کتھا چار جنموں کی ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند/ قسط نمبر26

وِلے نیل۔ ایک فرانسیسی صنف۔Oral Literature = Orature اوریچر

انگلستان کے 1971-73 کے قیام کے دوران ایک اور شخصیت سے ملاقات ہوئی جو خود چاہتے تھے کہ مجھ سے ملیں۔ یہ والٹر جے اونگؔ Walter J. Ong تھے جو ایک ایسے موضوع پر کام کر رہے تھے، جس میں مجھے بھی خاطر خواہ دلچسپی تھی۔ ان کی محققانہ نظر یورپ کی زبانوں پر خصوصاً اور ایشیا کی کچھ زبانوں پر عموماً صرف ایک حوالے سے تھی، کہ ان کے اد ب میں کس حد تک لوک شاعری کی اس روایت کا عنصر شامل ہے، جسے مدت المدید تک تحریر میں نہیں لایا گیا اور چوپالوں میں، راستوں کے پڑاؤوں پر، سرائے یا دھرم شالاکی چھپرکھٹ پناہ گاہوں میں یا کھلے میدانوں میں الاؤ جلا کر ہاتھ تاپتے ہوئے گایا گیا ہے اور لوگوں نے اس کی تال پر چٹکی بجا کر یا تالی کی آواز سے ساتھ دیا ہے۔ یہ سنی سنائی جانے والی داستانیں ہر عہد میں اور ہر ملک میں تھیں اور جب انہیں تحریر میں لایا گیا تو بھی کتاب یا غیر مجلد اوراق سامنے رکھ کر قصّہ خواں گلو کاروں نے انہیں ہمیشہ گا کر سنایا۔ وہ خود مجھ سے اس لیے ملنا چاہتے تھے کہ ہندوستان جانے سے پہلے مجھ سے معلوم کریں کہ چاہے میرے ملک میں اس روایت کا لوک گاتھاؤں سے منسلک ہونا ایک طے شدہ امر ہے تو بھی کیا میلوں ٹھیلوں میں کتھا واچک، گلو کار، مداری اور شعبدہ باز آج بھی اس روایت کی کسی شاخ کو نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔اور یہ قصّے گا کر سناتے ہیں۔ ڈاکٹر اونگؔ سے ہی میں نے پہلی بار ”اوریچر“ کی اصطلاح سنی۔ Oral + Literature = Orature اور ذہن میں محفوظ کر لیا، اس لیے کہ ان سے ملاقات سے بہت پہلے ہی میں صنف غزل کی بیخ و بنیاد کو عرب میں قصیدہ گوئی تسلیم کرنے کے بعد اس کے ثبوت تلاش کیے تھے کہ اسلام کے ظہور سے قبل، بلکہ کعبہ کی دیوارو ں پر لکھے جانے سے بھی بہت پہلے، بہادری کے وہ قصص جو مختلف قبیلوں میں زبان زد عام تھے، اور سینہ بہ سینہ چلتے ہوئے اس وقت تک پہنچے تھے، جب انہیں قلمبند کیا تھا، کیا آج بھی دور دراز کی صحرائی بستیوں میں رہنے والے اسی طرح گا کر پڑھتے ہیں۔ اس کا چرچا میں نے اپنی ایک تقریر میں کیا تھا جس میں دیگر اسکالرز کے ساتھ کہیں ڈاکٹر اونگ بھی بیٹھے تھے۔ بعد میں ان سے تعلق ہوا تو اس موضوع کی مختلف جہات پر مجھے ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔

میرا تعلق آج تک ان سے قائم ہے، لیکن تب تک ان کی وہ کتاب نہیں چھپی تھی، جو چھپنے کے بعد یعنی 1985ء میں  مجھے ان سے اعانتاً ملی تھی، اور جس میں دیے گئے معروضات کی روشنی میں میرے ایک درجن کے قریب وہ مضامین شائع ہو چکے ہیں، جن میں صنف غزل کی اس جہت کے حوالے سے کہ یہ سنی سنائی جانے والی صنف شعر ہے، میں نے اسے ”اوریچر“ کہا تھا۔ یہ کتاب ہے۔
Orality and Literacy: The Technologizing of the Word. Routledge, London & New York. 1983

میں یہاں اپنی خود نوشت سوانح میں اس کتاب کے مندرجات کی تفصیل نہیں لکھنا چاہتا، لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ جب میں نے ڈاکٹر اونگؔ کو یہ بتایا کہ ہندی، اردو اور برصغیر کی دیگر زبانوں میں ایک لفظ ”سنانا“ بھی ہے، جس کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہو سکتا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ To read out to others / To receite / To make some one listen to what you are saying وغیرہ انگریزی کلمات ہندوی لفظ ”سنانا“ کی nearest approximations ہیں، لیکن صحیح ترجمہ نہیں ہے۔ میں نے اسے یہ بتایا، کہ ہندی میں تو نہیں لیکن اردو میں شاعری کو ”کلام“، ”سخن“ وغیرہ القاب دیے جاتے ہیں اور شاعر کبھی یہ نہیں کہتا، کہ اس نے یہ غزل یا نظم لکھی ہے، وہ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ اس نے یہ نظم کہی ہے۔ ڈاکٹر اونگ نے اسی وقت یہ باتیں نوٹ کر لیں۔ ان کی کتاب چھپنے کے بعد مجھے حیرت آمیز خوشی ہوئی جب میں نے اپنے حوالے سے نصف صفحے پر یہ بحث بھی دیکھی کہ کیا اس قسم کی کسی صنف شعر کو، ’لٹریچر‘ نہ مان کر ’اوریچر‘ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
…………………………….
ان ڈیڑھ پونے دو برسوں میں دو بار فرانس جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک بار تو ایک خاتون کے ساتھ جس کا ذکر یہاں نا موزوں ہے، کہ ”انتقام“ والی انگریز حسینہ کو نا امید کرنے کی کہانی دہرانے میں کوئی تُک نہیں ہے، اور دوسری بار اپنے ایک نیم بیلجین نیم انگریز نیم فرانسیسی رفیق کار کے ساتھ جو ڈاکٹر اونگؔ کی طرح ہی ایک ایسی صنف شعر پر تحقیقی کام کر رہا تھا، جو اٹھارہویں صدی تک تو سارے یورپ میں مقبول رہی،لیکن اس کے بعد آہستہ آہستہ معدوم ہو گئی۔ اس کا دور دورہ بہ نسبت دوسرے ملکوں کے فرانس میں
زیادہ رہا اور یونیوسٹی میں میرے رفیق کار ٹم بیسنیٹ ؔTim Bassnett فرانس میں اس غرض سے جا رہے تھے کہ سار بان یونیورسٹی Sorbonne Universityکے میوزیم میں کچھ مخطوطا ت دیکھ سکیں۔میں ان کے ساتھ صرف اس لیے نتھّی ہو گیا، کہ اس طرح میں بھی اس مشہور زماں یونیورسٹی میں دو چار دن رہ کر وہاں کے ماحول کو خود میں جذب کر سکوں گا اور یہ دیکھ سکوں گا کہ جیسے اردو میں کچھ اصناف سخن (سہرا، نوحہ، ہجو، شہر آشوب وغیرہ) خودہی معدوم و متروک ہوتی چلی گئی ہیں، یورپ میں وہ کون سی اصناف تھیں، جن کا کوئی نام لیوا فی زمانہ باقی نہیں ہے۔ ٹموتھیؔ پہلے مجھ سے ذکر کر چکے تھے کہ انہیں زیادہ دلچسپی ”وِلے نَیل“Ville Nelle (نَیل کی آخری لام متشدد اور متحرک) میں ہے، جس میں ہزاروں کی تعداد میں گیت لکھے گئے لیکن اب یہ صنف اس لیے معدوم ہے کہ گانے والے نہیں ہیں۔
ساربان یونیورسٹی میں مجھ پانچ ہندوستانی ملے، لیکن کسی سے کوئی تعلق ِ خاطراستوار نہ ہو سکا۔ بات ہیلو ہیلو تک ہی محدود رہی، یا سوال و جواب کے اس سلسلے تک ہی کہ آپ انڈیا میں کس جگہ سے آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ پانڈیچری کے ایک صاحب سے البتہ اوروبندو گھوش کے بارے میں بات چیت ہوئی کہ وہ اپنی جوانی کے آغاز میں اس مہرشی شاعر سے بخوبی واقف رہے تھے۔ اگر میرے پاس کچھ دن اور ہوتے تو میں ٹھہر کر ان سے مہرشی اوروبندوگھوش کی باتیں سن کر نوٹ کر سکتا تھا، لیکن مجھے پیرس بھی دیکھنا تھا، اور پھر ٹموتھی کا ساتھ بھی اس لیے نبھانا تھا کہ ہم دونوں ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ فرانسیسی لوگ اس بارے میں بہت خود کفیل ہیں کہ انگریزی جانتے ہوئے بھی وہ حتےٰ الوسع انگریزی نہیں بولتے اور اپنی زبان میں بولنے کو ترجیع دیتے ہیں۔ اس لیے ٹِم کی معیت میں ہی، ساتھ ساتھ چل پھر کر سیر و تفریح کے لیے جانا ضروری تھا۔

”ولے نیل“ بنیادی طور پر ایک اطالوی صنفِ نغمہ ہے۔ لوک گیتوں کے قبیل کی یہ اطالوی نظمیں گاؤں گاؤں گھومنے والے گلوکار minstrels گایا کرتے تھے اور اس طرح چند سکے یا کھانے پینے کا سامان جو کچھ بھی مل جاتا، پلّے باندھ کر آگے چل پڑتے تھے۔ یہ ”لوک گائک“ ہی اس صنف کو اٹلی سے فرانس میں لائے اور چونکہ موضوعات اور مضامین عیسیٰ  مسیح کی زندگی سے متعلق ہوتے تھے، ان کو عوام الناس ایک مقدس فرقہ سمجھ کر ان کی قدر کرتے تھے۔ ایک بار جب یہ صنف فرانس میں متعارف ہوئی تو وہاں کے شاعروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کو ادبی اور شعری مراتب کے اسکیل میں اونچا رکھ کر اس کے قواعد مرتب کیے۔ سترھویں صدی کے آخر تک یہ ایک مقبول صنف سخن بن چکی تھی۔ اس کے موضوعات میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آئی۔ اس میں جو مضامین در آئے ان میں دنیا کی بے ثباتی، احباب کی بے مروّتی، محبوبہ کی بے وفائی، مرگ ناگہاں کی بے وقت آمد وغیرہ شامل ہو گئے۔ اس میں انیس یا بیس مصارع کا ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ یعنی تین تین مصرعوں کے پانچ بند، اور آخری بند چار یا پانچ مصرعوں پر مشتمل ہوتا۔ قافیہ بندی، یعنی Rhyme Schemeاس طرح تھی۔ دائیں سے بائیں۔۔۔۔
aba + aba + aba + aba + aba یعنی تین تین مصرعوں پر مشتمل پانچ سطریں اور اس کے بعد آ خری بند میں اگر پانچواں مصرع جوڑا جائے تو قافیہ بندی
a a b c aہو گی، لیکن اگر انیس سطروں پر مشتمل کیا جائے تو آخری بند کی رائم سکیم یہ ہو گی۔ a a b b
دیگر ضروری قواعد یہ تھے۔ پہلی تکون کا پہلا مصرع، دوسری اور چوتھی تکون کے آخری مصرعے کے طور پر دہرایا جاتا تھا۔ اسی طرح پہلی تکون کا آخری مصرع، دوسری اور چوتھی تکون کے آخری مصرعے کے طور پر دہرانا ضروری ہوتا تھا۔ اور پھر اسی طرح ہی پہلی تکون کا آخری مصرع، تیسری، چوتھی اور پانچویں تکون کا پہلا مصرع بن جاتا تھا۔ چونکہ یہ تکرار ایک نپے تلے اور سختی سے عائد کیے گئے اصولوں کے مطابق تھی، اس لیے موضوع اور مضمون سے بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا اور نظمیہ تخلیق کی نامیاتی وحدت برقرار رہتی تھی۔ کچھ دہائیوں کے بعد محسوس کیا گیا کہ یہ قواعد کچھ زیادہ ہی سخت ہیں تو پہلی پانچ تکونوں   کے دوسرے مصرعوں کے مقفےٰ ہونے کی پابندی ختم کر دی گئی۔ اسی طرح آخری بند میں ایک اور قافیہ جوڑ دیا گیا۔

میں نے فرانس کے قیام کے دوران میں ہی وِلے نَیل کی صنف میں ایک اردو نظم لکھی، جو میرے ریکارڈ میں ہے۔ اس نظم کا کوئی عنوان نہیں ہے، کہ عنوان کی رسم ضروری نہیں سمجھی گئی تھی۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے یہ نظم کہیں اشاعت کے لیے بھیجی بھی تھی یا نہیں۔ بہر حال نظم یہ ہے۔

تمام زیست کی پونجی مری لٹاتی ہے
کہ خشک پتّوں کے اڑتے ہوئے بگولوں میں
ہوا خزاں کی مجھے بھی اڑائے جاتی ہے
جو عمر بھر کی کمائی تھی، لٹتی جاتی ہے
بڑھاپے کی یہ تھکن، جسم و جاں کی معذوری
تمام زیست کی پونجی مری لٹاتی ہے
ہوا خزاں کی مجھے بھی اڑائے جاتی ہے
افق کے پار جہاں آفتاب ڈوب گیا
”تمہیں بھی ڈوبنا ہو گا!“ مجھے بتاتی ہے
عجیب وسوسے دل میں مرے اٹھاتی ہے
مری حیات بھی ضائع، مری ممات بھی گم
تمام زیست کی پونجی مری لٹاتی ہے
ہوا خزاں کی مجھے بھی اڑائے جاتی ہے
چمن سے دور، خس و خاک، برگ و بار کے ساتھ
اجاڑ بن میں مرا مقبرہ بناتی ہے
بڑھاپے کی یہ تھکن، جسم و جاں کی معذوری
عیاں ہے مجھ پر مرے بال و پر کی مجبوری
شکستہ پاؤں، دریدہ بدن، قوےٰ بیکار
ہوا خزاں کی مجھے بھی اڑائے جاتی ہے
تمام زیست کی پونجی مری لٹاتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

لکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ انجانے میں ہی میں نے کیِٹس Keats کی نظم Ode to the West Wind سے بہت کچھ مستعار لے لیا ہے۔لیکن پھر بھی اس کے کچھ مصرعوں کی چست بندش مجھے بہت پسند آئی۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply