عدم برداشت کا ایک حل اپنا حق چھوڑنا بھی ہے

معاشرہ میں بڑھتی عدم برداشت کا ہر کس و ناکس کو سامنا ہے۔ پیدل ہو یا موٹر سائیکل سوار ،ریڑھی بان ہو یا گاڑی میں بیٹھا شخص ہر ایک کے اندر زمانہ کی تیز رفتاری نے عدم برداشت اور عدم روا داری پیدا کر دی ہے۔ کیا اس کا قصوروار صرف معاشرہ میں بڑھتا ہوا اخلاقی انحطاط اور انتشار ہے۔ اس کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں۔ کیا ان تمام امور کے ذمہ دار ہم ہیں۔ کیا ہم میں سے ہر ایک اپنے اخلاق اور عادات کا ذمہ دار نہیں۔ کیا ہر ایک اپنے خاندان اور نسل کی تربیت کا ذمہ دار نہیں۔ یہ سچ ہے کہ معاشرہ کسی بھی قوم کی آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت ، اخلاق و عادات، رہن سہن پر اثر ڈالتا ہے لیکن اس اثر کو قبول کرنا یا اس کو اپنی شخصیت کے حسین لبادے سے اتار پھینکنا ہر ایک کی انفرادی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ معاشرتی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ معاشرہ سے زیادہ ہر ایک خود اپنی اور اپنے خاندان کا ذمہ دار ہے اس بارےمیں رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ألا فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته۔ یعنی ’’آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا ۔‘‘ (مشکوۃ شریف۔ جلد سوم ۔ حدیث 819)
اس حدیث میں کتنی خوبصورتی سے ہر ایک کو اس کے حقوق و فرائض سونپ دیئے گئے اور ہر ایک کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ خود اپنے ماتحت کی ہر طرح کی نگہبانی کرے کیونکہ اس سے اس بارےمیں پوچھا جائے گا۔ اس نگہبانی میں کیا کیا شامل ہے۔ ایک شخص صرف اپنے افرادِخانہ کے نان نفقے کا ذمہ دار نہیں بلکہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت انہیں معاشرے کا حصہ بنانا، ان کو ملکی قوانین کی پاسداری سکھانا بھی اس نگہبانی میں شامل ہیں۔ اگر گھر سے ہی ان امور پر توجہ کی جائے تو معاشرے کے ذمہ داران پر بڑھتا ہوا بوجھ بہت کم ہو جائے گا۔ جب ایک بچہ سرعام سڑک پر گالیاں نکالے تو ہم بے حس بن کر گزر جانا پسند کرتے ہیں۔ عدم برداشت ابھی اس بچے میں پنپ رہا ہوتا ہے اگر یہاں اس کی بیخ کنی نہ کی جائے تو یہ عادت ایک ناسور کی طرح اس کی شخصیت کا جزو لازم بن کر اس کے اخلاق کو تباہ کر دے گی ۔ یہ عدم برداشت بڑھتے بڑھتے ہر قسم کے غیر اخلاقی، غیر انسانی امور کو اس کے لئے روا کر دے گی۔ پھر چاہے وہ گھر پر ہو یا بازار میں کسی کی چھوٹی غلطی پر درگزر کرنا نا گزیر ہو جائے گا۔
پس اصل چیز جس میں کمی نظر آتی ہے وہ درگزر اورمعاف کرنے کی عادت کو چھوڑنا ہے جو بڑھ کر عدم برداشت و رواداری کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے لئے اسوۂ کامل ہمارے سید و مولا سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آ لہ سلم ہیں۔ آپ کا کامل نمونہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپؐ نے تو رواداری، برداشت، درگذر کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں ۔ گالیاں دینے والوں کو، جان سے مارنے کی کوشش کرنے والوں کو، اعزاء و اقارب کے قاتلوں کو، جسمانی دکھ اور تکلیف دینے والوں کو، دھوکا دینے والوں کو، غداری کے مرتکب غرض چھوٹی بڑی ہر قسم کی تکلیف اور دکھ پہنچانے والے کو نا صرف معاف کیا بلکہ ان سے حسن سلوک اور احسان بھی فرمایا۔
ہمارے لئے ایک بہترین معاشرہ کا قیام نہایت آسان ہے کیونکہ ہمارے پاس ایک جامع لائحہ عمل قرآن کریم اور سنت نبوی کی صورت میں موجود ہے۔ معاشرہ کی سطح پر ہم ان باتوں کو دنیامیں عام دیکھنا چاہتےہیں اور ہر ایک سے توقع کرتے ہیں کہ وہ برداشت کا مظاہرہ کرے، معذرت کرے یا معافی مانگے۔ کیا اس میں ہم پہل نہیں کر سکتے۔ معاشرے میں امن اس صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب ہم کچھ اپنا حق بھی چھوڑیں اسی کو درگذر کرنا کہتے ہیں۔ پس عدم برداشت کا ایک حل بلکہ بہترین حل درگذر کرنے کی صفت کو اپنانا ہے۔
پس ضروری ہے کہ ان باتوں پر عمل کا آغاز ہم اپنی ذات سے کریں۔ آئیے خود کو حکم خداوندی اور ارشادات نبوی ؐ کا پہلامخاطب خیال کر کے اپنی اصلاح کا آغاز کریں پھر اپنے گھر اور پھر معاشرے کو سنوارتے ہیں۔

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply