ریاست سب کے لئے یکساں۔۔ محمد جمیل احمد

وطنِ عزیز میں اکثر جب کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جو ریاست کا امن برباد کرنے کا باعث بنے ،خاص طور پر مذہبی یا مسلکی حوالے سے دنگا فساد ہو تو ہمیں آس پاس سے کہیں ایک   ہلکی سی  اٹھتی آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔
“ریاست سیکولر ہونی چاہیے”

اور اسکے جواب میں ایک اونچی چنگھاڑتی ہوئی آواز آتی ہے کہ کیا سب ملحد ہوجائیں؟۔۔ پاکستان سے اسلام ختم کردیں، مسجدیں ختم کردیں، مسلمانوں کا ایمان نہ رہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ایسی آواز اکثر اس حلقہ سے اٹھتی ہے جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ریاست کو سیکولر بنیادوں پر چلانے سے کیا مراد ہے اور اس میں کیا معنویت ہے۔ان کے نزدیک سیکولر سے مراد ہوتی ہے کہ ریاست میں سے دین مذہب کا خاتمہ۔۔۔

اسے کچھ عام فہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
سیکولرازم کو ڈیفائن کرنے سے پہلے ہم Atheism اور Agnosticism کو سمجھتے ہیں۔۔۔

Atheism
ایتھیسزم دراصل وہ ہے جسے ہمارے دوست سیکولرازم میں گڈ مڈ کرتے ہیں۔ ایتھیسزم دو یونانی لفظوں A یعنی without اور theos یعنی خدا سے ماخود ہے۔۔۔ ایتھیسٹ وہ ہوتا ہے جو خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے اور خدا کی ذات پر اعتقاد نہیں رکھتا۔

Agnosticism
لفظ Gnostic کا مطلب ہوتا ہے علم / نالج ۔۔۔ Agnostic کو اگر ہم عام فہم سمجھیں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ جو کہے کہ مجھے نہیں معلوم ،خدا ہے یا نہیں۔۔۔ شاید کوئی خدا ہوگا یا شاید کوئی خدا نہ ہو مجھے اسکا علم نہیں۔

مندرجہ بالا اصطلاحات کو یہاں سمجھنا اس لئے ضروری تھا کہ یہ دراصل وہ ہیں جنہیں یہاں سیکولرازم میں گڈ مڈ کردیا جاتا ہے۔ اب جانتے ہیں سیکولرازم کیا ہے؟

سیکولرازم ایک پولیٹیکل فلاسفی ہے جس کا مطلب ایک ایسا نظام ہے جس میں ریاست اور مذہب کے امور الگ الگ ہوں گے اور ریاست کا کوئی مذہب نہ ہوگا۔۔۔ اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست میں مساجد و عبادات بند کردی جائیں یا کسی مذہب کے پیروکار ختم کردیے  جائیں، بلکہ سیکولرازم کہتا ہے کہ تمام مذاہب کی ریاست میں  برابر عزت  کی جائے اور ہر مذہبی طبقہ کو عبادات کا مکمل حق ہو اور اس میں ریاست کسی ایک مذہب کو دوسرے پر فوقیت دے، نہ کسی مذہب کے پیروکاروں کو ترجیحی بنیادوں پر ٹریٹ کیا جائے۔

ایک مثال لیتے ہیں، کچھ عرصہ قبل ہونے والے نیوزی لینڈ کے ایک سانحہ کی، جہاں پچاس کے آس پاس مسلمانوں کو نمازِ جمعہ کے دوران  مسجد میں شہید کردیا گیا۔ جرم کو دنیا میں کہیں بھی مکمل ختم نہیں کیا جاسکتا تاہم دو باتیں بہت اہم ہیں۔۔۔
اوّل یہ کہ ریاست ممکنہ حد تک جرائم کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
دوم یہ کہ ریاست کسی بھی ایسے سرزد ہونے والے واقعے میں انصاف کرے اور جرائم پیشہ افراد کو اس جرم کی قانون کے مطابق سزا دے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیوزی لینڈ میں پچاس کے قریب مسلمانوں کو شہید کرنے والے قاتل کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ ریاست کو اس بات سے غرض نہ تھی کہ مارنے والے  کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ ریاست کے نزدیک وہ ایک قاتل تھا جس نے ریاست کا امن برباد   کیا اور وہاں رہنے والوں کو تکلیف پہنچائی جس کے جرم میں ریاست نے اسے قانون کے مطابق پھانسی کی سزا سنائی  اور یہی ایک ریاست کا کسی بھی معاملہ میں بنیادی کردار ادا کرنا ہوتا ہے کہ اگر وہ اس واقعہ  کو روک نہیں پائی تو کم از کم انصاف کرے اور بغیر کسی کے اعتقاد و نظریات کو ترجیح دیے، ریاست کو شہریوں کیلئے پُر امن بنائے جس میں رہ کر تمام لوگ اپنی انفرادی زندگی میں عبادات کیلئے بغیر کسی دوسرے شہری کو تکلیف پہنچائے اور بغیر ریاست کے امن کو برباد کیے مکمل آزاد ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply