صحافت میرا شوق ہے، اور ٹریننگ میرا روزگار ہے۔ صحافت اور صحافیوں کی بہتری اور تعلیم و تربیت میرے ذہنی میلان کا لازمی جز ہے۔ اس موضوع پر میں پڑھنا، لکھنا، سیکھنااور بات کرنا پسند کرتا ہوں۔ اس ضمن میں اپنے سینئرز کی رائے کو خاص اہمیت دیتا ہوں۔میں چونکہ ڈیجیٹل سے وابستہ ہوں،یہ سوال اکثر سنتا ہوں کہ پاکستان میں صحافت کا زوال کیسے اور کیوں ہوا؟اورصحافیوں کی ٹریننگ پر توجہ کیوں نہیں دی گئی ہے؟تاکہ وہ جد ید صحافتی تضاضوں کو سمجھ سکیں۔
سینئرصحافی، کالم نگار اور ”پی یو جے ایف: آزادیِ صحافت اور جدوجہد کے ستر سال“ کتاب کے مصنف وراث رضا کی زبانی۔ وارث رضا، صحافت، صحافتی قدر وں اور زندگی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے روایتی صحافت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور آج کی جدید صحافت سے بھی آشنا ہیں۔وہ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔
سوال: آج کل کی صحافت کے ٹرینڈز کیا ہیں؟۔اس پر بات کرتے ہوئے وارث رضا کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا آگیا ہے، اور سوشل میڈیا کا زمانہ ہے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ پاکستانی صحافت کی روایات اور اقدار خاصی متاثر ہوئی ہیں۔ صحافت سے اخلاقیات اور شائستگی، جوکہ صحافت کا برتاؤ اور صحافی کی ذمہ داری ہوتا ہے، بتدریج ترقی کے مقابلے میں زوال پذیر ہوئی ہیں۔
صحافی کی سب سے بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ذرائع کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اپنے ذرائع کو کسی بھی قیمت پر ضائع نہیں ہونا دیتا ہے۔صحافی کو رپورٹنگ کے معاملے پرغیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنی چاہیے تاکہ قاری اور ناظر رپورٹنگ کے بعد خود اس خبرکا جائزہ لے اور اپنی رائے بنائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں خاص طور الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کی آمد کے بعد یہ رجحان آیا ہے کہ ہمارا اینکر نما صحافی قارئین اور ناظرین کے لئے خود ساختہ تجزیہ کار بھی بن گیا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس سے صحافت کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔وارث رضا نے دو ٹوک انداز سے کہا کہ،اینکر چونکہ فیلڈ میں کام نہیں کرتے ہیں، فیلڈ میں کام نہ کرنے کے باعث وہ صحافت کے اسرار ورموز سے واقف نہیں ہوپاتے ہیں۔لہذا میرے نقطہ نظر سے ایک اینکر،صحافی کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا ہے۔کیونکہ وہ اینکر صحافت کے جملہ امور، رپورٹنگ یا ایڈیٹنگ اور شفافیت کے معاملات سے ناواقف ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے اینکر ہمارے ہاں عمومی طور سے صحافت کے لئے ضرر رساں ہوتے جا رہے ہیں،وہ صرف اس بنیاد پر اینکر بن جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ خوش شکل ہے، یا چرب زبانی سے زبان کی ادائیگی کر لیتا ہے، یا اُس کی پریزنٹیشن اچھی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ پریزنٹیشن کی مہارت اسے ایک اچھا صحافی بھی بنا رہی ہے۔
وارث رضا کی تشویش یہ تھی کہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہوا ہے کہ جو پریزنٹر ہے وہ صحافی بن گئے ہیں، چونکہ اس کے پاس تجربہ نہیں ہے۔ وہ صحافت کی اُٹھک بیٹھک، اتار چڑھاؤ، صحافت کے تقاضوں، لوازمات، شائستگی، تجربے اور صحافتی نگاہ سے قاصر ہوتا ہے،لہذا وہ ایک پریزنٹر کے طور پر زیادہ سے زیادہ چرب زبان کی مہارت کو استعمال کرکے کوشش کرتا ہے کہ جو اس کو ٹائم دیا گیا ہے اس ٹائم میں وہ اپنے معاملات کو سمیٹے،جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ناظر موضوع کی باریک بینی یا سنجیدگی سے محروم رہ جاتا ہے اور اس سے اس کی سیاسی و سماجی تربیت نہیں ہو پاتی ہے۔الیکٹرونک میڈیا کے اس غیر صحافیانہ ٹرینڈ کا یہ نقصان ہوا کہ پورا پروگرام ناظر کی تربیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
وارث رضا کے خیال میں اچھے صحافی کی پولیٹیکل تربیت بہت ضروری ہے،اگر کسی بھی صحافی میں معاشیات کا جائزہ،سیاسی پس منظر وسیاق وسبق اور زمینی حقائق سے واقفیت نہیں ہوگی تو وہ ایک اچھا صحافی نہیں بن سکتا ہے۔
سوال: ہمارے ہاں پرنٹ میڈیا ڈاؤن کیوں ہوا ہے؟
جواب میں وارث رضا نے کہا کہ میرے نزدیک یہ پرنٹ میڈیا کا زوال ہرگز نہیں،بلکہ ہمارے سماج میں پڑھنے کے رجحان کی کمی کا سوال ہے،اسی دوران سہل پسند ڈیجیٹل میڈیا کا وہ انقلاب آگیا جس میں ہم پرنٹ میڈیا کی ابجد سے ناواقف ہوتے ہوئے موجودہ عہد کے تقاضے اپنی سماجی ضرورت کے مطابق نہیں کر پائے ہیں،ہماری ناخواندگی کی وجہ سے ڈیجیٹل میڈیا پر پرنٹ میڈیا کا اثر کم ہوا ہے، جس کی وجہ سے پوری نسل لکھنے پڑھنے سے دور ہوئی ہے جو کہ سماجی خرابی کا خطرناک نشان ہوتا دکھائی دیتی ہے،مثلاً اس نسل میں پڑھنے کا رحجان نہیں ہے لہذا نہ وہ کتابوں کی طرف نہ جا رہی ہے اور نہ وہ اخبار کے قاری بننے کی طرف سفر کر رہی ہے،جس وجہ سے پورا سماج معلومات کی درست آگہی سے محروم ہو رہا ہے۔اب ہمارے گھروں میں اخبار آنا بند ہو چکے ہیں یعنی ایک زمانہ تھا کہ صبح اخبار آنا بہت ضروری ہوتا تھا۔اب تو اخبار پڑھنے کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے، اخبار گھر میں آنے کو بلاوجہ پیسہ ضائع ہونے کا ذریعہ سمجھا جا رہا،بلکہ اب تو اخبارکو ردی تصور کر لیا گیاہے، جو نہایت خطرناک رحجان ہے۔
وارٹ رضا سمجھتے ہیں کہ اس سیاسی اور جمہوری شعور سے بے بہرہ سماج میں ڈیجیٹل میڈیا کے فوائد سے زیادہ نقصانات ہیں۔اس لیے کہ ایک تو ڈیجیٹل میڈیا وقت میں چیزوں کو قید کر دیتاہے،جبکہ سنجیدہ موضوع وقت کے محتاج نہیں ہوتے ہیں،سنجیدہ موضوع کا مطلب ہی ہے کہ وہ سماج کو کیا دے رہے ہیں اور سماج ان سے کیا لے رہا ہے،چونکہ سماجی، سیاسی، اخلاقی تربیت نہیں ہو رہی ہے،سو صحافت کی اقدار پامال ہو رہی ہیں،ڈیجیٹل میڈیا یقیناً ترقی کر رہا ہے،مگر وی لاگ انفرادی شخصیت کی کمائی کی حد تک کا ہی ذریعہ ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ آپ سماج کو کیا دے رہے ہیں۔۔۔؟
سوال:ہمارے صحافتی ادارے، صحافتی تنظیمیں اور صحافی، ڈیجیٹل میڈیا کی نئی چیزیں کو سیکھنے سے قاصر کیوں ہوئے ہیں؟ وہ اس گیپ کو کیوں نہیں پُر کرسکے جس کی وجہ سے نان پروفیشنل لوگ ڈیجیٹل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں؟
جواب : اُنہوں نے کہا تمہارا سوال بہت اہم ہے۔ بلکہ یہ بہت فکر انگیز سوال ہے،جدید خطوط پر تربیت دلانے میں بنیادی ذمہ داری اداروں کی ہوتی ہے۔اصل میں ہمارے ہاں بنیادی طور سے صحافت کے ادارے قائم نہیں ہوئے، اگر قائم ہوا بھی تو ایک ”پیپلز پبلشنگ ہاؤس“یا میاں افتخار الدین کا صحافتی ادارہ قائم ہوا جس سے معروف اخبار فیض احمد فیض کی ادارت میں پاکستان ٹائمز،امروز وغیرہ نکلے،جبکہ دوسری جانب Point view تھاجس کی ایڈیٹر ایلس فیض تھیں۔یعنی جب میاں افتخار نے ادارہ بنایا تو پہلی مرتبہ صحافیوں کی تنخواہوں میں اضافے اور تربیت کا مربوط نظام قائم ہوا،اور اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پہلی مرتبہ میاں افتخارالدین نے پی ایف یو جے کے مطالبے پر ”ویج کمیشن“کے مطابق صحافیوں کی نتخواہواں اور مراعات کا اعلان کیا،جبکہ آج پی یو جے ایف اپنی کمزور تنظم اور ڈھروں میں تقسیم ہو نے کے باعث آج تک ویج کمیشن کے اعلان پر اخباری مالکان اور حکومت کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے آج تک عمل پیرا نہیں ہوجاسکا ہے۔
میاں افتخار کے اس ادارے میں پاکستان ٹائمز سے لے کر اس وقت کے بڑ ے ا خبارات تھے،جن سے صحافت کی نسل نے شعوری تربیت پائی جو آج بھی کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے،مگر آمرانہ فوجی اقتدار کو صحافت کی آزادی کھٹکی تو انہوں حکومت کی طاقت سے ان روشن خیال اور سماج سدھارک اخبارات اور اداروں پر پابندی لگادی کہ یہ ادارے کیمونسٹوں کے ہیں اور یہاں کمیونزم کے لئے کام کر رہے ہیں،گویا روشنی پھیلانا اس سماج میں جرم کر دیا گیا۔اداروں کا بنیادی کام صحافیوں کی اس وقت کے جدید آلات سے آگہی فراہم کروانا اور ان کی جدید خطوط پر تربیت کروانا ہوتا ہے۔فوجی آمروں نے منصوبہ سازی کے تحت صحافت کے مقدس مشن کو جب پیشہ بنایا تو پیشے کے لئے حکومت کو پیشہ ور منافع خور سرمایہ دار چاہیے تھے جو صحافیوں کی مہارت ختم کریں اور انہیں ”مشن“ کے مقابل روزی روٹی میں الجھا دیں۔۔۔اور ایسا آج تک ہو رہا ہے،اب صحافتی ادارے میڈیا ہاؤسز میں لپیٹ دیئے گئے ہیں جن سے کاروباری مالکان،گھی والا،سونے والا،بلڈرز مافیا،اسٹیٹ ایجنٹ حکومت کے ساتھ مل کر اپنی ناجائز کمائی میں اضافہ کر رہے ہیں جبکہ صحافی یا تو تنخواہ نہ ملنے پر خودکشی کر رہا ہے یا ڈیوٹی کے دوران کسی حادثے کا شکار ہورہا ہے، کیونکہ تمام صحافتی ادارے سرمایہ دار سیٹھ کے ماتحت ہوگئے ہیں،سو سرمایہ دار پہلے حساب کتاب کرتا ہے کہ اس کی ٹریننگ پر کتنا خرچ ہوگا اور وہ خرچہ کیوں نہ بچا لیا جائے،وہ اپنی محدود ذہنیت سے ٹریننگ کو خرچ اور پیسے کا ضیاع سمجھتا ہے۔ اس تنگ نظر یا منافع کی ہوس پرست سوچ کی وجہ سے تخلیقی اور صحافتی دُنیا جو بہت آگے جا رہی ہے اور جس میں جدت آرہی ہے اس سے ہمارے ہاں کے صحافی کو محروم رکھا جاتا ہے۔جدید صحافتی تربیت کے فقدان کی وجہ سے صحافی وہ مہارت یا آگہی حاصل ہی نہیں کرسکا جو پرنٹ میڈیا کی دُنیا سے بہت آگے کی ضرورت ہے۔بعض لوگوں کو تو ای میل کرنا بھی نہیں آتا تھا،اس میں ان کا کوئی قصور نہیں،یہ سارا کام ہے ادارے کا ہے ان کو یہ کام کرنا چاہیے تھا لیکن ہمارے ہاں چونکہ سرمایہ دارانہ لوگوں نے صحافت کو سنھبال لیا ہے جس کو صرف اپنے منافع سے دلچسپی ہے۔ ہمارے ہاں صحافت کو مقدس مشن یا تربیت یافتہ صحافی بنانے میں چراغ الدین حسرت، فخر ماتری،ابراہیم جلیس جیسے لوگ آج بھی یاد کئے جاتے ہیں،ہماری صحافت کا المیہ مشن کو پیشے میں منتقل کرنے والے منافع کے لالچی سرمایہ دار ہیں،جنہوں نے صحافت کی بہتری اور صحافیوں کی ٹریننگ تو نہیں کی لیکن اس مقدس مشن کو اپنی کمائی اور تعلقات کا ذریعہ کا بنا لیا ہے۔ہمارے ہاں منہاج برنا کی قیادت نے مضبوط صحافتی تنظیمیں قائم کیں جو 1980 سے 1985 تک صحافتی حقوق کے لئے بہت زیادہ متحرک تھیں،برنا صاحب کی حیات میں یہ تنظیمیں مالکان کو صحافتی حقوق کے تربیت والے شعبے کی قدرو قیمت کی آگہی فراہم کرکے صحافیوں کی تربیت کا انتظام کروایا کرتی تھیں، مالکان اخبارات پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ صحافیوں کی ٹریننگ کرواؤ جبکہ صحافتی تنظیمیں خود بھی سیمیناز منعقد کرتے تھے۔ اور مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔
آمر جنرل ضیاء الحق نے صحافت کو کچلنے کی جنرل ایوب کی کوشش کو عملی جامہ پہنایا اور صحافت کی آزادی کو چبانے کی پوری کوشش مذہبی صحافت کی آڑ میں کی،جس کی وجہ سے صحافتی تنظیمیں اور ادارے خراب ہو گئے، صحافتی تنظیموں کو حکومتی آشیرباد سے مذہبی پردے میں کمزور کیا گیا،تو صحافتی تنظیموں اور اداروں میں مفاد پرست افراد کی شرکت ہوئی اور یوں صحافیوں کی مضبوط ٹریڈ یونین تقسیم اور مفادات کا شکار ہوگئیں،جو آج دیکھا جا سکتا ہے کہ صحافی بیروزگار اور تنخواہ سے محروم ہے مگر درجنوں کی تعداد میں صحافتی تنظیمیں کچھ نہیں کر پارہیں بلکہ صحافتی تنظیموں میں مالکان کے پسندیدہ افراد ہی صحافتی تنظیموں کے کلیدی عودوں پر ہیں جو صحافی کے مقابل سرمایہ دار مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
صحافتی ٹریننگ پر توجہ آج بھی نہیں دی جا رہی ہے، حالانکہ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں نئی جدت اور نئی ایجادہو رہی ہیں،جو آج کے ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں کو بھی نہیں سیکھائی جارہی ہیں۔
میں جناب وراث رضا کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے اپنی قیمتی خیالات کا اظہارجامع انداز میں کیا ہے۔میرا ماننا یہ ہے کہ میڈیم چاہے جو بھی ہو صحافت کی بنیادی اقدار اور ذمہ داریاں، اور اس کا سماجی اورصحافتی کا کردار ہے،وہ کبھی بھی نہیں بدلے گا۔چاہے زمانہ کتنا ہی کیوں ڈیجیٹلائز ہو جائے،مگر صحافی کے فرائض اور اس کا کردار صحافیانہ اصول پر ہی رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحافی اور صحافت کی تنظیمیں اس نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوں اور اس کا مثبت استعمال کرتے ہوئے اپنی آواز عوام تک پہنچا کر ان کے شہری اور جمہوری حقوق کا دفاع کرسکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں