ہوا کے دوش پر افغان باشندے۔۔۔ نذر حافی

پاکستان مسائل میں گھرا ہوا ہے، ایک طرف سے ہندوستان بارڈر پر بارود کی بارش کر رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان بارڈر پر گولہ باری کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ جس طرح ہندوستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو اس کا ملبہ فوراً پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے، اسی طرح اگر افغانستان میں بھی دہشت گردی کا کوئی حادثہ ہو جائے تو اس کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ پاکستان نے گذشتہ سینتیس سالوں سے افغانیوں کی ایک پوری نسل پالی ہے، اس وقت بھی اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق افغانیوں کی سب سے زیادہ میزبانی کرنے والا ملک پاکستان ہی ہے اور پاکستان میں اس وقت بھی آن دی ریکارڈ 14 لاکھ 50 ہزار سے زائد افغان باشندے زندگی گزار رہے ہیں۔ ماضی میں ہمارے حکمرانوں سے جہاں اور بہت ساری غلطیاں ہوئی ہیں، وہیں ان میں سے ایک افغان باشندوں کی آباد کاری کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی بھی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ افغان آبادیوں کو حکومت کے زیرِ نظر رکھا جاتا اور ان کی مناسب تعلیم و تربیت اور روزگار کا بندوبست بھی کیا جاتا۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ غفلت برتی، جس کے نتیجے میں افغانیوں کی ایک پوری نسل پاکستان میں ہوا کے دوش پر پیدا ہوئی اور کوڑے اور کچرے کے ڈھیروں پر جوان ہوئی۔

یہ بچے جنہوں نے شرافت، عزت اور تہذیب کا منہ نہیں دیکھا اور جنہیں علم و ادب کی ہوا نہیں لگی، ان میں سے کچھ منشیات کے بادشاہ بنے اور کچھ دیگر جہاد انڈسٹری سمیت متعدد مافیاز کا نوالہ بن گئے۔ ان کے دلوں میں پاکستان کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی ہمدردی اور رحم نہیں ہے۔ اس صورتحال کو ہندوستان نے اچھی طرح درک کر لیا ہے اور ہندوستان بھی انہی پاکستان دشمن بچوں سے پاکستان کے خلاف استفادہ کرتا ہے، جو پاکستان کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ خود افغانستان حکومت کے اندر بھی ہندوستان کا اثرونفوذ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ دوسری طرف خود پاکستان کے اندر ایسے غداروں کی بھی کمی نہیں ہے، جنہوں نے افغان باشندوں کو جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا کر دیئے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں دوسرا ناپسندیدہ ترین پاسپورٹ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی تعداد 25 لاکھ سے زائد ہے اور ان پچیس لاکھ میں سے 10 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین یہاں غیر رجسٹرڈ طور پر آباد ہیں۔

ایسے میں اگر کوئی صحافی ان ملکی مسائل پر قلم اٹھائے تو اسے ذیشان اشرف بٹ کی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ کسی کو بولنے اور سوچنے ہی نہیں دیا جاتا، افغانیوں کے مسائل اپنی جگہ، پاکستان میں عمومی صحت کا یہ عالم ہے کہ صرف 36 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے، تھیلیسیمیا اور ایڈز کے پھیلاو میں اضافہ ہوا، جبکہ پاکستان پولیو کی منتقلی کو مکمل روکنے میں بھی ناکام رہا۔ افسوس صد افسوس کہ 56 لاکھ بچے پرائمری اور 55 لاکھ سیکنڈری اسکولوں سے باہر ہونے سے دنیا بھر میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد پاکستان میں سب سے زیادہ رہی۔ اسی طرح تپ دق کی شرح میں سرفہرست پاکستان ہی ہے، جبکہ ہیپاٹائٹس کے پھیلاو میں دوسرے نمبر پر ہے، جیلوں میں قیدیوں کی اضافی تعداد اور جبری گمشدگیوں کے مسائل اپنی جگہ پھن پھیلائے ہوئے ہیں اور ملک اقلیتوں کے لئے غیر محفوظ ترین منطقہ بن چکا ہے۔ سرحدوں پر فائرنگ ہو رہی ہے اور اندرون ملک عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں، حتٰی کہ روڈ پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں کہ گاڑی کتنی رفتار سے چل رہی ہے، گاڑی کا اندرونی ماحول حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں، سیٹوں کی صورتحال بیٹھنے کے قابل ہے یا نہیں، کرائے کی شرح قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے منصوبہ ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ ہوا کے دوش پر سوار افغان باشندوں کو قانون کے مطابق واپسی کا راستہ دکھائیں اور ملک میں جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے والوں کا پیچھا کیا جائے۔ اسی طرح صحافیوں پر تشدد کرنے اور انہیں گولیاں مارنے کے بجائے عوامی شکایات سننے کے لئے مختلف مقامات پر ٹیلی فون نمبرز آویزاں کئے جائیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں کو انسان سمجھا جائے اور انسانوں کو انسانی حقوق دیئے جائیں۔ پاکستانیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ چاہے وہ اکثریت سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی اقلیت سے، وہ سب ایک آزاد ریاست کے باشندے ہیں، کسی کے غلام نہیں ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک میں مقیم غیر قانونی افغان باشندے، پاکستان اور پاکستانیوں کی سلامتی کے لئے سخت خطرہ ہیں۔ اس خطرے سے پہلی فرصت میں حکمتِ عملی کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply