فضائی سفر،حساس ہمسفر

بورڈنگ کارڈ دکھانے اور خواتین میزبانوں سے روایتی مسکراہٹ کے تبادلے کے بعد میں جہاز میں اپنی مقررہ نشست پر جا بیٹھا۔ یہ جے ایف کے ائیرپورٹ نیویارک سے ابوظہبی آنے والی اتحاد ائیر لائن کی پرواز تھی اور اس سفر کے لیے مجھے کچھ ناگزیر ہنگامی مجبوری کے باعث اچانک روانہ ہونا پڑا تھا۔ اتحاد ائیر لائن سے یہ میرا چونکہ دوسرا بین الاقوامی سفر تھا اس لیے کافی حد تک میں ان کی سفری ہدایات اور ادب و آداب سے آگاہ تھا۔ دوسری وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ایک ہی سال میں یہ میرا تیسرا بین البراعظمی سفر تھا اور ان سب روایتی چیزوں سے خوب آگاہ ہو چکا تھا ،اس کسی جانب کوئی خاص توجہ دیئے بغیر سر کو نشست کی پشت کے ساتھ ٹکایا۔ آنکھوں پر ائیر لائن کی طرف سے عطا کی گئی مخصوص آرام دہ پٹی چڑھائی اور آرام کرنے لگا۔ میری نشست کھڑکی کے بالکل ساتھ تھی۔ جب حفاظتی بیلٹ باندھنے کا وقت آیا کہ جہاز اڑان بھرنے کو بالکل تیار تھا تو میرے کاندھے کو بالکل ہلکے سے چھونے کے انداز میں جنبش دی گئی۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور ساتھ والی نشست کی جانب نگاہ دوڑائی تو وہاں ایک بہت حسین و جمیل ترکی النسل نوجوان خاتون کو ایستادہ پایا ، جو بہت دلکش مسکراہٹ کے ساتھ مجھے انگریزی زبان میں بیلٹ باندھنے کا کہہ رہی تھی ، کچھ فاصلے پر کھڑی سفری میزبان کی تاکید تھی سو میں نے جلدی سے بیلٹ باندھی اور دوبارہ سے آرام کی کیفیت میں آنے ہی والا تھا کہ اس خاتون نے اپنی شیرینی گھولتی آواز میں دوبارہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو ٹیک آف کے دوران اپنی نشست کو معمول کی حالت میں لا کر مستعد بیٹھنا ہوگا۔ اس کا تاکیدی انداز ایسا تھا کہ جیسے میرا یہ پہلا سفر ہو اور وہ مجھے گائیڈ کر رہی ہو۔ میں تھوڑا حیران تو ہوا کہ اس کو میرے بیلٹ باندھنے کے انداز سے بھانپ لینا چاہیے تھا کہ میں ان سب چیزوں سے آگاہ ہوں لیکن میں نے نظر انداز کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور مستعد ہو کر بیٹھ گیا۔ جہاز جب اپنی مخصوص اونچائی تک پہنچ گیا تو میں نے خود کو دوبارہ سے آرام کی کیفیت میں لا کر آنکھیں موندھ لیں۔
میں کہیں بالکل اپنے ہی خیالات میں کھو گیا تھا اور احساس کرنے کے بارے میں سوچوں میں گم ہو گیا تھا کہ اہلِ علم و دانش فرماتے ہیں رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ احساس ہو تو پرائے بھی اپنے اور احساس نہ ہو تو اپنے بھی پرائے۔ پھر جناب اشفاق احمد ذہن میں آئے کہ فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں توصبر آ جاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔ اسلام نے جس فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ اسکا طرہ امتیاز بھی یہی تھا کہ اس معاشرے میں ہر فرد کا دوسرے فرد کے متعلق احساس زندہ تھا اور آج اگر ہم معاشرتی بگاڑ کا رونا رو رہے ہیں تو اسکی بنیادی وجہ بھی احساس کی عدم بیداری ہے ۔ احساس کرنے کے بارے میں یہ باتیں لامحالہ میرے ذہن میں اپنے ساتھ والی نشست پر براجمان نوجوان خوبصورت خاتون کے انداز تکلم سے ہی آئی تھیں کہ اس کے مخاطب کرنے میں موجود شدت احساس کی موجودگی مجھے حیران کرگئی تھی اور مجھے کسی حد تک یہ بھی لگا اور اندر ہی اندر شرمندگی بھی محسوس ہوئی کہ میں نے اس کے بھرپور احساس کا جواب لاپرواہی برت کر ہی دیا تھا کہ میرے شکریہ کی ادائیگی میں اجنبیت غالب تھی۔
بہرحال تقریباً اگلے دو گھنٹے تک خاموشی رہی اور میں بھی اسی کیفیت میں آرام ہی کرتا رہا۔ ازاں بعد اس خوبرو خاتون کی جانب سے ایکسیوز می کے الفاظ ادا ہوئے۔ جب میں نے تھوڑا سیدھا ہو کر آنکھوں سے پٹی ہٹا کر ان کی جانب دیکھا تو میری کھانے کی ٹرے وہ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھی اور مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے مجھ سے میری نشست کے سامنے والی مختصر میز کھولنے کا کہہ رہی تھی۔ میں نے میز کھولی، خاتون کے کے ہاتھ سے ٹرے لے کر میز پر رکھی اور ان کا شکریہ ادا کیا لیکن انداز ابھی بھی کچھ بے نیازانہ سا تھا۔ کھانا کھانے کے دوران بھی بالکل خاموشی رہی لیکن مستعدی سے میں نے کھانا پہلے ختم کر لیا اور قریب سے گزرتی ہوئی خوبصورت فضائی میزبان سے چائے کی فرمائش کی۔جس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ ابھی لائی کہا اور تیزی سے چلی گئی۔
کھانے سے فراغت کے بعدپھر خاموشی چھا گئی ۔ میں نے اپنے سامنے والی ٹی وی سکرین آن کی اور کانوں میں ہیڈ فون لگا کر سکرین میں موجود بہت سے پروگراموں میں سے ایک پروگرام منتخب کیا اور دیکھنے لگا ۔ اسی اثناء میں میرے ساتھ والی خاتون بھی مسلسل اس کوشش میں تھی کہ اس کے سامنے والی سکرین آن ہوجائے لیکن نہیں ہو رہی تھی۔ دراصل ان کی سیٹ کے ساتھ نسب بٹن بند تھا۔ ان کی پریشانی بھانپتے ہوئے میں نے وہ بٹن آن کیا اور ریموٹ سے ان کی سکرین روشن کرتے ہوئے ریموٹ ان کے حوالے کردیا۔ کوئی دو گھنٹے تک میں پروگرام دیکھتا رہا کہ پرواز کا دورانیہ تو تیرہ گھنٹوں پر محیط تھا۔ وہ خاتون ایک گھنٹے بعد ہی اکتاکر ٹی وی سکرین آف کر چکی تھی۔
جونہی میں نے ہیڈ فون اتارے اور پیچھے ہو کر آرام دہ حالت میں بیٹھنے کو تھا کہ اس خاتون کی آواز سنائی دی ۔۔کیا آپ پریشان ہیں ؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ جی کچھ تشویش سی تو ہے لیکن سب ٹھیک ہے۔آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ یہ اس کا دوسرا سوال تھا ۔ میں نے جواب دیا کہ پاکستان جا رہا ہوں۔ آخری فضائی منزل لاہور ہے اور وہاں سے دو گھنٹے کی مسافت پر میرا آبائی شہر ہے۔ اس دوران بھی وہ بہت انہماک سے میری بات سنتی رہی۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ نے کہاں جانا ہے تو وہ کہنے لگی کہ دبئی جا رہی ہوں۔ جلدی میں ابوظہبی کی فلائیٹ پکڑی ہے۔ وہاں سے سڑک کے ذریعے دوبئی جانا ہے۔ میرے سفارت خانے کا عملہ میرے استقبال کے لیے موجود ہوگا۔میرے استفسار پر اس نے مزید بتایا کہ وہ نیویارک میں ترکی کے کونسل خانے میں کلیریکل پوسٹ پر جاب کر رہی ہے اور اس کا خاوند دبئی میں ترکی کے سفارت خانے میں پریس اتاشی ہے۔ وہ خاص طور پر چھٹی لے کر اپنے خاوند کے ساتھ رہنے جلدی میں دبئی پہنچنا چاہتی تھی کہ دبئی میں اس کے خاوند کی بہن کے ہاں اس کی صاحبزادی کے نکاح کی تقریب تھی ، جس میں اس کی شمولیت ضروری تھی۔دوران گفتگو میں نے محسوس کیا کہ اس خوبرو اور انتہائی دلکش نقوش کی مالک ترکی النسل خاتون میں بڑی خاص قسم کی کشش ہے۔ بات خوبصورتی کی نہیں تھی۔ اصل میں اس خاتون کے احساسات سے جھلکتا ہوا خلوص گواہی دے رہا تھا کہ اس کے اندر سچائی اور رواداری کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔ بلا شبہ خلوص اور جذبوں کو دل میں اترنے کے لئے لفظوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی لیکن لفظوں کو دل میں اترنے کے لئے خلوص اور جذبوں کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے ورنہ لفظ سراسر کھوکھلے، اثر سے محروم ہوتے ہیں، دل کی مقناطیسی لہریں بہت گہری حساسیت رکھتی ہیں، انہیں جس شدّت سے بےرخی تکلیف دیتی ہے اسی شدّت سے خلوص زندہ کر دیتا ہے۔ اسی احساس نے مجھے متاثر کیا تھا۔
پہلے تو میں نے بہت اجنبیت اور بے نیازی سے کام لیا تھا لیکن اس طرح تعارف ہوجانے کے بعد اب اس سے مزید بات کرنے کی طرف ذہن مائل تھا۔ کچھ دیر ہم دونوں کے درمیان سکوت رہا اور پھر اچانک ہم دونوں ایک ہی وقت میں ایک دوسرے کی طرف مڑے اور کہا آپ۔۔۔ ایک دم سے خاموش ہوئے اور اس کے بعد دونوں کے منہ سے ہلکا سا قہقہہ گونجا۔ خاموشی ہوئی اور میں نے اس سے پوچھا کہ جی کیا پوچھنے لگی تھیں آپ۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے جاننا چاہ رہی تھی کہ آپ کو میرے ملک ترکی کے بارے میں کیا علم ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ واہ ۔۔۔ میں بھی یہی پوچھنے لگا تھا کہ آپ کا ملک ترکی اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے۔ کیا آپ اس سے مطمئن ہیں۔ اس نے ایک دم سے میری آنکھوں میں جھانکا اور سوال داغا۔۔۔ کونسے حالات ؟ میں نے کہا کہ پچھلے سال کی ناکام بغاوت کے بعد جو کچھ رجب طیب اردگان کی حکومت نے فتح اللہ گولن اور اس کی تحریک کے ساتھ کیا ہے اس کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟اس نے عمومی سے لہجے میں کہا کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ میں تھوڑا سا حیران ہوا اور بولا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ کیا آپ اس سب کو جائز قرار دے رہی ہیں اور کیا گولن تحریک ایسے ہی طرزعمل کی مستحق ہے؟ ۔۔۔ اس نے کچھ دیر توقف کیا ، شاید اس کو توقع نہیں تھی کہ میں ایسے سوالات کرونگا۔ اس کے بعد وہ گویا ہوئی۔۔۔ دیکھئے سچ تو یہ ہے کہ سب غلط ہو رہا ہے لیکن جو پچھلے برس بغاوت ہوئی تھی اس میں گولن تحریک کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اگر وہ بغاوت کامیاب ہوجاتی تو باغی کس قسم کا سلوک کرتے۔ میں نے ہمم کرتے ہوئے اس کی بات کو مزید بڑھاوا دیا۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ، میں عقلی طور پر تو اس ساری شدت پسندی کے خلاف ہوں لیکن میری ہمدردیاں اردوان حکومت کے ساتھ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رجب طیب اردوان آج ترکی کا ہیرو ہے اور 2008ء کے بعد سے اس کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردوان کے زیرقیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ترک رجب طیب اردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کی جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردوان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے ۔
اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا اور ترکی پہنچنے پر اہل ترکی نے اپنے ہیرو کا نہایت شاندار استقبال کیا۔ اس کے بعد سے اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس کے بعد میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن کیا حقیقت نہیں کہ اردوان حکومت کے خلاف بھی بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں اور خود رجب طیب صاحب کے نجی اثاثے بھی گزشتہ چند برسوں میں بہت تیزی سے بڑھے ہیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عالمی میڈیا کی شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق رجب طیب کے بیٹے بلال اردوان اٹلی میں کرپشن، منی لانڈرنگ اور دیگر کیسز کے سلسلے میں زیر تفتیش ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق اٹلی کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اگلے مرحلے میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کیسز سے متعلق ترک صدر طیب اردوان سے بھی تحقیقات کریں گے۔ برطانوی اخبار کے مطابق ترک صدر کے بیٹے بلال اردوان اربوں روپے کی کرپشن، منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ میری ان باتوں پر ابھی وہ کچھ ردعمل دینے لگی تھی کہ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا ، مصنف اور تحقیق کار ایف ولیم اینگڈال کے مضمون کو آپ نے پڑھا تھا ؟ جس میں باقاعدہ الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ترک صدر کے بیٹے بلال اردوان کا داعش کے ساتھ قریبی گٹھ جوڑ ہے اور وہ داعش کا غیر قانونی تیل سمگل کرنے والے نمایاں ترین کردار ہیں۔مصنف کا کہنا ہے کہ داعش کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اس کے زیر قبضہ علاقے میں تیل کی فروخت ہے، جسے ممکن بنانے کے لئے سب سے اہم کردار رجب طیب اردوان کے صاحبزادے بلال طیب اردوان ادا کرتے ہیں۔
اس نے مجھے دیکھتے ہوئے حیرت ظاہر کی اور پھر ذرا توقف کیا۔ وہ دراصل اپنی توانائیاں مجتمع کر رہی تھی ۔ پھر اس نے مجھے بڑ ے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا کہ آپ کی یہ ساری باتیں درست لیکن کیا آپ کے ملک کے رہنما زرداری اور نوازشریف اسی طرح کرپشن میں ملوث نہیں ہیں ؟۔۔۔ یہ سنتے ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور میں نے بہت دھیمے لہجے میں اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ کیا رجب طیب اردوان بھی انہی کی سطح کا لیڈر ہے ؟ آپ کس کا کس سے موازنہ کرنے چلی ہیں۔ اگر یہ ایک جیسے ہیں تو پھر ترکی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اردوان کو ترکی میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے جبکہ اس کے برعکس مسٹر زرداری اور نواز شریف تو پاکستانی سیاست کے ایسے کردار ہیں کہ جن سے کم سے کم پاکستان کے سنجیدہ اور سلجھے ہوئے طبقات کو کوئی امید نہیں ہے ۔ میری اس بات کے ردعمل میں اس نے کہا کہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ میں نے تو فقط آپ کے ملک کے لیڈروں کی مثال دے کر سمجھانا چاہا ہے۔ میں نے کہا کہ میرے خیال میں آپ نے غلط جگہ پر غلط مثال دی ہے۔۔۔ اس کے بعد کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پھر اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ فتح اللہ گولن کو اب ترکی کا ہیرو تو قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ ایسی کوئی بات میں نے نہیں کی ہے لیکن اس کے حامیوں کے نزدیک وہی ترکوں کا ہیرو ہے۔کیا یہ سچ نہیں کہ گولن تحریک بین الاقوامی سطح پر شہری معاشرتی تحریک ہے جو گولن کی تعلیمات سے متاثر ہے۔ ان کی تعلیمات میں ہزمت (عام بھلائی کے لیے کی گئی خدمت) کو نہ صرف ترکی بلکہ وسطی ایشیا کے علاوہ دنیا کے دیگر علاقوں سے بھی مقبولیت مل رہی ہے۔ اگرچہ ترک حکومت کی طرف سے زیر عتاب آنے کے بعد اس تحریک کو دھچکہ ضرور لگا ہے لیکن ابھی بھی اس میں بہت دم خم موجود ہے۔
گولن تحریک کے شرکا نے دنیا بھر میں بہت سارے ادارے قائم کیے ہیں جو بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالموں کو ترویج دیتے ہیں۔ میری اس بات کے جواب میں اس نے کہا کہ آپ کی بات سے اتفاق تو ہے لیکن بعض علماء کے برعکس گولن یہودیوں اور عیسائیوں کے متعلق مثبت جذبات رکھتے ہیں اور سامیت دشمنی کے خلاف ہیں۔ 1990 کی دہائی میں انہوں نے بین المذاہب برداشت اور مکالمے کی حمایت شروع کر دی۔وہ خود ذاتی طور پر دیگر مذاہب کے بڑوں بشمول پوپ جان پال دوم، یونانی آرتھوڈکس چرچ کے سربراہ اور اسرائیلی سیفارڈک بڑے ربی ایلی یاہو بکشی ڈرون سے بھی ملاقات کی۔ اس کی وجہ سے ترک نیشنلسٹ اور مذہبی حلقوں میں ان کو پسند نہیں کیا جاتا ہے۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے ابھی اپنے لب کھولے ہی تھے کہ اس نے بات جاری رکھی اور کہا کہ ویسے میرے گولن تحریک کی حمایت نہ کرنے کے پیچھے یہ سب عوامل نہیں ہیں۔ میرے تحفظات کچھ اور بھی ہیں۔۔۔ میں نے کہا کہ جی ضرور آپ بتائیں ۔ ظاہر ہے گولن تحریک کے بارے میں آپ کی جانکاری مجھ سے بہت زیادہ ہے۔اس نے بتایا کہ گولن کے پیروکاروں نے دنیا بھر میں 1000 سے زیادہ تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ترکی میں گولن کے تعلیمی ادارے بہترین شمار ہوتے ہیں، ان میں جدید ترین سہولیات مہیا کی جاتی ہیں اور انگریزی زبان پہلی جماعت سے پڑھائی جاتی ہے۔ تاہم گولن کے پیروکاروں سے ہٹ کر دیگر سابقہ اساتذہ نے گولن تعلیمی اداروں میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور بتایا ہے کہ خواتین اساتذہ کو تنظیمی معاملات سے دور رکھا جاتا ہے اور انہیں محدود آزادی ہوتی ہے اور خواتین کو آہم اور بنیادی فیصلوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ اس کی یہ بات بہت قابل توجہ تھی اور اس بات پر میں نے اس سے اتفاق کیا کہ یہ بات تو پریشان کن ہے لیکن میں نے مزید کہا کہ کیا گولن نے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے ارادے کی حمایت نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ ترکی اور یورپی یونین کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ میں نے یہ بھی کہیں پڑھا تھا کہ گولن خواتین کے متعلق ‘ترقی پسندانہ خیالات رکھتے ہیں۔ گولن کے مطابق اسلام کی آمد نے خواتین کو تحفظ دیا ہے ۔ گولن نے دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ وہ شہریوں کے خلاف تشدد اور جارحیت کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ گولن نے اسرائیل کی اجازت کے بغیر ترکی کی جانب سے غزہ کو بحری بیڑا بھیجنے پر تنقید کی۔گولن نے ترکی کی جانب سے شام کی خانہ جنگی میں شمولیت کی سختی سے مخالفت کی تھی۔ میری ان باتوں کو سننے کے بعد اس نے بھی تائیدی انداز میں سر ہلا دیا۔
میرے ذہن میں ابھی کچھ اور باتیں بھی تھیں جن کا تعلق بھی اسی فتح اللہ گولن کی تحریک سے ہی تھا مگر میں خود بھی محسوس کیا کہ ہماری گفتگو بہت زیادہ سنجیدہ ہو گئی ہے تو میں نے فوراً سوال داغ دیا کہ آپ کی شادی کو کتنا عرصہ ہوگیا ؟ ۔۔۔۔۔۔ میرے اس سوال پر اس نے ایک دم میری جانب دیکھا ۔ انداز میں کچھ خوشگوار حیرت نظر آرہی تھی کہ جیسے وہ بھی موضوع بدلنے کی منتظر ہو۔۔۔چارسال۔ یہ مختصر سا جواب آیا۔۔۔ میرا اگلاسوال بچوں سے متعلق تھا ؟ اس نے نفی میں سر ہلایا اور بس اتنا ہی کہا کہ ابھی نہیں ہیں۔ پھر میں نے اس سے اس کے والدین کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے ان کے بارے میں کافی تفصیل سے باتیں کیں۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد ترکی النسل مسلمان ہیں اور انہوں نے ایک امریکن گوری سے شادی کی تھی۔ جو باقاعدہ طور پر مسلمان ہو گئی تھی۔ وہ دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے اور اس کے والدین ابھی بھی نیویارک میں ہل سائیڈ جمیکا کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ دونوں بھائی بڑے ہیں اور شادی شدہ ہیں اور اس کی رہائش بروکلین کے علاقے میں فوسٹر ایوینیو کے قریب ہے۔ میں نے جب بتایا کہ میں بھی بروکلین میں کنگز ہائی وے کے قریب ہی رہتا ہوں تو اس نے چہکنے کے انداز میں خوشی سے کہا کہ پھر تو ہم ایک ہی علاقے میں ہوئے۔ میں نے بھی کہا کہ جی ہاں۔۔۔ پھر میں نے اس سے پوچھا کہ ترکی سے کسی حد تک عملی تعلق بھی رہا آپکا کہ نہیں؟ اس نے کہا کہ میرے پاپا نے ہمیں ترکی سے دور نہیں ہونے دیا۔ ہم تسلسل کے ساتھ ترکی جاتے رہے ہیں اور پاپا کے خاندان والوں کے ساتھ کافی روابط برقرار ہیں۔ میرے ایک بھائی کی بیوی ہماری فرسٹ کزن ہے جبکہ دوسرے بھائی نے میری طرح لو میرج کی ہوئی ہے۔ اس بات کے سنتے ہی میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور سوالیہ انداز میں میرے منہ سے نکلا۔۔۔۔۔ کیا ۔۔۔۔۔۔ اس کو میرے ردعمل پر حیرت ہوئی اور پوچھنے لگی کہ کیا کچھ غلط کہہ دیا میں نے ؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ میں نے کہا،بس ویسے ہی۔۔ مجھے خود بھی حیرت ہوئی کہ ایسا ردعمل کیوں دیا۔ بعد میں احساس ہوا کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں چونکہ لو میرج کو آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے شاید ایسا ہوا۔ اس کا خاوند بھی ترکی النسل تھا اور پچھلے تین برس نیویارک کے ترکش کونسل خانے میں وہ دونوں اکٹھے کام کرچکے تھے۔ وہیں پر ان کے تعلقات میں گرم جوشی آتی گئی اور آخر کار وہ دونوں ایک ہوگئے۔ اس نے کہا کہ میرے خاوند کو میری نیلگوں اور سرمئی شیڈ والی آنکھیں بہت پسند ہیں۔ اس نے جب پہلی بار مجھے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ میری آنکھوں میں بس ڈوب سا گیا تھا۔ اس موقع پر میرے لب پر بے ساختہ یہ اشعار آگئے کہ جن کی تشریح مجھے بعد میں اس کے استفسار پر اس کو سمجھانی پڑی تو وہ بہت خوش ہوئی ۔۔۔
‏میں نے اُس کو اتنا دیکھا
جتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے
کتنا دیکھا جا سکتا تھا….!!
اس کے بعد کافی دیر تک ہمارے درمیان خاموشی رہی اور میرے خیالات کہیں بھٹکتے ہوئے بہت دور نفیسہ ارشد تک جا پہنچے۔ سچ تو یہ ہے آج اس دلکش خاتون کی سحر انگیز آنکھوں کو دیکھنے کے بعد فوراً وہی ذہن میں آئی تھی۔ کئی برس قبل جب میں ایک پرائیویٹ سکول میں لڑکیوں کی دہم جماعت کو ریاضی پڑھانے کے لیے جزوقتی استاد کے طور پر جایا کرتا تھا تو وہ اس دہم جماعت کی انچارج ہوا کرتی تھی۔ بالکل ایسی ہی اور اتنی ہی اثر آفریں آنکھیں تھیں اس کی۔ وہ بہت حساس تھی ۔ زندگی نے اس کے ساتھ کیا ہی کچھ ایسے تھا کہ اس کو عمر کے اس حصے میں سنجیدہ ہونا پڑا تھا جب لڑکیاں اپنی جوانی کے جوبن میں اندر ہی اندر کہیں مسکراتی رہتی ہیں۔ اس کو عمر کے اس حصے میں طلاق جیسے لفظ کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ جب ابھی اس کے شادی جیسے لفظ سے لطف لینے کے دن تھے۔ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ مجھے آج بھی اس کے وہ الفاظ یاد ہیں جو اس نے انتہائی دکھ بھرے لہجے میں دہم کی الوداعی تقریب میں اپنی جماعت سے مخاطب ہو کر کہے تھے ۔۔۔۔۔ اس نے کہا تھا ،”رشتو ںمیں احساس نہ ہو تو وہ بالکل کھوکھلے ہو جاتے ہیں اور اک ذرا سی بدگمانی سے ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جاتے ہیں ،ہر رشتہ خیال اور احساس کا متقاضی ہو تا ہے،جسے ہم پیار کہتے ہیں دراصل وہ بھی احساس کا ہی دوسرا نام ہے”آج جب سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ٹھیک ہی تو کہا تھا اس نے۔۔۔۔
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مرجانا ہے!
دوسری بار کھانا کھا چکنے اور فضائی میزبانوں کے چلے جانے کے بعد اس نیلگوں آنکھوں والی ترکش حسینہ سے کافی دیر تک ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی ،یہ احساس مزید پختہ ہوتا گیا کہ وہ بہت دردمند دل رکھنے والی ایک مخلص خاتون ہے۔ اس نے اپنے دستی بیگ میں سے اپنا وزٹنگ کارڈ نکال کر دیا تاکہ رابطہ برقرار رہے،اس نے کہا کہ آپ سے آج کی نشست بہت مفید اور یادگار رہی۔ آپ نے جس طرح مجھ سے ترکی کے حالات کے بارے میں گفتگو کی مجھے بالکل یوں لگا کہ جیسے کسی ترکش ہم وطن سے بات ہورہی ہے۔ مجھے اتنا علم تو تھا کہ پاکستانی بہت ذہین اور مخلص ہوتے ہیں لیکن آج آپ سے ملاقات کے بعد اس احساس کو مزید تقویت ملی۔ میں نے رسمی طور پر اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر مزید کچھ دیر خاموشی رہی۔ جہاز کے اتر جانے کے بعد جب سب مسافر باہر آرہے تھے تو اس نے جاتے جاتے ایک بار پھر شرمندہ کردیا کہ جب میری طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگی کہ جب میں نے آپ کو اپنا وزٹنگ کارڈ دیا تو آپ کو اخلاقی طور پر اپنا کارڈ یا کم سے کم رابطہ نمبر ضرور دینا چاہئے تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے معذرت چاہی اور اس کے بورڈنگ کارڈ کے چھوٹے سے بچ جانے والےحصے پر اپنا نمبر یہ کہتے ہوئے لکھ دیا کہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ اس کو سنبھال پاتی ہیں یا نہیں !!

Facebook Comments

اکرام الحق
حال مقیم امریکا،آبائی تعلق ضلع گجرات،پاکستان۔ادب سے شغف۔وطن سے محبت ایمان۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply