• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔۔منظور پشتین کا نعرہ اور حقیقت/بلال چانڈیہ

یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔۔منظور پشتین کا نعرہ اور حقیقت/بلال چانڈیہ

  ہر ملک میں انقلابی تحریکیں جنم لیتی ہیں اور ان تحریکوں کی بنیاد دراصل سماجی، ریاستی، لسانی، نسلی اور مذہبی ظلم و جبر ہوتا ہے. یہ تحریکیں عوام میں جلد پذیرائی حاصل کرلیتی ہیں کیونکہ یہ بالکل عوامی امنگوں کی ترجمان ہوتی ہیں. لیکن ان تحریکوں کی کامیابی کے لیے ضمانت ” بین الاقوامی ” پلیٹ فارم ہی ہوتا ہے جس میں مختلف ممالک ان تحریکوں کو پس پردہ  سپورٹ کرتے ہیں اور ان سے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں. حتیٰ کہ جس ملک میں یہ تحریکیں چل رہی ہوتی ہیں وہ ان  کا سیاسی طبقہ بھی ان سے تعلقات بنائے رکھتا ہے  تاکہ کامیابی کی صورت میں  اپنا حصہ بھی وصول کرسکے اور ناکامی کی صورت میں بھی ریاست سے اپنا وفادار ہونا ثابت کرسکے. ہر تحریک کے دو مقاصد ہوتے ہیں.بنیادی مقاصد اور خفیہ مقاصد۔۔۔

بنیادی مقاصد۔۔ یہ مقاصد وہ ہوتے ہیں جن کو ہم Rationale کہتے ہیں.

دوسرے “خفیہ مقاصد” یہ مقاصد تحریک یا تنظیم کو Transnational سپورٹ دلوانے کے لیے لازمی ہوتے ہیں.

یہ مقاصد تحریک کی زندگی ہوتے ہیں اگر یہ تحریک کی بنیاد کے مطابق ہوں، اور اگر یہ بنیاد کے بالکل الٹ ہوں اور صرف اور صرف ریاست کے خلاف محاذ بنانا مقصود ہو تو یہ تحریک کے لیے ” موت ” ثابت ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ریاست کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں. اب ان اصولوں کی بنیاد پر ہم دنیا میں موجود ماضی و حال کی تحریکوں کے بجائے پاکستان کی بنیاد سے اب تک مختلف تحریکوں پر بات کریں گے. پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی سب سے پہلے یہاں پر دو قسم کی تحریکوں نے جنم لیا ۱. مذہبی / لیفٹ ۲. نسلی / لسانی اب یہ تحریکیں ایک ہی وقت میں ایک قسم کی نمائندگی بھی کرتی ہیں اور بعض اوقات دونوں کی.

پاکستان میں مذہبی تحریک جو 1948 میں ایپی فقیر کی قیادت میں تھی وزیرستان سے شروع ہوئی تھی اس میں ” نسلی ” مقاصد کی بھی آمیزش تھی اور یہ دونوں اقسام کا مجموعہ تھی جس کا بنیادی مقصد “گریٹر پختونستان ” تھا. اس مقصد کے حصول کے لیے مذہبی طبقہ کو قائل کرنے کے لیے جہاد شروع کیا گیا ریاست پاکستان سے تاکہ پاکستان سے علیحدگی کے لیے پشتون قوم پرست تو پہلے ہی تیار ہیں ساتھ مذہبی فکر کو شامل کرکے اس کی  سپیڈ کو دگنا کیا جاسکے. یہ تو مقاصد تھے اس کے ساتھ بین الاقوامی رنگ دے کر افغانستان اور ہندوستان کو بھی شامل کیا گیا جس کا حاصل کچھ نہ تھا بس ریاست کا نقصان ہی تھا. اور نعرہ اس وقت بھی تھا ” یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ” اس کے بعد ہم بلوچستان میں شروع ہونے والی تحریک کو دیکھتے ہیں جو 1970 میں شروع ہوئی اس کی بنیاد میں یقیناً  ریاستی جبر تھا لیکن کلائمیکس کیا ہے۔ آج ہمارے سامنے پنجابی کا قتل ثواب سمجھا جاتا ہے اور بلوچ قیادت بین الاقوامی قوتوں کی آلہ کار بن چکی نقصان کس کا ہوا ریاست کا اور یہاں کی عوام کا اور آج ہر ہربیارمری، بالاچ اور براہمداغ یورپ کی جھولی میں بیٹھے ہیں اور ان کا نعرہ بھی فقط یہی ہے ” یہ جو دہشت گردی ہے  اس کے پیچھے وردی ہے ”

اب آتے ہیں کراچی میں ایم کیو ایم کی طرف اس کی بنیاد میں معصوم مہاجروں کا لہو شامل ہے جس کو جھٹلانا منافقت ہے اور یہ لسانی جبر کا شکا رہوئے ایک الطاف بھائی اٹھا جس نے بدلہ کی آگ میں کراچی کو جلا کر رکھ دیا اور اس وقت آرمی بھی ان کی ہمنواء بنی کوئی نہیں جانتا تھا کہ مہاجروں کے حقوق کی محافظ بنتے بنتے ایم کیو ایم بین الاقوامی سازشوں اور ان کے خفیہ مقاصد کی تکمیل کی آماجگاہ بن جائے گی. اس تحریک سے ریاست کو نقصان پہنچا اور عوام کا قتل عام ہوا. الطاف بھائی آج بھی تاج برطانیہ کی جھولی میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں ” یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ”

اب  بات کرتے ہیں  اس وقت کی سب سے بہترین تحریک جو منظور پشتین جیسے عام انسان نے کھڑی  کی ،جو دراصل عام پشتون کے بنیادی حقوق کی جنگ ہے اور اس سے ہونے والا ریاستی جبر یقیناً  پاکستان کا بھیانک باب ہے اور وہ تمام ” بنیادی مقاصد ” جن کے حصول کے  لیے منظور پشتین کھڑا ہوا ہے ہر باشعورانسان کو اپیل کرتے ہیں. لیکن یہ حسن ظن اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب منظور پشتین کو اسٹیج پر عوام سے یہ نعرے لگواتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ ” یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ” اس کے بعد جب منظور پشتین یہ کہتے ہیں کہ بات بین الاقوامی ثالثی میں ہوگی تو تعجب ہوتا ہے بھائی یہ بنیادی مقاصد تو ہرگز نہیں ہوسکتے کہیں یہ ” خفیہ مقاصد ” تو نہیں ؟اور جب افغانستان اس معاملے میں غیرمعمولی دلچسپی دکھائے تب دال میں کچھ کچھ کالا محسوس ہوتا ہے.

تب میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ آج ستر سال پہلے مذہبی ایپی فقیر نے خفیہ مقصد “گریٹر پختونستان ” کے نظریہ کو مذہبی جہاد کا کا نام دے کر لیفٹ / رائٹ کے محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا تھا اور امامت کا فریضہ بھارت و افغانستان کی جھولی میں ڈال دیا تھا. اور آج ستر سال بعد “نئے ایپی فقیر ” کا جنم ہورہا ہے جو خیر سے اس دفعہ قوم پرست طبقے سے ہیں اور لیفٹ / رائٹ کے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں اور خیر سے مجوزہ امامت کے لیے ” بین الاقوامی ثالثی ” کے کھاتے میں جارہی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری بس فقط یہی دعا ہے کہ اگر یہ تحریک اپنے بنیادی مقاصد پشتون کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر مبنی ہے  تو خدا اس کو کامیابی سے ہمکنار کرے اور ہم اس کے ساتھ ہیں. اگر یہ ” خفیہ مقاصد ” کی تکمیل پر ہے تو اس کا انجام بھی دوسروں جیسا ہو، بس دکھ اس بات کا ہے اس میں ایندھن عوام بنتی ہے اور تباہی ریاست کی ہوتی ہے.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply