سانحہ پشاور ‘ہم نہیں بھولے۔غلام مہدی میثم

دسمبر 2014 موسم سرما کی ایک یخ بستہ صبح تھی۔سردی لہوجمارہی تھی۔ رات کے سکوت کاجادوٹوٹ چکاتھااوردن کی ہنگامہ خیزیاں شروع ہوچکی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے ننھے منے بچےاپنے اپنے بیگ ہاتھوں میں تھامے سکولوں کی طرف روانہ ہوئے ۔ ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کاماتھاچوم کرپیار کیا اور سکول چھوڑ آئیں۔

آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پشاور کے سینکڑوں طلبہ وطالبات بھی اپنے معمول کے مطابق ہاتھوں میں بیگ اٹھائے شاداں وفرحاں،حصول علم وآگہی کے لئے سکول پہنچ گئے۔دعا اور قومی ترانہ پڑھاگیااورہر معصوم لب پر یہی دعاتھی

؎ دور دنیاکامرے دم سے اندھیرا ہوجائے

ہرجگہ مرے چمکنے سے اجالاہوجائے

یہ اپنی اپنی کلاسوں میں پہنچے اور یوں تدریس کا مقدس عمل شروع ہوا۔

یہ بچے قوم کا مستقبل اورمعمارقوم تھے۔آج کے یہ ننھے منے بچے کل کے ڈاکٹرز، انجینئرز، جنرلز اور صدر ووزیر اعظم تھے۔ یہ بچے اس ارض چمن پاکستان کے وہ خوبصورت کلیاں تھیں جنھیں ابھی کھلناتھا۔ ان کے حوصلے بلند تھے ان کے عزائم روشن تھے۔یہ قوم کے شاندار مستقبل کے امین تھے۔علم، آگہی، رواداری، بھائی چارگی اور پرامن زندگی کے سفیرتھے۔ یہ معصوم بچے نہ جانے کتنے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے اور اپنے والدین کی امیدوں اورآرزوؤں کولئےآرمی پبلک سکول اینڈ کالج پشاور میں اپنی منزل کی طرف گامزن تھے لیکن جہالت، تعصب، وحشت اور دہشت کے سوداگر تاک میں تھے۔ موقع ملتے ہی شقاوت اور سفاکی کاوہ مظاہرہ کیا کہ انسانی تاریخ شرمندہ ہوئی اور انسانیت دم توڑ گئی۔

تحریک طالبان کے چھ  دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پشاور کے معصوم بچوں پر منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہلہ بول دیا۔کلاسوں میں گھس کر معصوم بچوں پر اندھادھند فائر کھول دیے۔ 147طلبہ وطالبات اور اساتذہ اس سانحے میں شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

؎ دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کے تارے سوگئے

آنے والے دور کے محکم ستارے سوگئے

ان کے سرپرتھافقط اک بے گناہی کاگناہ

پل میں وہ معصومیت کے استعارے سو گئے

اے درندو! نام پر اسلام کایہ کیاکیا ؟

سرندامت اور غم سے ہربشر کاجھگ گیا

تقریبا 150 معصوموں کا خون بہایاگیا۔ پاکستانی قوم پر سکتہ طاری ہوا۔جیسے ہی یہ خبر ٹی وی پر چلی اور جس جس نے سنی اسی لمحے زندگی رک سی گئی۔ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ کئی روز قومی پرچم سرنگوں رہا۔ شہرشہر، قریہ قریہ صدائے احتجاج بلند ہوا۔ دہشت گردوں کایہ بزدلانہ حملہ پوری قوم پر حملہ تھا ۔ یہ سانحہ قومی سانحہ قراردیاگیا۔ اس دکھ،درداورغم کو صرف شہداءکے والدین نے نہیں بلکہ پوری قوم نے محسوس کیا۔

ملک میں سیاسی اور فوجی قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن ضرب عضب کے نام سے شروع ہوا۔افواج پاکستان نے ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کوچن چن کرمارا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں تو سانحہ اے پی ایس پشاور کو تین سال گذر گئے لیکن وہ المناک مناظر ،وہ معصوم پھولوں جیسے چہرے ، ان کی خون میں لت پت کتابیں اور بستے قوم نہیں بھولی۔ہر سولہ دسمبر ہمیں اس المناک سانحےکی یاد دلاتا رہے گا۔قوم ان شہید بچوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔اے پی ایس پشاور میں ہر سال مرکزی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے اور پاکستان بھر کے اے پی ایس اوردیگر سکولز میں ان شہداء کے لئے خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ریلیاں نکالی جاتی ہیں، تقریبات منعقدہوتی ہیں اور شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply