ٹرومین سینڈروم۔۔۔ محمد شاہ زیب صدیقی

ہماری دنیا احساسات سے بھری پڑی ہے۔ احساسات خوبصورت اور بھیانک دونوں طرح کے ہوسکتے ہیں، پر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں احساسات وہم کا شکار ہوجاتے ہیں۔وہم اپنے اندر کئی بیماریاں سموئے ہوئے ہے ،آج ہم اسی وہم کی دنیا میں قدم رکھیں گے اور ایک عجیب قسم کے احساس کا سامنا کریں گے۔ کیا آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ساری کی ساری دنیا ایک ڈرامہ ہے ،اس میں موجود سب افراد اداکار ہیں الغرض یہ سب ایک جھوٹ ہے۔ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ نفسیاتی بیماری ٹرومین سینڈروم کا شکار ہیں۔ اس بیماری کو فی الحال باقاعدہ طور پر نام دے کر رجسٹرڈ نہیں کیا گیا مگر اس کے کافی واقعات دنیا کے مختلف ممالک میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس بیماری کے پس منظر میں جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1998ء میں جِم کیری کی مزاحیہ فلم “دی ٹرومین شو “ریلیز کی گئی، اس فلم میں یہ دکھایا گیا کہ ایک شخص بچپن سے فلم کے سیٹ میں قید ہوتا ہے، دنیا میں موجود افراد ہر وقت اس کی زندگی کے ہر پل کو ایک ٹی وی اسٹیشن پر براہ راست دیکھ رہے ہوتے ہیں (جیسے آج کل بگ باس نامی رائیلٹی شو میں چند افراد کو سیٹ میں قید کردیا جاتا ہے اور ان کے ہر پل کو کیمرے سے ریکارڈ کیا جاتا ہے لیکن اس فلم میں ٹرومین کو جوانی تک معلوم نہیں ہوپاتا کہ وہ فلم کے سیٹ پر قید ہے)، جوانی کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد اس کی ایک دوست اس پر یہ راز آشکار کرتی ہے کہ وہ دراصل ایک فلم کے سیٹ میں قید ہے اور آس پاس موجود ہر شخص ایک ایکٹر ہے، ٹرومین جب یہ سنتا ہے تو اس فلم کے سیٹ سے بھاگنے کی ٹھان لیتا ہے اور بالآخر نکل آتا ہے، اس فلم کو دیکھ کر بہت سے لوگ ٹرومین سینڈروم کا شکار ہوگئےاور اپنے آس پاس موجود دنیا کو شک کی نگاہ سے دیکھناشروع ہوگئے،

پہلا کیس2002ء میں تب سامنے آیا جب ایک شخص پیدل نیویارک پہنچا جہاں اس نے نائن الیون واقعے کی جگہ دیکھی کیونکہ اسے شک تھا کہ اس کے آس پاس موجود دنیا میں سب کچھ جعلی ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں کیمرے موجود ہیں جو ہمہ وقت اس کی نگرانی میں مصروف ہیں لہٰذا ہوسکتا کہ نائن الیون واقعے کی خبر بھی سچ نہ ہو اسی خاطر وہ کنفرم کرنے نیویارک پہنچا کہ آیا   ورلڈ ٹریڈ سینٹر ابھی بھی موجود ہے یا فقط اس کو بیوقوف بنایا گیا ہے، اب تک اس بیماری کے 40 کیسز سامنے آچکے ہیں، اس بیماری کے شکار عموماً نوجوان افراد ہیں، ایسے ہی ایک شخص کے متعلق رپورٹ کیا گیا کہ اس نے Manhattan میں پناہ کے لئے درخواست دی تا کہ وہ اپنے اوپر فلمائے جانے والی  مبینہ “فلم” سے آزادی حاصل کرسکے، 2004ء میں بھی امریکی صدارتی الیکشن کے دوران ایسا ہی واقعہ رپورٹ کیا گیا، اسی بیماری کے باعث امریکن آرمی کا ایک جوان Statue of liberty پرچڑھنے کی کوشش کرتا دیکھا گیا کیونکہ اس کے نزدیک ایسا کرنے سے وہ اپنے اوپر بنائی جانے والی مبینہ فلم سے آزادی حاصل کرلے گا، لیکن اس کو موقع پر گرفتار کرکے بچا لیا گیا ، اس شخص نے اپنی بیماری کی وضاحت ان الفاظ میں دنیا کے سامنے کی: “مجھے یہ لگا کہ میں لاکھوں کروڑوں لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہوں، میرے خاندان سمیت دنیا کا ہر فرد اداکار ہے” مذکورہ شخص نے اسی بیماری کے باعث تین مرتبہ خودکشی کی بھی کوشش کی۔ ایسے ہی ایک صحافی کا کیس سامنے آیا جس کے نزدیک اخبار میں موجود کہانیاں اور خبریں محض اس کو بیوقوف بنانے کے لئے لکھی جاتی ہیں، دراصل حقیقت میں کچھ بھی ایسا نہیں ۔

ایک کیس میں ایک ٹی وی رائیلٹی شو میں کام کرنے والے شخص کے متعلق بھی انکشاف کیا گیا کہ اس کو یہ گمان ہوتا تھا کہ ٹی وی شو کا crew دراصل اس کی زندگی کو کنٹرول کررہا ہے اور یہ سب اس کے گھر والوں کی ہدایات پر ہورہا ہے۔ ایک اور مریض کے متعلق بتایا گیا کہ اسےیہ شک ہوتا تھا کہ ہر وقت خفیہ ایجنسیاں اس کی زندگی کے ہر لمحے کو ریکارڈ کررہی ہیں اور یہ ساری دنیا جعلی ہے اور 25 دسمبر کو اسے آزادی دے دی جائے گی۔ چونکہ یہ نفسیاتی بیماری ہے سو زیادہ تر مریضوں کے ناموں کو ڈاکٹرز نے صیغہ راز میں رکھا ۔ فروری 2007ء میں یہ بیماری خبروں کی بہت زیادہ زینت اس وقت بنی جب واٹر لو نامی شخص نے اپنی بہن اور باپ کو قتل کردیا کیونکہ اسے گمان ہورہا تھا کہ اس کی فیملی ایک world wide game کا حصہ ہیں اور اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں، سیٹلائیٹس اور کمپیوٹر اس کے دماغ کو کنٹرول کرکے اس سے ڈیٹا نکال رہے ہیں اور فیملی اس کی ہر لمحہ ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر نشر کررہی ہے۔ اسی طرح پینسلوینیا کے رہائشی البرٹ کے والدین نے شکایت درج کرائی کہ ان کا بیٹا خود کو ایک ٹی وی سٹار سمجھتا ہے اور اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کو جھوٹ قرار دے رہا ہے، بعدازاں اس لڑکے نے اقوام متحدہ سے سیاسی پناہ کی درخواست بھی کی۔ اسی طرح ڈیوڈ نامی ایک شخص کے متلق رپورٹ سامنے آئی جس میں وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کے والدین اس کے نہیں ہیں بلکہ اس کی ساری فیملی اور دوست ایک فلم کے اداکار ہیں اور اسے اِس مبینہ فلم میں اس خاطر نہیں رول دیا گیا کیونکہ اس نے خفیہ معاہدے کی پاسداری نہیں کی۔

ایسے کئی کیسسز پچھلے 20 سالوں میں دنیا کے سامنے آئے۔ Reddit نامی مشہور ویب سائٹ پر تقریباً 2 ہزار لوگوں  نے تسلیم کیا کہ وہ اس بیماری کا شکار ہیں۔ جب فلم کے مصنف تک یہ خبریں پہنچی تو بس وہ یہی کہہ پائے کہ “جب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ کسی بیماری کا نام آپ کے تحریر کردہ سکرپٹ پر رکھا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کامیاب ہوگئے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹرومین فلم انٹرنیٹ پر اردو ڈبنگ میں دستیاب ہےبہت خوبصورت اور منفرد فلم ہے، لازمی دیکھیے لیکن احتیاط کا دامن تھامے ہوئے۔اگر کبھی آپ بھی خود کو ایسی جگہ کھڑا دیکھیں تو اس احساس کو طول دینے کی بجائے نفسیاتی ماہر سے رابطہ کریں۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ اپنے آپ کو مرکز نگاہ سمجھتا ہے ہر شخص چونکہ اپنی زندگی میں مگن ہوتا ہے سو ساری دنیا کو اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔اپنی دنیا اور باہری دنیا میں فرق ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اگر یہ فرق روا نہ رکھا جائے تو یہی احساس بڑھ کر ٹرومین سینڈروم کی صورت اختیار کرسکتاہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply