تتلی

دل کا کیا مول چکا بیٹھے۔۔۔!
بابا یہ تتلیاں کتنی پیاری ہوتیں ہیں نا۔۔۔۔ دس سال کی تھی جب لان میں بیٹھے بابا کی شرٹ کا کونہ پکڑ کے اس نے متوجہ کیا تھا انہیں۔۔ہاں۔۔۔وہ چونکے،پھر خفا خفا سی آنکھیں دیکھ کر سنبھل گئے اور گود میں بٹھاتے ہوئے اس کی تھوڑی چھوتے ہوئے بولے۔۔۔بہت پیاری، بالکل ہماری حورب جیسی۔
پر یہ تو اڑتی ہیں بابا۔۔۔۔میں تو نہیں اڑ سکتی نا، اس نے منہ بنا کے کہا تھا۔
لو بھلا کیوں۔۔۔اچھا ایک بات بتاتا ہوں اپنے بچے کو۔۔
یہ جو زمین کی تتلیاں ہوتی ہیں نا ہماری حورب جیسی۔۔۔انہیں اڑنے کے لیے پروں کی نہیں، خوابوں کی ضرورت ہوتی ہے،بڑے بڑے خواب دیکھو، پَر تمہارے بابا لا دیں گے۔۔۔وہ اسے اڑنا سکھا رہے تھے،خوبصورت سے پھولوں کے درمیان اڑتی اس گلابی تتلی کی طرح جسکی اڑان نے اسے محو کر رکھا تھا اور پھر وہ ڈر گئی۔۔۔۔۔۔۔ کیکٹس کے کانٹوں میں الجھ کے وہ تتلی گر گئی یا شاید مر گئی تھی۔۔۔
بابا بتا رہے تھے کہ زمینی تتلیاں گر کے اٹھ جاتی ہیں۔۔
بچپن گزر گیا۔۔۔۔اس نے بے شمار خواب دیکھے اور انہیں پورا کرنے میں لگ گئی،اسکی زندگی کھلتے ہوئے رنگوں جیسی تھی اور انہی دنوں ایک اور رنگ اسکی زندگی کو مزید خوبصورت بنا گیا۔۔۔”محبت کا رنگ”۔۔۔ہاتھ میں پہنی انگوٹھی اسے بتاتی تھی کہ وہ بہت خوش قسمت ہے‍،وقت پر ہر چیز مل جانا بھی خدا کی بڑی رحمت ہے،بابا اب اسے اڑنا نہیں سکھاتے تھے ۔۔۔وہ اسکے پَر دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔
لال جوڑے میں وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔۔۔ نکاح کے وقت اس نے دل کی گہرائیوں میں اس محبت کو سمٹتے دیکھا تھا، جس سے وہ انجان تھی اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے ازمیر کا ہمیشہ ساتھ دینے کا وعدہ۔۔۔ اسے خوشی سے نہال کر گیا۔اب بس اپنے خوابوں کو پورا کرنے کا وقت تھا،صلاحیتیں تو محنت سے ہی نکھرتی ہیں۔۔پر ابھی ازمیر اسے بتا رہا تھا کہ وہ ایسا نہیں چاہتا،وہ اسے اپنے پاس دیکھنا چاہتا ہے،اسے حورب اپنی پسند میں ڈھلی ہوئی چاہیے تھی،غلط صحیح کی پہچان کیے بغیر اس کے رنگوں میں رنگی ہوئی .
پہلی بار اسے پتا چلا بابا۔۔۔ بابا ہوتے ہیں.!
تم میری ذات کو ٹھکرا کے اپنی پسند کے رنگ میں ڈھلنا چاہتے ہو، جب کہ میرا مطالبہ ناجائز بھی نہیں ؟
ازمیر کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے ہٹاتے اس نے سوال کیا۔۔۔۔یہ پہلا فاصلہ تھا!
نہیں حورب ۔۔۔پر میں یہ برداشت نہیں کر سکتا ،تم اپنے گھر کی ہو، گھر سنبھالو۔۔۔۔باقی سب چھوڑ دو،ازمیر نے آرام سے فیصلہ سنایا تھا۔
آنکھوں میں کہیں بھی اس کے خوابوں کا مان نہیں تھا۔۔۔یہاں بیویوں کا مان نہیں رکھا جاتا،اسے اب یہ یاد رکھنا تھا،
اور اگلے ہی دن گھر سنبھالتے اپنے لان میں اس نے کیکٹس کا پودا رکھوایا تھا۔۔۔ازمیر نے خوبصورت پھولوں کے درمیان پڑے اس خوبصورت کانٹے کو حیرت سے دیکھا۔۔یہ یہاں اس لیے ہے کہ مجھے تسلی رہے تتلیاں اس سے الجھ کے گر جاتی ہیں اور آس پاس کی خوشبو میں ان کا درد بھی شامل ہوجاتا ہے۔۔۔اور دیکھنے والے کہتے ہیں واہ شاندار کیکٹس کے پاس بھی خوشبو کا بسیرا ہے،لگتا ہے کسی تتلی کو کانٹوں سے محبت ہو گئی ہے۔۔اسکی حیرانی پہ حورب نے تفصیل سے جواب دیا تھا۔دو منٹ اسے خاموشی سے دیکھنے کے بعد وہ اندر چلا آیا۔
اور وہ پودے پر پانی چھڑکتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ بابا نے یہ نہیں بتایا تھا کہ زمینی تتلیاں گر کے زندہ خود اٹھتی ہیں یا انہیں مار کے کوئی اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔!!

Facebook Comments

ایمان ملک
میرے خواب میری کائنات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply