خالی نعرے بے سود ہیں /شہزاد ملک

الیکشن کے دنوں میں مخْتلف سیاسی پارٹیوں کے خوش نما اور دلفریب نعروں سے عوام وقتی طور پر متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ نعرے پارٹیوں کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لیکن اس مقبولیت کو دوام تب ملتا ہے جب برسر اقتدار آکر ان انتخابی نعروں کو حقیقت میں عملی جامہ پہنایا جائے بھٹو صاحب بلا شبہ عوام میں بہت مقبول لیڈر تھے ان کے بارے میں کچھ آنکھوں دیکھا عرض کرنے کی جسارت کروں گی صدر ایوب سے علیحدہ ہو کر بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی بنائی جس کے منشور کے بنیادی اصول تھے کہ یہ پارٹی مزدوروں کسانوں غریب اور پسے ہوئے لوگوں کی پارٹی ہے جس کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان تھا اور معاشی نظام اسلامی سوشلزم تھا بھٹو صاحب کے جلسوں میں ان کے مخاطب مزدوروں کو کہا جاتا رہا کہ ملک کی انڈسٹری میں ان کا بھی حصہ ہے کسانوں کو دلاسا دیا جاتا کہ وڈیروں سے زمین لے کر بےزمین کسانوں میں تقسیم کی جائے گی معاشرے کے سب غریب طبقات سے ان کی حالت بدلنے کے وعدے کیے گئے ان باتوں نے بھٹو صاحب کی مقبولیت کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا معاشرے کے غریب لوگوں کے لئے بھٹو صاحب امید کا استعارہ بن گئے جب بھٹو صاحب ستر کے انتخابات میں کلین سویپ کر کے برسر اقتدار آئے تو ان کی پارٹی کی امیدیں بہت بلند تھیں بھٹو صاحب نے اپنے سپورٹروں کی امیدوں پر پورا اترنے کے لئے ایک بڑا قدم اٹھایا ملک کی تمام صنعتوں اور پیداواری اداروں کے ساتھ ساتھ تمام پرائیویٹ سکولوں کو قومی تحویل میں لے لیا ان کے سربراہوں کی جگہ میرٹ کا خیال رکھے بغیر اپنی پارٹی کے لوگوں کو ایڈمنسٹریٹر لگا دیا وقتی طور پر ان کی واہ واہ ہوگئی مگر اس کا نتیجہ خوفناک معاشی بحران کی صورت نکلا اناڑی اور نا اہل ایڈمنسٹریٹرز کے ہاتھوں انڈسٹری بینک اور ایجوکیشن سسٹم تباہ ہوگئے بیشتر صنعت کار ملک سے باہر چلے گئے اچھی بھلی چلتی انڈسٹری کا پہیہ جام ہوگیا ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا انہی حالات میں 77 کے الیکشن ہوئے جن میں دھاندلی کا شور مچا اور بعد کی تاریخ سب کو معلوم ہے لیڈر کتنا بھی مقبول ہو عوام کی آنکھ کا تارہ ہو لیکن اگر ملک کی اقتصادیات نہ سنبھال سکے تو مقبولیت بھی نہیں سنبھلتی بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم کے نام پر جس نظام کا تجربہ کیا تھا وہ پاکستان میں کامیاب نہیں ہوا اگلے الیکشن میں عوام نے پیپلز پارٹی کو اس کی کارکردگی کی بنا پر پرکھا اور اور چاروں صوبوں کی مقبول پارٹی الیکشن ہار گئی ان کے بعد طویل مارشل لا اور جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں نے خاص طور پر مجلس شوری کلچر اور غیر سیاسی انتخابات کے تجربے نے ملک میں تباہ کن کرپشن کو کینسر کی طرح پھیلا دیا اور سیاسی اخلاقیات اصول اور قواعد خواب ہی ہوگئے
اس تحریر کو کسی پارٹی پر منفی تنقید نہ سمجھا جائے بلکہ الیکشن سے پہلے کے دعووں وعدوں نعروں اور الیکشن کے بعد حکومت میں آکر ان انتخابی نعروں پر عمل درآمد نہ کرسکنے کی صورت میں عوام کی بددلی پر منتج ہونے کی ایک مثال کے طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اور ایسا ہر اس پارٹی کے ساتھ ہو سکتا ہے جو حکومت میں آنے کے بعد عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکے گی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply