سقراط کے ساتھ ایک شام۔۔۔۔ادریس آزاد/قسط1

سب کے چہروں پر تجسس تھا۔ تمام اہل ِ محفل حیرت بھری نگاہوں کے ساتھ اُس عجیب الخلقت بڈھے کی طرف دیکھ رہے تھے جو ٹھہر ٹھہر بات کررہا تھا اور اُس کی زبان سے نکلنے والا ہر ہر لفظ سیدھا حاضرین محفل کے دلوں میں اُترتا جارہا تھا۔

یہ پروٹاغورث کی کشادہ حویلی کا لان تھا، جہاں اتنے سارے لوگ اُس مجہول بڈھے کی باتیں نہایت انہماک سے بیٹھے سن رہے تھے۔ پروٹاغورث خود اونچی نشست پر اُس بڈھے کے پہلو میں بیٹھا اپنے اندر پیدا ہونے والے ہیجانات پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔

پروٹا غورث کی شہرت ، علم و حکمت کے حوالے سے دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ اُسے خطے کا سب سے دانا انسان سمجھتے تھے۔ بڑے بڑے علمائے دین، سائنس دان، فلسفی، سیاستدان، وکیل، جج، مبصرین اور ماہرین ِ علوم ِ مختلف پروٹاغورث کے تبحرِ علمی کا لوہا مانتے تھے ۔

لوگ دور دور سے آتے ،پروٹا غورث سے سوالات کرتے اور مطمئن ہوکر واپس جاتے تھے۔ پروٹا غورث سے علم حاصل کرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد سنبھالے نہ سنبھلتی تھی۔ اُس کے شاگردوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ وہ جب بھی اپنی حویلی سے نکلتا تو اُس کے چاہنے والوں کا ہجوم اُس کا راستہ روک لیتا تھا۔

لیکن آج پروٹا غورث کی حویلی میں ایک عجب آدمی آیا بیٹھا تھا۔ یہ ایک مجہول سا بڈھا تھا۔ جس کے پیروں میں جوتے تک نہیں تھے۔ پھٹے پرانے کپڑے ، سر سے ننگا، گھنگریالی داڑھی جو گرد سے اَٹی ہوئی تھی اور جسم پر کھدر کا موٹا لباس جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ یہ سقراط تھا۔

وہ آج پروٹا غورث سے ملنے کے لیے آیا تھا۔ پروٹا غورث کئی دن بعد سفر سے واپس لوٹا تھا۔ اس لیے آج اُس کی حویلی میں شاگردوں اور مریدوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ وہ آج دن چڑھتے ہی باہر دالان میں آکر بیٹھ گیا تھا۔ مگر دوپہر کے بعد سقراط وارد ہوا تو پروٹا غورث کی محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ سب لوگ جو پروٹا غورث کو مانتے تھے اب اُس مفلوک الحال بڈھے کی باتیں سننے میں اتنے مگن تھے کہ اُنہیں پروٹا غورث بھول گیا تھا۔

سقراط کہہ رہا تھا۔۔۔۔

”پاکستان میں جمہوریت کی کامیابی کا خواب دیکھنا منطقی طور پر درست نہیں ہے۔ اوّل تو پورے مشرق کا مزاج جمہوریت سے میل نہیں کھاتا۔ جمہوریت نے مغربی ملکوں میں جنم لیا ہے اور اِس کے تمام اصول و ضوابط اور لوازمات مغرب سے ہی درآمد شدہ ہیں۔ پاکستان ہو یا کوئی بھی دوسرا مشرقی ملک ، یہاں جمہوریت کا پنپنا اُس پودے کی طرح سے ہے جو کسی اور سرزمین اور آب و ہوا میں پروان چڑھتا ہو ، مگر اُس کو کسی دوسرے خطے کی زمین میں لگانے کی کوشش کی جائے“

سقراط کہہ رہا تھا۔۔۔

”جمہوریت جسے تم لوگ آزادی کی نیلم پری سمجھتے ہو بظاہر نہایت خوبصورت نظام ہے۔ جس میں لوگوں کی قدروقیمت اور عام شہری کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ مگر فی الحقیقت ایسا نہیں ہے۔

یہ نظام طاغوت کا بچھایا ہوا وہ جال ہے جس میں پھنسنے والے پرندے، قیدی ہوکر بھی یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ۔۔ شکاری آئے گا، جال بچھائے گا ، دانہ ڈالے گا، ہم کو پھنسائے گا ، ہم نہ پھنسیں گے۔

کسی بھی قوم کی اپنی روایات اور اقدار ہوتی ہیں۔ جمہوریت اُن اقدار کو پامال کرنے اور اُن روایات کو مسخ کرنے کا باعث بنتی ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں، آپ عوام کے رجحانات کو تبدیل کرکے نئے رجحانات پیدا کرسکتے ہیں اور جب نئے رجحانات متعارف ہوجائیں تو آپ جمہوریت کے ذریعے اُنہیں نہ صرف تسلیم کروا سکتے ہیں بلکہ گزشتہ رجحانات سے بآسانی چھٹکارا بھی حاصل کرسکتے ہیں“۔

سقراط سانس لینے کے لیے رُکا تو ”کیلیاس “ کا بیٹا ”سفیانس“ بول اُٹھا،

”رجحانات سے تمہاری کیا مراد ہے سقراط؟۔۔۔کیا تم مجموعی معاشرتی رویوں کو رجحانات کہہ رہے ہو؟“

سفیانس کی بات کے ساتھ پروٹاغورث کے باقی شاگردوں نے بھی سرہلایا، جیسے وہ بھی جاننا چاہتے ہوں کہ رجحانات سے سقراط کی کیا مراد ہے۔ سقراط نے سفیانس کی بات غور سے سنی۔ پھر پورے اجتماع پر نظر دوڑائی ، کچھ دیر تک ، کچھ سوچتا رہا اور پھر سفیانس سے ایک سوال کردیا،

”تم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہوسفیانس؟

“”میں سلامتی سے۔۔۔ تم جانتے ہوسقراط“

”ہاں میں جانتا ہوں۔ تم ”سلامتی “ سے تعلق رکھتے ہو۔ اب یہ بتاو! تمہارے مذہب ”سلامتی“ میں عورت کے لیے پردے کا مسئلہ کیا ہے؟“

سفیانس نے فوراً جواب دیا،

”ہمارے مذہب میں عورت کو غیر مردوں سے پردہ کرنے کا حکم ہے۔ ایسے مرد جو اُس کے لیے غیر محرم ہوں۔ یعنی بھائی، باپ، بیٹا، شوہر،یا اُن قریبی رشتوں کو چھوڑ کر جن کے ساتھ شادی جائز نہیں باقی تمام مرد ایک عورت کے لیے غیر محرم ہوتے ہیں۔ اُن سب سے پردہ کرنا چاہیے“

”اب یہ بتاو! سفیانس!۔۔۔کہ یہ پردہ اچھی چیز ہے یا بری؟“

سفیانس نے پھر فوراً جواب دیا،

”یقیناً  اچھی چیز ہے۔۔۔ اس سے عورت اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی اور اطمینا ن سے اپنی معاشرتی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی ہے۔ وہ اوباشوں کی نظروں سے بچ جاتی ہے اور اُس کے لیے معاشرے میں موجود مشکلات ، مشکلات نہیں رہتیں۔ مذہب ”سلامتی“ میں موجود پردے کا حکم عورتوں کے حق میں ایک اضافی سہولت ہے نہ کہ تلفیءِ حق“

سقراط بڑی توجہ سے سفیانس کی بات سن رہا تھا ۔ اُس نے سفیانس کی بات پوری ہونے پر پھر سوال کیا،

”اور مغرب؟………. تمہارا کیا خیال ہے ، مغرب میں عورت کے لیے پردے کا کیا حکم ہے؟“

”مغرب میں ؟۔۔۔ مغرب کی عورت پردے سے آزاد ہے۔ سادہ سی بات ہے“

”ہوں ں ں ں ں۔۔۔ “سقراط نے ایک لمبی ہوں ں ں کی اور خاموش ہوگیا۔ سب لوگ اُس کی جانب منتظر نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ پروٹاغورث بھی پوری طرح سقراط کی طرف متوجہ تھا۔ سقراط نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہنا شروع کیا،

”یہ ہیں رجحانات۔۔۔ یہاں عورت کے لیے پردے کا رجحان ہے، وہاں مغرب میں ایسا نہیں ہے۔ اب جمہوریت کا کیا کام ہے؟ ۔۔۔ جمہوریت ایک ایسا نظام ہے، جس میں فیصلہ عوام کرتی ہے۔

وہ عوام جو ایک وقت میں ایک رجحان کی مالک ہے، نئے رجحانات کی طرف مائل ہوکر جمہوریت کے ذریعے اپنے پرانے معاشرتی ڈھانچے کو ترک کرسکتی ہے۔ فرض کرو! کوئی بیرونی طاقت یہ چاہتی ہے کہ مذہب ”سلامتی “ کے ماننے والوں کی عورتیں پردہ کرنا چھوڑدیں، تو وہ بیرونی طاقت کیا کرے گی؟

وہ یہ کرے گی کہ پہلے میڈیا، اور تعلیم و تربیت کے ذریعے نئے رجحان کو معاشرے میں مقبولیت دلوائے گی اور پھر جب لوگوں کے دلوں میں اُس نئے رجحان کے لیے کشش پیدا ہوجائے گی تو جمہوریت کے ذریعے عوام اپنے ملک کا آئین یا دستور ہی بدل دینگے۔ صرف پردے پر موقوف نہیں ۔

یہ تو ایک معمولی سی مثال ہے۔ اگر کسی ملک میں جمہوریت دیر تک رہتی ہے تو آہستہ آہستہ اُس ملک کی تمام پرانی اقدار کو نگل جاتی ہے۔ اُس ملک کے پاس جو کچھ بھی بچ جاتا ہے وہ سب کا سب مصنوعی طور پر متعارف کروائے گئے نئے رجحانات کا نتیجہ ہوتاہے۔

اس طرح جمہوریت گندم کے گھن کی طرح آہستہ آہستہ اُس قوم کی اقدار، روایات، عادات، رویوں، رسم ورواج حتیٰ کہ مذہبی عقائد تک کو ہڑپ کرجاتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلنے دیتی۔مغربی ممالک میں جمہوریت نے یہی کچھ کیا ہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply