نمل! ایک خواب! ایک جذبہ…رابعہ احسن

جب سے دنیا کا ظہور ہوا اچهائی اور برائی ساتھ ساتھ چلتی آئی ہیں۔ برائی میں حقیقتا”بڑی کشش ہوتی ہے اسی لئےزیادہ تر لوگ کهنچے چلے جاتے ہیں کچھ جیالے تو علی لاعلان بتاتے ہیں اور کچھ کائیاں اچهائی کا بڑا سارا تمغہ سینے پہ سجائے اندر سے برائیوں سے مالامال ہوتے ہیں اور اسی طرح اکثر لوگ ساری عمر ڈهونگ کی زندگی گزارتے ہیں ۔ کچھ بیچارے بیچ راہ میں دهر لیئےجاتے ہیں جیسا کہ پاکستان کے موجودہ سیاستدان۔ مگر افسوس برائی خون کی طرح ان کی رگوں میں سرایت کرچکی ہوتی ہے کہ وہ اس کے بغیر سانس بهی لیں تو مشکل ہوجاتا ہے اسی لئے پاکستان اور اس جیسے بے شمار ترقی پذیر ممالک کے سیاستدان برائی اور کرپشن میں بری طرح لتهڑے ہوئے رہتے ہیں اور خمیازہ عوام بهگتتے ہیں کیونکہ سب کچھ جانتے بوجهتے ہوئے بهی ان کو چننے والے اور تخت و تاج سے نوازنے والے بهی عوام خود ہی ہوتے ہیں اور پهر بقول شاعر!
کچھ کرنہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
کرسی ہے کوئی تمهارا جنازہ تو نہیں ہے
برائی کی طلسماتی کشش اپنی جگہ بڑی زورآور ہوتی ہےاور اس میں اور بهی نادیدہ قوتیں شامل ہوکر اسے مزید ناقابل تسخیر بنادیتی ہیں مگر یہ بهی حقیقت ہے کہ دیر سہی مگر خدا کے گهر میں اندهیر نہیں ہوتی خصوصا’جب برائی کے مقابلے میں اچهائی کا ظہور ہوجائے۔ عربوں کے زمانہ جاہلیت کو اگر دیکها جائے تو کیا کیا برائیاں نہیں تهیں ان میں اور پهر یہیں پر ظہور اسلام ہوا اپنی تمام تر آفاقی سچائیوں کے ساتھ۔ ویسے بهی جب ظلم حد سے بڑهتا ہے تو اپنے ہی ایوانوں میں بغاوت جنم لیتی ہے اور جهوٹ اور سچ کے درمیان فیصلہ خود خدا کرتا ہے
تاریخ ایسی شاندار مثالوں سے بهری پڑی ہے جہاں اچهائی/برائی، سچ/جهوٹ میں واضح اور امتیازی فرق ثابت کر دیا گیا۔ وجود پاکستان سے اب تک پاکستان, اندرونی بیرونی قوتوں کی سازشوں اور لوٹ کهسوٹ کے زیر اثر رہا ہے جو ملک ہمارے آباواجداد نے اپنے لہو سے سینچا جس کی بنیادوں میں وطن پرستوں اور قومی نظریے کے متوالوں کی لاشیں دفن ہیں اس کو دنیا کے نقشے سے ہٹانے کیلئے ہمیں بیرونی قوتوں سے زیادہ اندر کے غداروں نےلوٹا نتیجہ کبهی مشرقی پاکستان ٹوٹا تو کبهی بلوچستان اور سرحد میں الگ ریاست کے نعرے لگے اور آجکل تو جنوبی پنجاب کو الگ کرنے تک کی مہم چل پڑی ہے۔ سندھ کی حالت زار کسی سے ڈهکی چهپی نہیں ۔ اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نرگس اپنی بے نوری پہ روئی بهی نہیں الٹا پوری قوم کو رلایا گیا پهر بهی اس ملک خداد کی مشکلات کا کوئی پرسان حال نہیں نکلا
نوے کی دہائی میں ایک کرکٹ ہیرو اٹها اور اس نے لاہور کے دوردراز علاقے میں کینسر ہسپتال بنانے کا بیڑہ اٹهایا اور ہسپتال بهی وہ جو جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہومگر اتنا پیسہ کہاں سے آئے۔ قوم کا ہیرو تها ملک کے چپے چپے میں گیا اور لوگوں سے ہسپتال کیلئے عطیات جمع کئے دنیا بهر میں جہاں کہیں بهی پاکستان سے تعلق رکهنے والے یا صرف انسانیت کا درد رکهنے والوں نے مسیحائی کے اس پراجیکٹ کیلئے اپنے دل کهول کے پیش کردئیے۔ اور آج شوکت خانم پاکستان کا سب سے بہترین ہسپتال ہے جو کہ کینسر کے ساتهه ساتهه ہر طرح کی بیماریوں کے علاج کی جدید ترین سہولیات سے لیس ہے۔ شاید چمن میں دیدہ ور پیدا ہوگیا تها جس نے سیاست بهی سچائی کے اصولوں پہ کی وہ صرف کرسی والی سیاست پہ ہی نہیں جتا رہا بلکہ اپنے ولولے سے مستقبل کے معماروں کی تربیت بهی کی۔
عمران خان پہ نئی نسل کا سیاستدان ہونے کی چهاپ شروع دن سے ہی لگ گئی تهی حالانکہ اس کے چاہنے والوں میں بڑی عمر کے اور بوڑهے بهی شامل ہیں ۔ سپوٹرز اس لئے نہیں لکها کیونکہ لوگ عمران خان کو واقعی میں “چاہتے”ہیں حالانکہ اس کی چاہتیں بدلتی رہتی ہیں مگر اس کے چاہنے والے نہیں بدلتے۔
ابهی بیٹی کو قرآن پڑها رہی تهی تو سورہ”النمل”شروع ہورہی تهی بالکل اسی ٹائم میں جب میں “نمل نالج سٹی “پرآج کا یہ کالم لکھ رہی تهی۔ یہ محض اتفاق ہی ہوگا مگر بڑا روحانی سا اتفاق تها حالانکہ مجھ جیسے گناہگاروں نے اس اتفاق سے کوئی کرامات بهی نہیں نکالنی مگر اتنا یقین آگیا کہ خدا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا اور وہ گاہے بہ گاہے اپنی نشانیاں ضرور دکهاتا ہے شاید اسے الہام، وجدان یا ایسی ہی کوئی کیفیت کہتے ہوں مگر مجهے اس حسن اتفاق کی بے حد خوشی ہے اور سکون بهی کیونکہ آجکل ہم اپنے “نمل” کے ٹورنٹو ایونٹ کی کامیابی کیلئے بهرپور کوششیں کررہے ہیں اور ان کوششوں سے فائدہ ہم میں کسی کی ذات کو نہیں بلکہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کے بچوں اور نوجوانوں کو پہنچے گا انشاءاللہ۔
بات ہوتی ہے نمل کی۔ تو کچھ اس کے پس منظر میں جاتی ہوں اپریل 2017سے پہلے ٹورنٹو میں “نمل”ایک نازک سے پودے کی طرح لگا جس کی آبیاری میں ٹورنٹو سمیت لندن، کیلگری، کے چند انسانی ہمدردی رکهنے والے لوگ اپنے خلوص کے ساتهه شامل ہوگئے ۔ اس کیلئے فنڈریزنگ کا یہ پہلا ایونٹ تها مگر زندہ دلان ٹورنٹو نے دل کهول کے دیار غیر میں بیٹهه کر اس پودے کو پروان چڑهانے کیلئے اپنے عطیات دئیے۔
اور پہلے ہی ایونٹ میں 70،000 کینیڈین ڈالرز کی فنڈریزنگ ہوئی جس کی خطیر رقم بریڈفورڈ یونیورسٹی کی فیس کیلئے انگلینڈ بهیج دی گئی۔ ٹورنٹو کے بعد امریکہ اور لندن میں بهی فنڈریزنگ ایونٹس منعقد کئے گئے۔ پچهلے سال حمزہ علی عباسی اور علیمہ خانم فنڈریزنگ کیلئے مختلف ممالک میں گئے۔ایک ہزار ایکڑ کی اراضی پر پهیلا یہ تعلیمی شہر جس میں تین کالجز اس وقت 55 ڈسٹرکٹس سے آنے والے مستحق اور قابل طلباوطالبات جدید ترین تعلیمی سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں۔ نمل”میانوالی کی ایک خوبصورت جهیل کا نام ہے اور تعلیم کا یہ انقلابی شہر اس پسماندہ علاقے میں تعمیر کیا جارہا ہےجس کا فائدہ نہ صرف اس علاقے بلکہ پورے پاکستان کو ہوگا۔ اس جگہ کی ویلیو بڑهے گی ۔ اتنے بڑے رقبے پر پهیلے اس تعلیمی شہر کے وجود میں آنے سے وہاں کی معاشیات پر بهی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک لڑکے نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے پورے شہر کو دنیائے عالم میں سچائی اور محبت کی زندہ مثال بنادیا۔
ٹوورنٹو میں نمل کی ٹیم اس وقت پورے زور وشور سے اس تقریب کی ذمہ داریوں میں مصروف ہے۔ نہ وہ دن دیکهتے ہیں نہ رات، نہ دهوپ نہ بارش، گزشتہ ویکنڈ بهی جب سارا شہر شدید طوفان کی زد میں تها محکمہ موسمیات کی مسلسل وارننگ چل رہی تهی مگر نمل ٹورنٹو کی ٹیم اپنے مقررہ وقت پر طے شدہ میٹنگ میں مصروف تهی۔ کچھٍ کی گاڑیاں برف میں پهنس گئیں سب کو مشکلات ہوئیں مگر پهر بهی ان کے حوصلے نہیں ٹوٹے۔ خدا کرے کہ انسانیت کی بهلائی کے سب کام اتنے ہی خلوص اور دلجمعی سے ہوسکیں۔ ٹورنٹو کی اس شاندار ٹیم کی وساطت سے اس سال پورے کینیڈا کے مختلف صوبوں میں “نمل” کے فنڈریزنگ پروگرام منعقد ہورہے ہیں ۔ٹورنٹو، مانٹریال، کیلگری، سسکیٹون۔ و نی پیگ اور وینکوور میں پروگرام ہوں گے ۔ ایسے لگتا ہے نمل جو پچهلے سال ایک چهوٹا سا پودا تها جو صحت کے اعتبار سے ابهی ناتواں تها اس سال ایک تنومند درخت کی طرح پهیل گیاہے جس کی شاخیں پوری دنیا میں پهیل رہی ہیں جو پوری دنیاسے درد دل رکهنے والوں کا ظرف خود میں سمو کر ہمیشہ کیلئے ایک پهل آور درخت بن جائے گا بہت جلد انشاءاللہ۔
اس سال گیارہ مئی کو ہونے والا ٹورنٹو کا فنڈریزنگ ایونٹ نمل اور ٹورنٹو کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکهے گا اور اس کے بعد نمل کی ترقی کے بے شمار دروازے کهلیں گے۔ خدا کی رحمت پر یقین رکهنا چاہیئے اور اپنی مدد آپ کرنے والوں کے دن ضرور پهرتے ہیں ۔ نمل”پاکستان کا ایک تعلیمی پراجیکٹ ہے جس کی کامیابی اس بات کی ضمانت ہے کہ ہم آئندہ بهی پاکستان کی بہتری کے ایسے ہی پراجیکٹس پر اگر سچائی اور خلوص دل سے کام کریں گے تو انشااللہ ہمیں کامیاب ہونے سے کوئی بهی نہیں روک سکے گا خدا کا فرمان بهی ہے
۔ نصر من اللہ و فتح قریب ۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply