رات،شہر اور زندگی/عاصم کلیار

خداۓ سخن میرصاحب نے رات کو جوانی سے تعبیر کیا تھا۔
رات بہت تھے جاگے۔۔۔۔
رات یعنی جوانی ہنگاموں،یارانوں اور میخانوں میں بسر ہوئی۔
مگر رات نجانے کیوں پلک جھپکتے ہی گزر جاتی ہے اور نمود سحر کے ساتھ بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔
صبح کا استعارہ نامراد بڑھاپا۔۔صبح ہوئی اور آرام کیا یعنی ابدی نیند ہی سوۓ رہ گئے۔
میر صاحب کو گزرے سینکڑوں سال ہوۓ زمانہ ان کو فراموش نہ کر سکا مگر لغت میں معنی بدلنے لگے۔

شمیم حنفی کی کتاب رات،شہر اور زندگی میرے سامنے ہے۔
رات کے معنی اس کتاب کی رو سے موت
شہر، جنگل کی علامت
اور زندگی، خوف کے معانی میں ڈھل رہی ہے۔

جنگل کے طور پر شہر کلکتہ ۔۔۔۔اسی سرزمین بنگال کا حصّہ جس کے بسنے والے ہندوستان کے باسیوں سے سوچ کے لحاظ سے بہت آگے تھے۔”آخرشب کے ہمسفر” کا محلہِ وقوع،سندر بن،ٹیگور کی دھرتی،بودلئیر بھی پیرس سے اس شہر کے لۓ روانہ ہوا تھا۔غالب نے کلکتہ کا ذکر کرتے ہوۓ کسی ہم نشیں کو مخاطب کیا تھا۔

انگریز راج قائم ہوا تو اسی شہر کے باشندے نجات کے پرانے نسخوں کو آزمانے کے بعد اپنے ہم وطنوں میں یقینِ تازہ کی جوت جگا رہے تھے۔نئے قومی شعور کو بنیادی نصب العین کی حیثیت سے متعارف کروانے کے لۓ سکول کھولے گئے ۔انگریز سرکار کی سختیاں بڑھنے کے ساتھ کلکتہ کے طول و عرض میں جگہ جگہ بم بنانے کے خفیہ مراکز قائم ہوۓ۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملکہ وکٹوریہ کی حکومت سے نفرت کا درس دینے لگے ،6-1905 میں جب پرنس آف ویلز ہندوستان  میں انگلستان کی راجدھانی کلکتہ تشریف لاۓ تو ہر سو ایک نعرے کی گونج تھی۔
Tell your mother, we are unhappy
اس پیغام کے بعد پرنس آف ویلز  کی والدہ ملکہ وکٹوریا نے کلکتہ سے پایہ تخت دہلی منتقل کر دیا۔پایہ تخت کی منتقلی عظیم برٹش راج کی ہزیمت کا پہلا اشارہ تھا ایک اختتام کاآغاز۔۔

قحطِ بنگال۔۔
صرف 1943 کے اکال میں 34 لاکھ لوگ مرے بھوک افلاس کا وہ منظر اس شہر نے دیکھا کہ توبہ!
اپریل 1943،سڑک پر پڑی لاش کے پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ مرنے والے کے معدے میں صرف گھاس تھی۔منظر ویسا ہی مگر افلاس کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے ایک بوڑھے مچھیرے پر جب بھوکے کتے جھپٹے تو وہ اس قدر لاغر تھا کہ اپنا بچاؤ بھی نہ کر سکا۔
اب فضا بارود کی بُو سے بوجھل تھی۔۔

آزادی ،تقسیم1947
حواس سے زیادہ ذہن پر حملہ کرنے والا شہر کلکتہ اب بھی ویسا ہی ہے لوگ فٹ ہاتھ پر بچے پیدا کرتے ہیں وہ بچے ساری زندگی گزارنے کے بعد فٹ پاتھ پر ہی مر جاتے ہیں۔

دیارِ مشرق اے خطہ عجم تیرے مقدر میں رونا ہی ہے اکتوبر 1971 رضا شاہ پہلوی نے اپنی سلطنت کا پچیس سو سالہ جشن منانے کا اعلان کیا تو دس ہزار مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا تاکہ یہ جشن کے موقع پر رنگ میں بھنگ نہ ڈال سکیں۔پہلوی خاندان نے تشدد اور بے حسی کی  کہانی میں کئی رنگ بھرے ۔حسین مکی سے روایت ہے خاندان کا بانی رضا مخالفین کے جسم میں کھولتا ہو ا پا نی پمپ کرتا، سات برس کے بچے سے ستر برس کے بوڑھے کے ساتھ اس کا سلوک یکساں ہوتا ،منظر بدلتا ہے۔شاہ فقیر ہوا اسلام کا بول بالا انقلاب انقلاب مگر اے خطہ عجم تو اب بھی روتا ہے اور کتنا روۓ گا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ارض عجم اور ہندوستان کے ساتھ پاک سر زمین کہ رات کی سیاہی یہاں سے جاتی ہی نہیں، کالے جوتے اور مُلا رات کی سیاہی میں رنگ بھرتے جاتے ہیں ،مقبول لیڈر تختہ دار پر جھول گیا اور پیاری نور جہاں نے کہا موسیقی میرے لۓ خدا ہے، دوسرے روز اخبارات نے سرخی جمائی، نور جہاں کو از سر نو اسلام قبول کرنا ہو گا۔
اے مشرق کے لوگو تمھیں بہت رونا ہو گا۔
کلکتہ
ارضِ عجم
پاکستان
گجرات
بغداد ۔۔ادھر شامِ غم پناہیں ڈالے ہوۓ ہے۔
لمبی ہے شامِ غم لمبی ۔۔شامِ غم
اور ادھر ابھی مسلسل بلاؤں کا نزول ہوتا رہے گا۔
شامِ غم
اور
مسلسل بلائیں۔
سو ادھر کے شہر جنگل ہوۓ،رات موت ٹھہری اور زندگی خوف کی علامت ٹھہری۔
ایسے میں یہاں کے بسنے والے وطن چھوڑنے پر خوش کیوں نہ ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply