شہادت امام حسین۔۔۔ اعزاز کیانی

غریب و سادہ               و     رنگیں ہے داستان حرم
نہایت            اسکی حسینؑ ،           ابتدا   ہے              اسمعیلؑ                                                                                    (اقبالؒ)

61 ہجری کے شروع میں اسلام کی تاریخ میں وہ واقعہ رونما ہوا جسے  کسی قیمت پر فراموش نہیں کیا جا سکتا، وہ تاریخی شہادت ہوئی جسے بھول جانا قطعی ناممکن ہے۔ حضرت امیر معاویہ کے عہد کے آخر میں آپ کے ولی عہد کا مسلئہ  پیش نظر تھا آپ  نے اپنے بیٹے یزید(ملعون) کو ولی عہد نامزد کیا۔  اسی دوران آپ کی وفات ہو گئی ،آپ کی وفات کے بعد یزید کی بیعت مسلمانوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا بہت سے لوگوں نے  یزید کی بیعت کر لی اور اس نے خلافت کا دعویٰ کر لیا مگر امام حسینؑ، عبداللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر، عبداللہ بن عباس اور عبد الرحمٰن (ابن صدیق)  رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یزید کی بیعت نہ کی   ۔
یزید نے مدینے کے گورنر کو ان کی بیعت کے لیے ان کے پاس بھیجا ،مگر امام حسین ؑنے فوری طور پر  جواب نہ دیا اور مہلت طلب کی ۔اس اثنا ءمیں امام حسین ؑمدینے سے  مکہ روانہ ہو گئے ،جہاں پر حضرت عبداللہ بن زبیر پہلے ہی پہنچ چکے تھے، یزید کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے ایک لشکر بھیجا جس کی عبداللہ ابن زبیر کے ساتھ جنگ  ہوئی اور خدا کے فضل سے عبداللہ ابن زبیر کو فتح نصیب ہوئی مگر امام حسینؑ اس جنگ میں  حرم مکہ کے تقدس میں جنگ سے الگ رہے ۔
جہاں پر امام حسینؑ اور ان حضرات نے بیعت نہ کی تھی وہاں پر کوفہ کے لوگ بھی ابھی تک یزید کو خلیفہ نہ مانتے تھے چنانچہ کوفہ کے لوگوں نے مشاورت کے ساتھ اس خلافت کے خلاف متفقہ فیصلہ دیا ، اور جناب امام حسینؑ کو خطوط لکھنے شروع کیے جن میں امام حسینؑ کو اپنی مدد کا یقین   دلایا اور ان کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور خطوط اتنے لکھے گئے کے بوریاں بھر گئیں۔ چنانچہ امام حسینؑ نے کوفہ جانے کا  پختہ فیصلہ کر لیا  اگرچہ آپ کو آپ کے ساتھی اصحاب کوفہ جانے سے روکتے رہے۔
آپ نے اپنے کوفہ جانے سے پہلے اپنے بھائی جناب مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تا کہ وہ حالات کا صحیح صحیح ادراک کر سکیں اور وہاں کے حالات سے آپ جناب کو آگاہ کریں ، جب مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپکا شاندار استقبال کیا اور پہلے ہی دن امام حسینؑ کے لیے 12000 لوگوں نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی اور مزید ہزاروں لوگ بیعت کرنے کو تیار تھے ۔مسلم بن عقیل نے جب یہ منظر دیکھا تو آپ نے یہ خوش خبری امام حسینؑ کو بذریعہ خط پہنچا دی، چنانچہ اس خط کی بنیاد پر امام حسینؑ نے کوفہ روانگی کی تیاری شروع کر دی۔
مگر ادھر یزید کے حامیوں کو مسلم بن عقیل ؒ کی سرگرمیوں کا علم ہو گیا تھا ۔ کوفہ کے گورنر اس وقت نعمان بن بشیر تھے، لہٰذا یزید کے حامیوں کی جانب سے نعمان بن بشیر ؒ سے مسلم بن عقیل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جانے لگا مگر آپ چونکہ اہل بیت سے محبت رکھتے تھے لہٰذا آپ نے ایسا کرنے میں کچھ عذر پیش کیے ۔لہٰذا حامیان یزید نے اسکی خبر یزید کو پہنچا دی۔
چنانچہ یزید نے اپنے ایک غلام سے مشورہ طلب کیا  اور اس نے مشورہ دیا کہ اس وقت میں عبید اللہ ابن زیاد (جو کہ ابن زیاد کا بیٹا تھا اور ابن زیاد ابو سفیان کا بیٹا تھا جو ان کی لونڈی کے بطن سے تھا اور یہ عبید اللہ اسی ابن زیاد کا بیٹا تھا)   کو کوفہ کو گورنر بنایا جائے چنانچہ یزید نے نعمان بن بشیر کی معزولی اور ابن زیاد کی گورنری کا حکم جاری کر دیا۔ابن زیاد جو اب تک بصرہ کا گورنر تھا اس نے بصرہ میں لوگوں کو اکٹھا کیا اور اہل بیت کی بیعت کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا۔
ابن زیاد نے اس کے بعد کوفہ کا سفر کیا اور وہاں وہ رات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پہنچا ۔اس نے حجازی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور منہ پر کپڑا ڈالا ہو تھا، ادھر ٹھیک اسی وقت کوفی جناب امام حسینؑ  کی آمدکے منتظر تھے ۔چنانچہ لوگوں کو ابن زیاد کی آمد سے امام عالی مقام کی آمد کا مغالطہ ہوا، لوگ جوق در جوق اس کے پاس آنے لگےاور گلی کوچوں میں سلام یا ابن رسولﷺ کے نعرے بلند ہونے لگے، یہاں تک کے نعمان بن بشیر کو  بھی مغالطہ ہوا ، جب ابن زیاد محل میں پہنچا تو  نعمان بن نشیرنے دروازہ بند کر دیا اور اوپر سے (امام حسین سمجھ کر) واپس مدینے لوٹ جانے کا مشورہ دیا اب یہ سن کر ابن زیاد کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اس نے کہا دروازہ کھولو میں ابن زیاد ہوں، اب اس نے نعمان بن بشیر کو معزول کر کے خود چارج سنبھال لیا۔اگلے دن اس نے پھر لوگوں میں تقریر کی اور ایک بار پھر لوگوں کو دھمکایا کہ جو مسلم بن عقیل اور امام حسینؑ کی بیعت کرے گا اس کا نام میں صفحہ ہستی سےمٹا دوں گا۔ لہٰذا کوفیوں میں خوف و بزدلی چھا گئی۔
اسے یہ اطلاع تھی کہ مسلم بن عقیل کوفہ کے ایک رئیس کے ہاں مقیم ہیں جنکا نام ہانی بن عروہ تھا۔ چنانچہ یزید نے ایک غلام کو 300 درہم دے کر مسلم بن عقیل کی بیعت کے لیے بھیجا تا کہ صحیح علم ہو سکے اور اسے ہدایت جاری کی  کہ وہاں کہے کہ میں بصرہ والوں کی طرف سے آیا ہوں اور یہ درہم انہوں نے بھیجے ہیں۔ لہٰذا اس نے ایسا ہی کیا اور مسلم بن عقیل ؒ کے ہانی بن عروہ کے گھر ٹھہرنے کی معلومات ابن زیاد کو پہنچا دیں۔
ابن زیاد نے جناب ہانی کو اگلے روز اپنے دربار بلا کر مسلم بن عقیل کی رہائش کا پوچھا تو آپ نے انکار کردیا مگر جب اس غلام کو پیش کیا گیا تو آپ سازش  سمجھ گئے، ابن زیاد نے مسلم بن عقیل کی حوالگی کا مطالبہ کیا  تو آپ نے انکار کردیا چنانچہ ابن زیاد نے آپ کے سر پر وار کیا۔ہانی چونکہ کوفہ کے رئیس تھے۔ لہٰذا آپ کے خیر خواہ اس خیا ل سے کہ آپ کو قتل کر دیا گیا ہے تلواریں لے کر نکل پڑےجن میں مسلم  بن عقیل بھی شامل تھے۔ ان کی تعداد ہزاوں میں تھی ،شام تک یہ لڑائی جاری رہی  مگر شام تک مسلم ؒ کے ساتھ رہنے والوں کی تعداد 500 رہ گئی آپ نے مغرب کی نماز کے لیے امامت کرائی مگر جب سلام پھیرا تو مڑ کے دیکھا کہ ان میں سے کوئی بھی   موجود  نہیں ہے۔
آپ  نےتھک ہار کر ایک گھر کے دروازے سے ٹھیک لگائی اچانک مالکن نے دروازہ کھولا اور اس کے پوچھنے پر آپؒ نے بتایا کے میں مسلم بن عقیل ہوں، اس خدا ترس عورت نے آپ کو  اپنےگھر میں جگہ دی ادھر رات میں اس عورت کا بیٹا گھر پہنچا تو اسے ماں نے گلستان  محمدی ﷺ کے پھول کااپنے گھر میں ہونے کی خبر دی ،وہ بد بخت دن بھر آپ جناب کی گرفتاری کی تلاش میں رہا ،یہ سن کر اسکی آنکھوں میں خون اتر آیااس نے ابن زیاد کو خبر دی اور یوں مسلم بن عقیل گرفتار ہوگئے۔آپ کی گرفتاری کی خبر نے اہل کوفہ کو ایک بار پھر متحرک کیا اور ایک بار پھر ہزاروں لوگ آپ جناب کی رہائی کے لیے نکلے۔۔
چنانچہ ابن زیاد نے کوفیوں کی بزدلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم بن عقیل اور جناب ہانی کا کٹا ہوا سر لوگوں کی طرف پھینکا اور وہ کوفی مارے خوف و بزدلی کے اور جان بخشی کے بھاگ گئے۔
ادھر دوسری طرف امام حسین(رضی اللہ تعالیٰ ) مکہ سے  روانہ ہونے کو تیار تھے،آپ کو ابن عمر ،ابن عباس اور حضرت جعفر برابر روکتے رہے کہ کوفی بے وفا ہیں ،آپ نہ جائیں ،مگر آپ نے بھی نانا ﷺ کے دین کی حفاظت کی ٹھان لی تھی چنانچہ آپ  کوفہ کی جانب نکل پڑے۔آپ ایام حج کو مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے راستے میں آپ کو ایک شاعر ملے اور انھوں نے آپ پر حقیقت واضح کی کہ کوفیوں کے دل آپ کے ساتھ اور تلواریں یزید کے ساتھ ہیں ، مگر آپ نے سفر جاری رکھا۔
آپؑ کو راستے میں  حصرت حر ملے(جو بعد میں امام حسین ؑکے لشکر میں شامل ہوئے تھے یزید کا لشکر چھوڑ کے) انہوں نے آپ کو مسلم بن عقیل کی شہادی کی خبر دی۔
چنانچہ اب لشکریوں میں  مسلم ؒکے قصاص کا جذبہ بھی بیدار ہو گیا اور اآپ  سفر جاری رکھتے ہوئےکربلا کے میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں ابن زیاد کا ایک لشکرعمروابن سعد کی سربراہی میں آپہنچا جس سے امام حسین کی گفت و شنید چلتی رہی اور آپ نے تین شرطیں پیش کیں ،مجھے واپس جانے دیا جائے ،مجھے سرحدوں میں جانے دیا جائے یا مجھے برہ ا راست یزید سے ملنے دیا جائے۔ اس موقع پر امام حسین ؑنے خطبات دیے اور ان میں کوفیوں کے خطوط کا تذکرہ بھی کیا۔ لیکن  بات نہ بنی اور معرکہ کربلا کا وقت قریب آن پہنچا۔یزید ی لشکرنے دریا پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کا پانی بند ہو گیا ۔ نو محرم کی رات امام نے دعا و مناجات میں گزاری۔
امام حسین ؑنے تمام اپنے ساتھیوں شہزادوں  اورشہزادیوں کو جمع کیا اور کہا جو تم میں سے جانا چاہے چلا جائے مگر   صد ہا آفرین ہے ان جانثاروں پر کہ سب کی آنکھیں نم ہو گئیں اور سب نے   جانے سے معذرت کی اور امام حسینؑ کے ساتھ کٹ مرنے کو  تیار ہو گئے۔آخر یوم عاشورہ کا سورج طلوع ہوا  ۔
10 محرم  ایک ایک عاشق میدان میں جاتا اور عشق کا حق ادا کرتا جاتا، ایک ایک مجاہد جاتا اور جام شہادت نوش کرتا ،درجنوں شہید ہوگئے –ابو بکر بن علی،عمر بن علی،عثمان ابن علی(حضرت علی کے بیٹے)     علی اکبر شہید ہو گئے، قاسم ابن حسن شہید،    اب امام امام حسین جانا چاہتے ہیں لیکن  آپ کے عاشق بیٹے زین العابدین آتے ہیں آپ اس روز بیمار تھے مگر پھر بھی میدان میں جانے کا پورا پورا عزم و شوق شہادت رکھتے ہیں مگر بابا جان  امام عالیٰ مقام نے ان کو روک لیا اور خود میدان میں اتر آئے اور خوب مقابلہ کیا۔ جمعہ کا روز تھا جمعہ وہاں کہاں اور کیسے ہوتاخیر                !                                                        نماز ظہر (قربان اطاعت الہٰی پر) کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور یزیدی لشکر آپ پر وار کرتا ہے۔    ؎

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
ان للہ وان الیہ راجعون۔۔۔ آپکی شہادت کے بعد آپکا سر مبارک اور آپ کے باقی ساتھیوں کے سروں کو تن سے جدا کر دیا گیا۔اس کے بعد آپ کے سر مبارک کو پہلے ابن زیاد کے دربار میں لے جایا گیا اور اس کے بعد یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔۔
ابن زیاد اور یزید دونوں آپ کے سرمبارک  کولاٹھیوں سے چھوتے رہے اور وہاں موجود بزرگان نے یزید اور ابن زیاد کی ملامت کی برا بھلا کہا۔اس کے بعد آپ کے قافلے میں بچ جانے والوں کو مدینے بھیجا گیا تو مدینے کی فضا سوگوار ہو گئی خاندان عبدالمُطلب کی عورتوں نے قافلے کی آمد پر  مرثیے پڑھے۔ادھر کربلا میں  امام حسینؑ اور آپکے باقی ساتھیوں کے اجسام کربلا میں ہی پڑے رہے انکو کسی  نے اب تک نہ دفنایا تھا    اور دو تین روز بعد کربلا کے قریبی قبیلے کے لوگوں نے ان شہداء کے اجسام کو دفنانے کی سعادت پائی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قافلہ حجاز میں  ایک  بھی حسینؑ  نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات ( اقبال)

 

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply