود گئے تھے یا انہیں بھی کوئی ساتھ لے گیا تھا ؟ نیز یہ کہ انہوں نے جنرل مشرف کو وفاداری کا یقین کیسے دلایا تھا ؟ چودھری صاحب نے یہ تو لکھا کہ 2008 کے الیکشن فکسڈ تھے اور گنتی شروع ہونے سے پہلے ہی انہیں جنرل مشرف کا فون آگیا کہ آپ کو پینتیس چالیس نشستیں ملیں تو نتائج تسلیم کر لیں اور کوئی احتجاج نہ کریں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ 2002 کے الیکشن میں جب ان کی جماعت 126 نشستیں لے گئی تھی تو وہ کتنے آزادانہ اور منصفانہ تھے ۔ نہ ہی وہ اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ جنرل مشرف کا مشورہ انہوں نے محض ثواب دارین کے لیے قبول کر لیا یا انہیں معلوم تھا کہ میرٹ پر تو ان کی نشستیں شاید پینتیس بھی نہ بنیں ؟

اسی طرح ایک اہم سوال یہ ہے کہ اتنا عرصہ میدان سیاست میں گزارنے کے بعد چودھری صاحب کا فلسفہ حیات کیا ہے اور وہ سیاست آخر کر ہی کیوں رہے ہیں ۔کوئی خواب ، کوئی مشن ؟ پوری کتاب چھان ماری مگر اس سوال کا کوئی جواب نہ ملا ۔ چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ غلام اسحاق خان نے ایک دفعہ ان سے پوچھا یہ صحافی سب کے خلاف لکھتے ہیں آپ کے خلاف نہیں لکھتے کیا آپ ان کو پیسے لگاتے ہیں؟ اس کے جواب میں چودھری صاحب نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ۔ بس اتنا ہے کہ مشکل میں ان کے کام آتا ہوں ۔

پھر ایک واقعہ بیان کیا کہ کیسے شراب نوشی کی وجہ سے کچھ صحافیوں کو پولیس نے پکڑا تو انہوں نے ایس پی کو فون کر کے کہا انہیں چھوڑ دو۔ سوچ رہا ہوں ایک مہذب ملک ہوتا تو کیا وزیر داخلہ کی جرات ہوتی وہ پولیس کو ایسا حکم دیتا اور اگر دے دیا تھا تو اس کی ہمت ہوتی وہ اسے کتاب میں بھی لکھ دیتا ۔ ویسے سچ کہوں تو سوچ تو میں یہ بھی رہا ہوں کہ کیا واقعی ان کا یہ دعوی درست ہے کہ وہ صحافیوں کو پیسے نہیں لگاتے ۔ ایک روایتی چودھری کی طرح اپنے خاندان کے کافی فضائل بھی اس کتاب میں انہوں نے بیان کیے ہیں ۔ کس نے کب ان کے خاندان کے لیے قصیدہ لکھا انہیں سب یاد ہے ۔لیکن جب انتخابات میں ایس پی ایک آدمی کو کہتا ہے کہ میرے سامنے سرکاری امیدوار کے خانے میں مہر لگاؤ تو چودھری صاحب لکھتے ہیں کہ’’ موچی نے مہر اٹھائی اور میرے والد کے خانے میں لگا دی‘‘۔ موچی کا کوئی نام نہیں ہوتا ۔ وہ بھلے چودھریوں کی محبت میں کسی ایس پی کا دباؤ ٹھکرا دے وہ صرف موچی ہی رہتا ہے۔ یہ رویہ ہم پنجابیوں میں عام ہے مگر چودھری شجاعت حسین جیسے وضع دار آدمی سے اس کی توقع نہ تھی۔ جنرل مشرف نے انہیں وزیر اعظم بنایا اور پرویز الہی کو وزیر اعلی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن بے نیازی دیکھیے چودھری صاحب نے جنرل مشرف کے لیے ایک تعریفی فقرہ لکھنا تک گوارا نہ کیا ۔ صرف ایک حکمران تھا جو ان کے خیال میں اس ملک میں انقلاب لے آیا اور وہ پرویز الہی تھے۔ ان کا دعوی ہے کہ پرویز الہی زراعت کی دنیا میں انقلاب لے آئے۔ ان کی رائے میں پر ویز الہی صنعت میں بھی انقلاب لے آئے۔ وہ دعوی فرماتے ہیں کہ پرویز الہی صحت کی دنیا میں بھی انقلاب لائے۔ یہی نہیں ان کا کہنا ہے کہ پرویز الہی کے دور میں تعلیم میں بھی انقلاب آ گیا تھا ۔ اب میں ایک طرف یہ بقلم خود انقلابات دیکھ رہا ہوں دوسری جانب یہ دعوی پڑھ رہا ہوں کہ اس کتاب میں ’’ صرف اور صرف سچ‘‘ لکھا گیا ہے ۔ سچ کہوں ؟ میری توبہ جو میں آئندہ کسی پاکستانی سیاستدان کی کتاب خرید کر پڑھوں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply