مزدوری کی تلاش ۔۔سبط حسن گیلانی

وہ لباس کے نام پر پھٹی پرانی دھوتی پہنے گلے سے بالکل ننگا کہ گرمیوں کا موسم تھا ۔ ہاتھ میں ڈنگوری جس کے ایک سرے پر ایک ہک گڑی تھی اور اس ہک کے ساتھ سلور کی ایک میلی سی بالٹی لٹکا کر کندھے پر رکھے ایک بڑی سڑک پر جا رہا تھا۔بالٹی میں ایک سلور کا گلاس ایک میلی سی دھجی اور ایک چیتھڑا سی قمیص دھنسی ہوئی تھی ۔ پاؤں میں سلیپر جو گھس کر اپنی شکل اور رنگ تقریباً ختم کر چکے تھے ۔ بائیں سلیپر کا پنجا ٹوٹ چکا تھا اور دائیں کی ایڑی ۔ اس طرح چلتے ہوئے  اس کے پاؤں  کا بائیاں پنجا اور دائیں ایڑی تارکول کی گرم سڑک پر رگڑ کھا تے ہوئے جاتے ۔ ایسے لمحے میں اس کے میل سے اٹے ہوئے چہرے پر تکلیف سے کچھ جھریاں اور نمایاں ہو جاتیں ۔ وہ ٹرین میں بغیر ٹکٹ کے چار گھنٹوں کے سفر کے بعد اس شہر میں آیا تھا ۔

کسی نے اسے بتایا تھا کہ وہاں کے لوگ بڑے دیالو ہیں ۔ مزدوری بھی ملتی ہے اور سر چھپانے کو جگہ بھی ۔ جب سے سیلاب میں اس کے باپ کی دو ایکڑ زمین دریا نے ہڑپ کر لی تھی وہ اپنے دو بچوں اور بیوی کے ساتھ شہر آ گیا تھا ۔ وہاں اس نے ایک میدان کے کنارے جھونپڑی بنا لی تھی ۔ اس کی بیوی گھروں میں کام کرنے لگی اور وہ گھروں اور دکانوں پر بہنگی سے پانی فروخت کرنے لگا ۔ فی بہنگی اسے پانچ روپے مل جاتے جس میں سے ایک روپیہ فی بہنگی واٹر سپلائی والے بابو کو دینا پڑتا ۔ بیوی گھروں سے بچا کھچا سالن اور روٹیاں لے آتی اور چار گھروں میں کام کر کے اسے چار ہزار مل جاتے ۔ وہ پانی فروخت کر کے کبھی سو کبھی ڈیڑھ سو کی دیہاڑی بنا لیتا ۔ پڑوس کے ایک گھر سے انہوں نے بجلی کی تار لے رکھی تھی جس سے ایک بلب اور ایک پنکھے کو بجلی ملتی رہتی ۔

اس طرح انہوں نے دو سال کی مسلسل محنت سے بیس پچیس ہزار جمع کر لیے تھے تاکہ کچی آ بادی میں پانچ مرلے کا پلاٹ خرید سکیں ۔ جو پچھلے سال بیس ہزار کا تھا مگر ان کے پاس دس گیارہ ہزار ہی تھے ۔ اب انہوں نے پچیس ہزار کے قریب جمع کر لیے تھے مگر وہی پلاٹ جو پچھلے سال بیس کا مل رہا تھا اب پینتیس چالیس ہزار تک پہنچ چکا تھا ۔ یہ پیسے انہوں نے پیلی کوٹھی والی بیگم صاحبہ کے پاس جمع کر رکھے تھے ۔ وہ بیگم صاحبہ بہت اچھی تھیں ۔ گھر کا بچا ہوا سالن فراخ دلی سے دے دیا کرتیں اور کبھی کبھی بچوں کو ٹافیوں کے لیے پانچ دس روپے بھی دے دیا کرتیں ۔ بچوں کو انہوں نے سرکاری سکول میں داخل کروا دیا تھا ۔ دونوں لڑکے تھے مگر پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے تھے ۔ استاد نے بھی کہہ دیا تھا کہ ان سے کوئی امید مت رکھنا ۔

پھر ایک دن ایک دکان پر جہاں وہ کولر بھرنے جایا کرتا تھا ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نے اپنا نام استاد بشیر بتایا ۔ استاد بشیر گٹھے قدکاٹھ اور گنجے سر والا ایک باتونی ادھیڑ عمر کا انسان تھا ۔ اس نے اسے بتایا کہ میں تمہاری حالت بدل سکتا ہوں ۔ سرد اور گرم موسم میں تمہیں پانی ڈھوتے دیکھتا ہوں تو میرا دل دکھتا ہے ۔ میں تمہارے دونوں بچے یو اے ای میں بھجوا دوں گا ۔ ایک ایجنٹ میرا واقف ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے شہزادے اور امیر لوگ اونٹوں کی ریس کے شوقین ہیں بچوں کو اونٹ ہانکنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ اس طرح بہت بخشش بھی ملتی ہے اور تنخواہ بھی ۔ اور سال میں دو ماہ کی چھٹی بھی ۔ میں ویسے تو پانچ ہزار اپنے لیے اور دس ہزار ایجنٹ کے لیے لیتا ہوں مگر تم سے اپنے لیے کچھ نہیں لوں گا تم صرف ایجنٹ کے پیسوں کا انتظام کر لو تو تمہارے دونوں بچوں کو دو ماہ کے اندر اندر وہاں بھیج دوں گا ۔

جب اس نے اپنی بیوی کو بتایا تو وہ راضی نہ ہوئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے بیگم صاحبہ سے بات کر رکھی ہے وہ بتا رہیں تھیں کہ ابھی یہ بہت چھوٹے ہیں ایک چھ سال کا اور دوسرا آٹھ سال کا ہے ۔ تم ان کی پڑھائی پر توجہ دو اگر چار جماعتیں پڑھ گے تو میں انہیں کسی سرکاری محکمے میں بھرتی کروا دوں گی ۔ اس پر دونوں کے درمیان خوب لڑائی ہوئی ۔ پھر ایک دن انہوں نے پلاٹ کے لیے جمع کیے ہوئے  پیسوں سے بیس ہزار استاد بشیر کے ہاتھ پر رکھے اور وہ ایک ماہ بعد آ کر دونوں کو لے گیا ۔ جاتے ہوئے  بڑا تو چپ چپ تھا مگر چھوٹے نے جب ماں کو جپھی لگائی تو اونچا اونچا رو رہا تھا ماں سے الگ ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ جب بچوں کو گئے  دو ماہ سے زائد ہو گئے  تو انہیں بہت فکر ہوئی ۔

اب استاد بشیر بھی کم ہی نظر آتا ۔ جب بھی ملتا تسلی دے دیتا ۔ بہت زور دینے پر اس نے ایجنٹ کا نام اسلم بتایا اور فون نمبر بھی دے دیا ۔ اس سے زیادہ بتانے پر وہ تیار ہی نہیں تھا ۔ جب بھی فون ملایا جاتا وہ بند ملتا ۔ جب دو ہفتے اور گزر گئے  تو پریشانی اور بڑھ گئی گھر میں میاں بیوی کی ہر روز لڑائی ہوتی ۔ اس کی بیوی رو رو کر اسے کوسنے دیتی ۔ پھر بیگم صاحبہ کے فون کرنے پر پولیس آئی اور دوسرے دن استاد بشیر گرفتار ہو گیا ۔معلوم ہوا وہ بچوں کو آگے فروخت کر دینے والے کسی گروہ کا کارندہ ہے ۔ مگر تین دن بعد ہی وہ رہا ہو گیا ۔ اس کے واقف کسی کونسلر نے اسے پولیس سے چھڑوا لیا تھا ۔ بیگم صاحبہ نے بہت فون کیے مگر وہاں سے جواب ملتا کہ تفتیش ہو رہی ہے جب بھی کوئی کامیابی ملی آپ کو بتا دیا جاےگا ۔ بیگم صاحبہ جھنجھلاہٹ میں اس سسٹم کو انگریزی میں گالیاں دیتیں اور بیٹھ جاتیں ۔

پھر ایک دن دونوں میاں بیوی کے درمیان بہت لڑائی ہوئی ۔ اس نے غصے میں آ کر بیوی کو بہت مارا جس پر وہ ناراض ہو کر بیگم صاحبہ کے پاس چلی گئی ۔ دوسرے دن وہ اسے منانے گیا تو بیگم صاحبہ نے اسے خوب ڈانٹا اور دھمکی دی کہ خبردار اگر آئندہ وہ وہاں نظر آیا تو اسے مار پیٹ کے الزام میں پولیس سے گرفتار کروا دیا جائے  گا ۔ جب دو دن بعد وہ پھر وہاں گیا تو بیگم صاحبہ نے اپنے نوکر سے گیٹ بند کروا کر اسے گھر کے اندر روک لیا اور تھوڑی دیر بعد جو پولیس اس کے بچوں کو تو تلاش نہ کر سکی تھی اسے پکڑنے آ پہنچی ۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے گھر میں گھس کر اپنی بیوی پر حملا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پولیس کے چھوٹے تھانیدار نے اسے بید کی چھڑی سے خوب مارا کہ حرامی شریفوں کے گھروں میں گھس کر غنڈہ گردی کرتے ہو میں تمہاری ساری بدمعاشی تمہارے پچھواڑے میں گھسیڑ دوں گا ۔ اسے حوالات میں بند کر دیا گیا اور چند دنوں بعد چالان کر کے بڑی جیل بھیج دیا گیا ۔ یہ بہت معمولی کیس تھا اور فوری طور پر قابل ضمانت بھی مگر کوئی ضمانتی ہو تب ناں ۔ چنانچہ وہ دو سال تک جیل میں سڑتا رہا ۔

پھر بڑی عید والے دن کچھ لوگ جیل میں آئے  ۔ وہ دو صاحب لوگ تھے اور دو کالے کوٹ پہنے ہوئے  نوجوان لڑکیاں تھیں ۔ انہوں نے اس سے دو تین کاغذوں پر انگوٹھے لگوائے اور ایک ہفتے بعد اسے رہا کر دیا گیا ۔ اب نہ پیٹ میں روٹی تھی اور نہ جیب میں کوئی دھیلا پائی ۔ اس آزادی سے تو وہ جیل ہی اچھی تھی جہاں جیسی تیسی دو وقت کی روٹی اور دو پیالیاں چائے  تو مل جاتی ۔ وہ سارا دن پیدل چل چل کر کھجل خوار ہوتا رہا شام کو بھوکا پیاسا ایک پل کے نیچے لیٹ رہا ۔ وہاں سوئے ہوئے  ایک دوسرے ایسے ہی ایک بے گھر نے اسے بتایا کہ قریب ہی ایک گھر ہے جہاں شام کو غریبوں میں مفت کھانا تقسیم ہوتا ہے آج تو دیر ہو گئی ہے کل میں تمہیں وہاں لے چلوں گا ۔ وہ بندہ نشئ تھا ساری رات وہ جاگ کر کھانستا رہا اور کئی مرتبہ سیگریٹ کی کلی پر کوئی سفید سی شے رکھ کر اس کے نیچے تیلی جلاتا سونگھتا کھانستا اور پھر لیٹ جاتا ۔

دوسرے دن صبح  کو وہ اسے ساتھ لے کر ایک ڈھابہ ہوٹل پر گیا وہاں سے اس نے دو نان اور دو چائے  کی پیالیاں لیں کچھ پیسے کم تھے مگر دکان دار نے دو گندی گندی گالیاں دے کر ناشتہ دے ہی دیا ۔ اس طرح اس رحم دل نشئی کی بدولت اس کے بھوک سے سکڑے ہوئے پیٹ کو روٹی نصیب ہوئی ۔ مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ایسی زندگی بسر نہیں کرے گا اور مزدوری تلاش کرے گا ۔ شام کو وہ نشئی اسے قریب ہی اس جگہ لے گیا جہاں کھانا تقسیم ہو رہا تھا ۔ وہاں برآمدے میں بچھے ہوئے  ایک پھوہڑ پر بٹھا کر اس کے آگے دال کی ایک رکابی اور دو روٹیاں رکھ دی گئیں ۔ وہ رات اس نے پھر پل کے نیچے بچھی گودڑیوں پر بسر کی اور دوسری صبح وہ اٹھ کر اس ڈھابہ ہوٹل چلا گیا ۔ چنانچہ دن بھر برتن مانجھنے کے عوض کھانے پر اسے رکھ لیا گیا ۔

دو ماہ تک وہ وہاں برتن مانجھتا رہا ۔ اور رات کو وہیں سو جاتا ۔ پھر ایک دن چائے  دینے سڑک پار جا رہا تھا کہ ایک تیز رفتار موٹر سائیکل نے اسے ٹکر ماری جسے ایک بارہ تیرہ سال کا چھوکرہ چلا رہا تھا ۔ وہ سڑک پر گرتے ہی بے ہوش ہو گیا ۔ پھر ہوش اسے سرکاری ہسپتال جا کر آیا ۔ دیکھا تو سر اور بازو پر پٹیاں بندھی ہوئیں تھیں ۔ ڈھابے والے مالک نے اسے ہسپتال پہنچایا تھا ۔ سر کی چوٹ تو ٹھیک ہو گئی  مگر بازو کی ٹوٹی ہڈی ٹھیک سے نہ جڑسکی ۔ بڑے ڈاکٹر نے بتایا کہ آپریشن سے بھی مکمل ٹھیک ہونے کی امید کم ہے ۔ اب بازو تو سلامت تھا مگر رگوں کے ہڈی کے اندر آ کر کچلے جانے سے بائیاں بازو تقریباً مفلوج ہو چکا تھا ۔ وہ اسے ہلا جلا تو لیتا مگر پوری طرح سے گرفت نہ کر پاتا ۔ اس طرح وہ ہسپتال سے باہر نکلا ۔ اب مزدوری کیسے ملتی جہاں ہٹے کٹے نوجوانوں کو کام نہ ملتا وہاں اس نیم معزور کو کام کون دیتا ۔ لیکن پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری ۔

جلد ہی ایک ٹھیکے دار سے اس کی ملاقات ہو گئی اس نے اسے ایک زیر تعمیر عمارت پر چوکیدار رکھ لیا ۔ مگر وہ اسے ایک مزدور کی دیہاڑی کی چوتھائی سے بھی کم دیتا۔ ہر ہفتے اس کی ہتھیلی پر اتنے پیسے رکھ دیتا جو مشکل سے اس کے کھانے کے خرچ کے لیے کافی ہوتے ۔ وہ ایک ڈھابہ ہوٹل سے کھانا کھاتا ۔ وہ ہمیشہ دو روٹیاں اور سفید چنوں کی پلیٹ لیا کرتا کہ یہی سب سے سستا کھانا تھا اتوار والے دن کا وہ انتظار کرتا جس دن ہوٹل میں گاے کے پائے  پکتے یہ کچھ مہنگے تھے مگر ہوٹل والا مستقل گاہک سمجھ کر اس سے چنوں کی  پلیٹ کے ہی پیسے چارج کرتا ۔ کبھی کبھی وہ اوجھڑی بھی بنایا کرتا یہ دن بھی اس کے لیے عید سے کم نہ ہوتا کہ پلیٹ بھر کر اوجھڑی کے چھچھڑے کھانے کو ملتے ہر نوالے میں ایک بوٹی ہوتی اور پیسے بھی زیادہ نہ دینے پڑتے ۔ سگریٹ وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا ۔ کبھی کبھی سڑک پر کوئی ایسا ٹوٹا مل جاتا جو آدھے سے قدرے کم ہوتا مگر آرام سے پانچ دس سوٹے لگ جاتے ۔ جب کوئی ٹکڑا نہ ملتا تو وہ صبر کر لیتا ۔ البتہ ٹھیکیدار کبھی کبھی موج میں ہوتا تو پورا سیگریٹ دے دیتا یہ لمحہ بھی اس کی زندگی میں خوشی بھر دیتا ۔

عید پر ٹھیکیدار نے گھر سے بریانی لا کر کھلائی تھی ۔ جب سے اس نے گھر چھوڑا تھا تب سے بریانی کی شکل اسے دیکھنا نصیب نہیں ہوئی تھی وہاں بیگم صاحبہ کے گھر سے تقریباً مہینے میں دو بار تو بچی کھچی بریانی مل ہی جاتی مگر بو ٹیاں اس میں کم ہی ہوتیں ۔ جس دن وہ بلڈنگ مکمل ہوئی تھی بڑے صاحب بیگم صاحبہ اور بچے اسے دیکھنے آئے  تھے ۔ صاحب بہت مہربان ثابت ہوئے کہ اس کے پاس آئے  اور سو روپیہ اس کی ہتھیلی پر رکھ کر پوچھنے لگے بتاؤ چوکیدار تمہیں اور کیا چاہیے ۔ وہ بار بار جھک کر اپنے پھٹے ہوئے  جوتوں کو دیکھے جاتا مگر بول نہ پایا کہ مجھے جوتے چاہییں ۔ مگر بیگم صاحبہ سمجھ دار تھیں وہ سمجھ گئیں اور بولیں میرا خیال ہے یہ جوتے مانگنا چاہتا ہے ۔ صاحب یہ سن کر بولے آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ جوتے کس قدر مہنگے ہو چکے ہیں ۔ صاحب آپ کے پاس تو کافی جوتے ہیں جو آپ نے کبھی پہنے ہی نہیں بیگم صاحبہ سے یہ سن کر صاحب نے ایک لمبی سی ہوں کی آواز گلے سے نکالی اور پھر وہ لوگ وہاں سے چل دیے ۔ شام کو ان کا ملازم سائیکل پر آیا اور ایک نیلے رنگ کا شاپر اسے دے کر چلا گیا ۔ یہ بیگم صاحبہ نے دیے ہیں ۔ شاپر کھولا تو ایک چکوالی کھیڑی نظر پڑی ۔ یہ دیکھ کر اس کے دل سے صاحب کے لیے بے اختیار دعا نکلی ۔ وہ کھیڑی اس نے پورا سال اڈھائی اور ایک دن ایک دربار سے وہ چوری ہو گئی  جس کا اسے بہت دکھ ہوا ۔ بلڈنگ مکمل ہونے پر اس کا کام بھی ختم ہو گیا اور وہ پھر سے بے روزگار ہو گیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر کافی دھکے کھانے کے بعد اسے ایک ریتی بجری والے کے پاس کام ملا ۔ یہ پٹھان تھا غصے والا تھا مگر پیسے اس ٹھیکیدار سے کچھ زیادہ دے دیتا ۔ ایک سال بعد وہ واپس افغانستان چلا گیا اور یہ پھر سے بے روزگار ۔ اب کسی کے بتانے پر وہ اس بڑے شہر میں آیا تھا ۔ شکر دوپہر کو وہ اس سڑک پر چلے جا رہا تھا ۔ گرمی میں اس نے قمیض اتار کر بالٹی میں ٹھونس رکھی تھی اور ڈنگور ی سے بالٹی لٹکا کر اسے کندھے پر رکھے دھوتی اور ٹوٹے ہوئے  سلیپر پہنے اس شہر میں داخل ہوا تھا ۔ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ دھوتی کے ڈب میں چالیس روپے باندھ رکھے تھے اور سوچ رہا تھا مزدوری کی تلاش کرتے کرتے یہ ختم ہو گئے  تو کھانا کہاں سے کھائے  گا ۔ یہ سوچ کر وہ ایک لمحے کو رک گیا سوا نیزے پر آئے  ہوئے  سورج نے زمین کو تتا توا بنا رکھا تھا پھر بھی اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور پیاس سے سوکھے ہوئے  گلے سے پھٹی ہوئی آواز سے بولا مالکا توں ای مالک ایں ویکھیں خیال کریں پھر دعا ادھوری چھوڑ کر سڑک کنارے ایک درخت کی چھاؤں کی طرف بڑھ گیا!!!

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply