تحلیلِ نفسی کیا ہے؟۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ/قسط1

تحلیلِ نفسی کو 1890ء کے اوائل میں آسٹریا کے مشہور ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے متعارف کروایا تھا (دوسرے ماہرین اِس سے پہلے یہ اصطلاح استعمال کر چکے تھے)۔ تحلیلِ نفسی دراصل “بےشعور/لاشعور دماغ” (Unconscious-Mind) کے مطالعہ و تجزیہ سے متعلق نظریات اور علاج کے طریقوں کا ایک مجموعہ ہے جس کا مقصد ذہنی صحت کی خرابیوں کے علاج کے طریقہ کار کو وضع کرنا ہے. تحلیلِ نفسی مختلف گروہوں کی نظر میں متنازعہ علمی شعبہ ہے اور اِس کی سائنسی حیثیت پہ بھی ابھی بحث جاری ہے. اِس کے باوجود نفسیات میں دیگر علمی ضابطوں کی نسبت یہ ایک محکم اثرات کا حامل ہے. حتی کہ یہ دماغی علاج کے دائرے سے باہر دیگر کئی علمی و سائنسی شعبوں میں بھی استعمال ہو رہا ہے.
تحلیلِ نفسی کے اہم نظریات کو کئی مکاتبِ فکر کے تحت منظم کیا جا سکتا ہے. شعبہِ طب میں بیماری کے مخصوص اسباب اور اُن علاج کے مخصوص طریقوں پہ تنازعہ کی مانند اگرچہ یہ تمام نظریاتی مکاتبِ افکار مختلف ہیں لیکن ان میں سے اکثر شعور پر لاشعور کے اثرات کو اہمیت دیتے ہیں. اکیسویں صدی میں یورپ نے تحلیلِ نفسی کو بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم، ادبی تنقید، ثقافتی مطالعہ، دماغی صحت، اور خاص طور پر نفسیاتی علاج سمیت بہت سے شعبوں میں رائج کیا ہے. راقم کی نظر میں تحلیلِ نفسی کا بہترین استعمال مابعدجدیدیت کی مخالفت میں ہوا ہے.
آئیے تحلیلِ نفسی بارے مختلف نظریات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمیں تحلیلِ نفسی بارے جانکاری حاصل ہو گی. سب سے پہلے سگمنڈ فرائیڈ کی بات پڑھتے ہیں.
جغرافیائی نظریہ:
انسانی دماغ کے بارے میں سگمنڈ فرائیڈ نے ایک جغرافیائی  مفروضہ تیار کیا کہ دماغ کو تین حصوں یعنی شعور، قبل از شعور اور لاشعور میں تقسیم کیا جا سکتا ہے. شعور کو دماغ کا فعال ترین حصہ سمجھا جاتا ہے جس میں ہمہ قسمی خیالات اور آراء ہوتی ہیں جو دماغ سے فوراً موصول ہوتی ہیں. قبل از شعور عمومی یادداشت کا حصہ ہے جو ایسی یادوں کا حامل ہوتا ہے جو شعور میں نہیں ہوتی لیکن اُن کو آسانی سے شعور میں لایا جا سکتا ہے،  جبکہ لاشعور جذبات، میلانات اور نظریات کا حامل دماغی حصہ ہے جو بےچینی، تنازعات اور درد سے منسلک ہوتے ہیں. فرائیڈ کے مطابق ایسے جذبات اور خیالات کو غائب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ وہاں موجود رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے اعمال و شعور پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں. یہ وہ حصہ ہے جہاں انفرادی شناخت اور انا کا زیادہ سے زیادہ دخل ہوتا ہے. یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ فرائیڈ کے مطابق یہ تینوں دماغ کے جسمانی حصے نہیں بلکہ دماغی عمل کے حصے ہیں. اگرچہ فرائیڈ نے اس نظریہ کو زندگی بھر میں برقرار رکھا تاہم اس نے بڑے پیمانے پر اس کو “ترکیبی نظریہ” سے بدل دیا. سگمنڈ فرائیڈ کا یہ جغرافیائی نظریہ (Topographic theory) کلاسیکل نفسیات میں دماغ کے افعال کی وضاحت کرنے کے لئے مافوقی نقطہ نظر کے طور پہ دیکھا جاتا ہے.
ترکیبی نظریہ:
سگمنڈ فرائیڈ کے ترکیبی نظریہ (Structural Theory) کے مطابق انسانی رویہ دماغ کے تین اجزاء یعنی:
1۔ ذات id
2۔۔ خودی ego
3.۔ماوراء خودی super-ego
 کے درمیان باہمی عوامل کا نتیجہ ہے. ان تینوں دماغی ساختوں میں اختلافات اور ان میں سے ہر ایک کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لئے ہماری کوششیں ہی ہمارے رویوں اور باقی دنیا کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کو متعین کرتی ہیں.
تینوں اجزاء میں اولیت کی حامل “ذات” ہے جو ہماری مادی ضروریات اور محرکات کی فوری تسکین و تعبیر سے متعلق ہے. یہ مکمل طور پر ایک غیرشعوری عمل ہے. مثلاً ایک انسان کہیں سے گزر رہا ہے اور کسی اجنبی کو آئس کریم کھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ اچھائی برائی اور بدتمیزی بارے سوچے بغیر اولین خیال ذہن میں پیدا ہوتا ہے یہ آئس کریم اُس سے لیکر خود کھا لی جائے. یہ شعور، حقیقت پسندی اور دوراندیشی سے مبرا فقط “خوشی” کے حصول کا ایک دماغ عمل ہے جو انسانی دماغ میں پیدائش سے موجود ہوتا ہے.
ماوراء خودی کو کچھ لوگ ضمیر کے نام سے پکارتے ہیں. یہ دماغی جزو سماجی قواعد و اخلاقیات سے تعلق رکھتا ہے. جیسے جیسے انسان اپنی آوائل عمری میں ہی اپنے معروض سے صحیح و غلط بارے سیکھنا شروع کر دیتا ہے، ماوراء خودی بھی ارتقاء کی منازل طے کرنا شروع کر دیتی ہے. اگر ایک شخص کسی اجنبی کو آئس کریم کھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو ماوراء خودی اُس سے آئس کریم لینے کو بدتمیزی سمجھے گا. لیکن اگر پہلا جزو “ذات” طاقتور جبکہ “ماوراء خودی” کمزور ہوا تو وہ فرد اُس سے آئس کریم چھین لے گا. تاہم بعدازاں “ماوراء خودی” انسان کو شرم اور پچھتاوا سے دوچار کر دے گا.
سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک ذات اور ماوراء خودی کی نسبت “خودی” انسانی شخصیت کا عملی و عقلی جزو ہے. یہ مکمل شعور اور مکمل لاشعور کے درمیان کا جزو ہے جس کا کام حقیقت کے عملی سیاق و سباق میں ذات و ماوراء کے بیچ توازن برقرار رکھنا ہے. آئس کریم والی مثال ہی لے لیتے ہیں. ذات کو ہر حال میں آئسکریم چاہیے جبکہ ماوراء خودی کسی دوسرے کی آئسکریم چھیننے کو بداخلاقی سمجھتی ہے، لہذا خودی دونوں جزو کی خواہشات کی تسکین کے لیے متوازن راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی آئسکریم خریدنے کا مشورہ دیتی ہے.
فرائیڈ کے مطابق ذات، خودی اور ماوراء خودی کے بیچ مسلسل تنازعہ چلتا رہتا ہے. ایک بالغ انسان کے رویوں کا تعین بچپن سے جاری انہی دماغی اجزاء کے بیچ تنازعات ہی کرتے ہیں. اُس کے مطابق طاقتور خودی ہی ایک صحتمند شخصیت کو تشکیل دیتی ہے جبکہ اِن دماغی اجزاء کا عدم توازن تشویش، ڈپریشن اور پریشانی جیسی ذہنی بیماریوں کا سبب بنتا ہے.
جاری ہے!

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تحلیلِ نفسی کیا ہے؟۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ/قسط1

Leave a Reply