• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کوئٹہ، ژوب شاہراہ پر المناک حادثات ۔ذمہ دار کون ؟۔۔۔۔۔محمد حسین ہنرمل

کوئٹہ، ژوب شاہراہ پر المناک حادثات ۔ذمہ دار کون ؟۔۔۔۔۔محمد حسین ہنرمل

“کوئٹہ تا ژوب۔ڈی آئی خان شاہراہN50 پر گزشتہ اتوار کو ہونے والا حادثہ اپنی نوعیت کا دل دہلانے والا حادثہ تھا-
عید الفطر اپنے گھروں پر منانے کے متمنی مسافروں کو کیا خبر تھی کہ افطار کے بعد ژوب کی طرف نکلنے والی ویگن درحقیقت ان کی غیر طبعی اموت کامژدہ سنارہی ہے – رات ایک بجے کو ضلع قلعہ سیف اللہ کراس کرکے جونہی یہ مسافر بردار ویگن علی خیل کے علاقے میں پہنچی تو مخالف سمت سے نمودار ہونے والا ٹرک اس کو کریش کرگیا- ژوب ہی سے تعلق رکھنے والے ان مسافروں میں سے 14 موقع پرہی جان بحق ہو گئے تاہم چارافراد شدید زخمی حالت میں قلعہ سیف اللہ اسپتال اور پھرصوبائی دارالحکومت کوئٹہ ریفر کردیئے گئے۔ اس  المناک حادثے میں ہمارے ایک قریبی عزیز محمد آصف حرم زئی کے علاوہ ژوب تکئی کے ایک خاندان کے پانچ افرادجن میں چاربچے اپنی ماں سمیت اللہ کوپیارے ہوگئے۔ویسے توروڈسیفٹی اورٹریفک نظام کے حوالے سے ہم بطور قوم ایک بدترین تاریخ رکھتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو بلوچستان جیسے صوبے کی شاہراہیں اس حوالے سے مزید قابل رحم دکھائی دیتی ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے زیر انتظام شاہراہوں میں کچلاک کوئٹہ تاژوب اور پھر ڈی آئی خانN50 کا بھی شمار ہوتاہے۔ یہ شاہراہ جہاں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو کچلاک ،مسلم باغ ،ضلع قلعہ سیف اللہ اور ضلع ژوب کو ملاتی ہے تو دوسری طرف یہ خیبر پختونخو ا کے ساتھ ساتھ دارالحکومت اسلام آباد کو بھی کوَر کرتی ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں ٹوڈی کار ، شخصی گاڑیاں، ٹریلرز،مال بردار لاریاں،آئل ٹینکر ز اور ٹریکٹرٹرالیاں روزانہ کی بنیاد پر اس شاہراہ کواستعمال کرتی ہیں ۔
لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے ابھی تک اس اہم شاہراہ پربہتی ہوئی ہیوی ٹریفک کیلئے چیک اینڈ بیلنس کاکوئی نظام متعارف نہیں ہوا ہے ۔آئے روز یہاں پر جان لیوا حادثات اور اموات کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ روڈسیفٹی کی حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق اس ملک کی بڑی شاہراہوں پرموٹروے پولیس کی کچھ نہ کچھ چیک اینڈبیلنس نظام اور انتباہات کی برکت سے حادثات میں قدرے کمی آئی ہے لیکن صوبائی حکومتوں( خصوصاًبلوچستان) جیسے صوبوں کی شاہراہوں پر ہونے والے حادثات کی شرح اُسی طرح برقرارہے –
صوبائی اور ضلعی انتظامیہ کی غفلت کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے مال بردار ٹرکوں پر محض خوش طبعی کیلئے لگے ہوئے سرچ بتیاں بھی اتارے نہیں جاسکتے- رات کے وقت اس شاہراہ پر آج کل اکثر حادثات یا تو سامنے سے آنے والی گاڑیوں پرلگی ہوئی ان تیزترین فالتو بتیوں کی وجہ سے  رونما ہوتے ہیں یا پھرپیچھے سے انڈیکیٹر نہ رکھنے والی ٹریکٹر ٹرالیاں وغیرہ ان حادثات کاسبب بنتے ہیں۔ کوئٹہ تاژوب شاہراہ پر نہ تھمنے والے حادثات کی پہلی وجہ اس شاہراہ کا ایک رویہ ہوناہے اورجب تک یہ ون وے رہے گی تب تک خاکم بدہن یہاں کے لوگ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے ۔حال ہی میں بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اسکا دورویہ ہونے کا قرار پیش ہوا لیکن نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتاہے ۔ حادثات کی دوسری اور بڑی وجہ یہ ہے کہ اس شاہراہ کو حکومتِ وقت نے ابھی تک موٹروے پولیس کے حوالے نہیں کیا ہے۔پورے ملک بلکہ بلوچستان ہی کی بعض شاہراہوں پرموٹروے پولیس تعینات ہیں لیکن یہی واحد شاہراہ ہے جو موٹروے پولیس کی چیک اینڈ بیلنس اور قوانین کے نفاذ سے مبرا ہے۔موٹروے پولیس ہی کی عدم تعیناتی توبنیادی وجہ ہے کہ مذکورہ شاہراہ پرنیم تجربہ کار اور اناڑی ڈرائیوراور لائسنس یافتہ ڈرائیورز کے بیچ اب کوئی   امتیازباقی نہیں رہاہے۔ اس قبیل کے ڈرائیورحضرات جب سواریوں کو سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پہنچانے کی کوشش کرتے ہی تو پھراس کا انجام بھی خون ریزحادثات ہی کی صورت میں نکلتاہے ۔تیسری وجہ یہ کہ اس شاہراہ پر چلنے والی بے بھروسہ گاڑیوں کی بہتات نے بھی مسافروں کیلئے زندگی اور موت کے مسائل پیدا کردیئے ہیں۔مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ اس مدہوش حکومت کو کب ہوش آئے گی کہN50 بھی پاکستان ہی کے ایک صوبے کی اہم ترین شاہراہ ہے؟خدا جانے کب اس غافل حکام کویہ احساس ہوگا کہ اس شاہراہ کے اوپر بھی ہرروز گاڑیوں، ٹریلروں، لاریوں تیز رفتار ٹوڈیز کاریں اورشخصی گاڑیوں کا ایک سمندر محوسفر ہوتاہے ؟ کوئی تو ہمیں یہ بھی توبتادے کہ کوئٹہ ، ژوب ،قلعہ سیف اللہ اور شیرانی کے لوگوں سے آخر وہ کونسی گناہ سرزدہوا ہے کہ ان کوآئے روز اپنے پیاروں کے غیر طبعی موت کے جنازے تھمائے جاتے ہیں؟
کیا ان حادثات کو محض تقدیر اور قسمت کا منشاء کہہ کر مفت میں ہمیں جان چھڑانا چاہیے یا اس کے معقول عوامل پر سوچنا اور اس کاتدارک کرنابھی ایک مسلمان قوم کا شیوہ ہے؟ کیا اٹھارہ ،بیس مسافروں سے بھری ویگن کی ڈرائیونگ سیٹ پرایک اناڑی ڈرائیور کوبٹھاکر گاڑی اور مسافروںکو منزل مقصود تک پہنچانے کی امید لگانا بھی ہماری شریعت کا حکم ہے ؟وزارت مواصلات کی ایک رپورٹ کے مطابق” ٹریفک حادثات کے حوالے سے پاکستان کا شمار ان بدقسمت ملکوں میں ہوتاہے جہاں روڈ حادثات کے شکار افراد موقع ہی پر دم توڑ تے ہیں”۔
وزارت مواصلات کے اس اعتراف کا واضح مطلب یہی لیا جاسکتاہے کہ ہماری سڑکوں پر پیش ہونے والے حادثات انتہائی شدید نوعیت کے ہوتے ہیں کہ متاثر فرد کے بچنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔اپنے اس کالم کے توسط سے میں ایک مرتبہ پھر حکومت وقت کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتاہوں کہ خدارا ،اے ارباب حل وعقد! بے حساب اور مفت میں جانے والی انسانی زندگیوں پر رحم کرکے اس قابل رحم شاہراہ کی سیکورٹی کے لئے کچھ اقدامات کریں۔میں اپنے کالم کے آخر ان سب غم زدہ خاندانوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتاہوں اوراللہ تعالی سے دعاکرتاہوں کہ رحیم ذات ان سب شہداء کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندہ خاندانوں کو تحمل عطافرمائے ۔نیز ضلع  قلعہ سیف اللہ کے حاضر خدمت نوجوانوں کا بھی  شکریہ جنہوں نے حادثے کے وقت زخمی مسافروں کونہ صرف اسپتال منتقل کیا بلکہ انہوں نے دل وجان سے ان کیلئے خون اور عطیات کا بندوبست بھی کیااورشہداء کو ژوب بھیجنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply