• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ۲۳ مارچ، بھگت سنگھ، یوم جمہوریہ، یوم پاکستان یا بھوکا ننگا پاکستان۔۔منصور ندیم

۲۳ مارچ، بھگت سنگھ، یوم جمہوریہ، یوم پاکستان یا بھوکا ننگا پاکستان۔۔منصور ندیم

کل ۲۳ مارچ کے دن ٹی وی کھولا تو لوگ  عجیب و غریب طرز پر یہ دن مناتے دکھا ئی  دیے، ایک پروگرام میں ایک اینکر مختلف بازاروں میں گھومتے  لوگوں سے یہ سوال کرتے پایا گیا کہ ہم ۲۳ مارچ کا دن کیوں مناتے ہیں  ، اور لوگوں کے جواب سن کر   احساس ہوا کہ ہم نے واقعی تاریخ کے ساتھ خوب مذاق کیا اور مسلسل کر رہے ہیں۔لوگوں کے جوابات یہ تھے۔

۱- ۲۳ مارچ کو پاکستان بنا تھا،

۲۔ ۲۳ مارچ کو ہم نے انڈیا سے جنگ جیتی تھی،

۳ ۔ ۲۳ مارچ آزادی کا دن تھا۔ باقی نہیں پتہ

۴۔ قرار داد منظور ہوئی تھی کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں۔

۵ ۔ کوئی اچھا ہی کام ہوا تھا، تب ہی ہم ٹینکوں سے سلامی دیتے ہیں

ایک اور  بوڑھے محنت کش سے جب اینکر نے اچانک سوال کیا کہ ۲۳ مارچ کو کیا ہوا تھا، تو وہ غریب آدمی ایک دم سے گھبرا کر بولا بھائی ۲۳ مارچ کو میں گاؤں  میں تھا، مجھے کچھ نہیں پتہ۔میں تو شہر اپنے بچو  ں کی روزی کمانے آتا ہوں۔

lahore resolution

تاریخ میں قرارداد لاہور سے متعلق کئی غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں اور کئی  مصنفین ان مغالطوں کو آج تک درست کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان مغالطوں میں سر فہرست قرارداد کا نام ہے۔ اس قرارداد کا نام قرارداد لاہور ہے مگر قرارداد منظور ہونے کے بعد اس کو قرارداد پاکستان کہا گیا۔ اور آج اس قرارداد کا اپنا  اصل نام تاریخ کی کتابوں سے ناپید ہو چکا ہے۔ اس قرارداد کے متن میں کہیں بھی پاکستان کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ 

یہ  قراداد ۲۳  مارچ کو پیش ہوئی ا ور اگلے روز یعنی ۲۴  مارچ ۱۹۴۰  کو منظور ہوئی۔ لیکن پاکستان کی ساری درسی (اور کچھ سرکاری مؤرخوں کی تحریروں ) میں اس قرارداد کی منظوری کی تاریخ  ۲۳ مارچ درج ہے  جو کہ سراسر غلط ہے۔ قرارداد لاہور بھی ۲۴ مارچ کو منظور ہوئی اور اسی تاریخ کی اہمیت ہونی چاہئے۔ہاں اگر یہ دن اس لئے ۲۳ مارچ کو منایا جاتا ہے کہ آج یہ قرار داد پیش ہوئی تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر یہ قرارداد ۲۳ مارچ کو  منظور ہوتی تو یہ دن منانا صحیح تھا۔

قرار داد لاہور کی تاریخ:

۲۲ ماارچ ۱۹۴۰ کو مسلم لیگ کا  ستائیسواں سالانہ  اجلاس لاہور منٹو پارک میں منعقد ہوا، جو ۲۲ ، ۲۳ اور ۲۴ تاریخ تک چلا، اجلاس  ۲۲ تاریخ سہ پہر  کو شروع ہوا، قائد اعظم نے ابتدائی تقریر کی، پھر ایک کمیٹی لیاقت علی خان کی سربراہی میں بنی، جس نے قرار داد کے مسودے پر غور کرنا شروع کیا، ۲۳ مارچ کو پورے ہندوستان کے سرکردہ مسلم لیگی رہنماوں نے خطاب کیا، اور ۲۴ مارچ کو اس قرارداد سے پہلے فلسطینیوں پر یہودیوں اور برطانوی نوآبادیاتی تسلط کی مذمت میں ایک قرارداد منظور ہوئی، پھر خاکسار تحریک پر ۱۹ مارچ پر فائرنگ کی  مذمت پر قرار داد منظور ہوئی اور اس کے بعد قرار داد لاہور (جسے آج کل قرار داد پاکستان ) کہا جاتا ہے منظور ہوئی۔

پاکستان کے بننے میں یقیناً  مارچ ۱۹۴۰ کا یہ تین روزہ اجلاس بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس ۷۲ گھنٹوں کے اجلاس میں دہائیوں پر محیط حقوق کی جنگ کو ایک قرار داد میں سمویا گیا، یہی قرارداد پاکستان کی آزادی کا منشور بھی بنی، اور اگلے ۷ سالوں میں برطانیہ ااور کانگریس کے خلاف سیاسی اور آئینی جیت کا ذریعہ بھی بنی۔اس قرارداد سے پہلے بھی آزاد ریاست کا تصور آچکا تھا۔ جسے آپ دو قومی نظریہ کہہ سکتے ہیں۔ آج کے موجود قومیت کے تصورات یعنی لسان یا ثقافت کے بجائے ہندوستان میں قومیت کا تصور مذہب کی بنیاد پر لیا گیا تھا، اس کی وجہ وہاں پر ماضی میں خلافت تحریک رہی، علاوہ ازیں مغرب میں بھی قومیت کے  تصورات اس وقت تک آج کے موجود تصورات کی طرح واضح نہیں ہوئے تھے، اس لئے پاکستان اور انڈیا   کی آزادی کا تصور جن دو اکثریتی قومیت کی  بنیاد پر کیا گیا وہ تھے  ،  ہندو اور مسلمان۔انگریزوں سے آزادی جو  بغیر مذہبی یا قومی  تقسیم کی بنیاد پر ہو وہ  مسلم لیگ کو قبول نہ تھی۔ اس کا اظہار قائداعظم کی ۲۲ مارچ ۱۹۴۰ کی تقریر کے یہ الفاظ تھے۔” ہم سب کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ انڈیا کو دوآزاد ریاستوں  میں  تقسیم کرکے بڑی قوموں کو الگ وطن بنایا جائے۔” یعنی مسلمانوں اور ہندوؤں کی ، جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو وہاں مسلم ریاستیں  بنائی جائیں۔ریاستوں کی تشریحات میں اس نقطے کو بھی یاد رکھنا چاہیے   قرار داد کے وقت صرف یہ خیال پیش کیا گیا تھا اس وقت تک صرف یہی خیال تھا کہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے ایک الگ ریاست کی بات کی جارہی ہے۔لیکن پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم کی ایک اور تقریر کے مطابق یہاں اقلیتوں کو بھی تمام شہری حقوق یکساں میسر ہوں گے،  یہ قرارداد خالصتاً  سیاسی محنت کا ثمر تھی۔اور اگلے سات برسوں  میں قرار داد کی   یہی اساس پاکستان کے حقیقی وجود  کی بنیاد بنی۔

یوم جمہوریہ  کی تاریخ :

۱۴ اگست ۱۹۴۷ کی آزادی کے بعد پاکستان میں برطانوی آئین  ہی نافذ رہا، حتی کہ پہلے ایک سال تک تو برطانوی کرنسی  ہی پاکستان میں چلتی رہی تھی۔ اصل میں یہ  ۲۳ مارچ کی تقریبات یومِ جمہوریہ کے سلسلے میں ہیں جو ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ کو آئین کے نفاذ کی خوشی میں تھیں  جو  اگلے دو سالوں تک منائی گئیں، مگر ایوب خان کی فوجی حکومت نے آئین کو ختم کردیا تھا اور پھر یہ سوچا گیا کہ  ۲۳ مارچ کو کیا کیا جائے کیونکہ اس دن عام تعطیل ہوتی تھی ۔تب ہمارے نالائق آمر حکمرانوں نے  ۲۳ مارچ کی تقریبات کا تعلق بھی آئین کے نفاذ سے ہٹا کر قرارداد لاہور سے جوڑ دیا۔اور اسے قرار داد پاکستان کے نام سے منسوب کر دیا گیا،  اور ایوب خان کی  اس تاریخی  دھوکہ دہی کو آج تک درست نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد یہ رواج ڈالا گیا اور تعلیمی نصاب میں بھی  اسے  یوم جمہوریہ سے بدل کر قرار داد لاہور سے منسوب کردیا گیا۔

۲۳ مارچ بھگت سنگھ شہید کا دن:

لیکن ۲۳ مارچ کو اس بنیاد پر بھی اہمیت حاصل ہے کہ تحریک آزادی  کے ایک عظیم ہیرو شہید بھگت سنگھ کو پاکستان کے قیام سے ۹ برس پہلے لاہور جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ ہم بھگت سنگھ کو پاکستانی کی تحریک آزادی کا ہیرو کہہ سکتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ہمیں بھگت سنگھ کی تاریخ نہیں بتائی جاتی۔  بھگت سنگھ کو ایک انگریز پولیس افسر کے قتل میں پھانسی دی گئی تھی ، دلچسپ بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کے ڈیتھ وارنٹ پر تمام مقامی ہندوستانی مجسٹریٹ نے سائن  کرنے سے انکار کردیا تھا، لیکن قصور کے ایک آنریری مجسٹریٹ نواب احمد خان قصوری  نے سائن کیے  تھے ، یہ نواب احمد خان قصوری آج کے مشہور سیاستدان اور وکیل احمد رضا قصوری کے والد تھے۔بھگت سنگھ پر مقدمہ  چلا تھا وہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کے خلاف تھا۔اکتوبر  ۲۰۱۱ میں پرانی سینٹرل جیل کے چوک کو بھگت سنگھ کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تب تحریک حرمت رسول اور انجمن تاجران شاد ماں نامی تنظیموں  نے اس کی مخالفت کی کہ ایک غیر مسلم کے نام پر پاکستان میں کسی چوک کا نام رکھا جائے۔ اور یہ مقدمہ آج بھی زیر التوا ہے ، ہماری درسی کتابوں میں بھگت سنگھ کا نام نہیں ملتا جو یقیناً  تاریخ کے ساتھ ایک گھٹیا ترین مذاق ہے۔

آج کا ۲۳ مارچ یا یوم پاکستان:

اگر ۲۳ مارچ کے دن کو یوم پاکستان کہہ کر بھی منایا جائے، تب بھی ایسا لگتا ہے کہ  ستر سال گزرنے کے  باوجود یہ ملک اسی نوآبادیاتی ذہنیت رکھنے والے وڈیروں، جاگیرداروں، صنعتکاروں ، چوہدریوں ، خانوں ، سرداروں اور نوابوں کے شکنجے سے آ زاد نہیں ہوسکا۔ جو طبقہ انگریزوں کے دور میں اعلی مراعات اور مفادات لیتا تھا آج ستر سال بعد بھی وہی طبقہ وہی مراعات اور مفادات لیتاہے۔ عوام آزادی سے پہلے بھی غلام تھے اور آج بھی غلام ہیں۔

آج تک کسی بھی حکومت نے مسائل کا سنجیدگی سے ادراک نہیں کیا جو بھی آیا اس نے  نام نہاد مفاہمتی پالیسیوں کے ذریعے ملک کا سیاسی ، سماجی جغرافیائی و ثقافتی اعتبار سے ستیاناس کیا ۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کو برباد و دو لخت کرنے کے ذمہ دار ٹھیکہ داروں نے ہمیشہ عقل و دانش کی بات کرنے والوں کو غیر محب وطن قرار دے کر غداری کے فتوؤں  سے چھلنی کیا ۔ آج غداری اور  فتویٰ فروشوں کےاس بھیانک کاروبار  کے باوجود چند پاکستان کے حقیقی محب وطن افراد کی طرف سے سوالات اُبھر کر سامنے آ تے ہیں جن کے جوابات پوری دنیا کے غیر جانبدار مبصرین کے ساتھ ساتھ ہر محب وطن پاکستانی کی ضرورت بھی ہیں

اس ملک میں ستر سالوں سے آمروں  فوجی جرنیلوں اور سیاستدانوں نے ریاست کی استحصالیت، قبضہ گیریت اور نوآبادیاتی نظام والی سوچ  کو جاری رکھا ہواہے۔ یہاں محکمانہ پالیسی کارفرماہے۔یہاں فلاحی ریاست کی سوچ بغاوت ہے۔ یہاں ادارے خود کو عوام کی خدمت گار نہیں بلکہ حاکم سمجھتے ہیں۔ یہاں کی افسر شاہی سمجھتی ہے کہ ملک کے بنیادیں ان پر کھڑی ہے عوام پر نہیں۔ یہاں کے جنرلوں سے اختلاف سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ یہاں کے سیاستدان مال بنانے کےلئے پارلیمینٹ میں پارلیمینٹرینز کی منڈی لگاتے ہیں۔ یہاں مولوی مذہب بیچتے ہیں۔ یہاں کی عدالتیں امیروں کے شکنجے میں ہیں۔ یہاں کی پولیس VIPs کی  ذاتی محافظ بنی  ہے۔ یہاں کی فوج کرائے پر ملتی ہے۔ الغرض یہاں ہر وہ ریاستی استحصالی پالیسی موجود ہے جس کی مثالیں مطلق العنان حکمرانوں کی کہانیوں میں ملتی ہے۔ یہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کےلئے اپنے گردے تک بیچتے ہیں۔ یہاں مریض سٹریچر پر جان دے دیتے ہیں لیکن ہسپتالوں میں دیکھ بھال کرنے والے افسر شاہی کے سوچ میں غرق حکمران بنے بیٹھے ہیں۔یہاں  کی یونیورسٹیوں اور کالجز منشیات کے اڈے ہیں، لیکن تعلیم نہیں ملتی ، یہاں کے مدرسوں میں نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہاں بازاروں میں ملاوٹ اور گرانفروشی ہے۔یہاں قومیتیں اور لسانی نفرتیں ہیں۔ یہاں فرقہ ورانہ فساد ہے۔ یہاں انسان کم اور مسلمان زیادہ ہیں۔ یہاں مسلمان کم اور مومنین زیادہ ہیں۔ یہاں ہر دوسرا شخص دوزخی بھی اور جنتی بھی ہے۔ یہاں کفر بھی بیچاجاتاہے اور اسلام بھی بکتاہے۔ یہاں قرآن  مجید سے زیادہ منافرت کے کتابچے پڑھائے جاتے ہیں۔ یہاں سائنسدانوں سے زیادہ سیاستدان بن جاتے ہیں۔یہاں روڈ  پر بھوکے ننگے بچے ، مزدوریاں کرتے ہیں۔

اور خصوصاً  چند سالوں سے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ عسکری دن یا یوم دفاع منایا جاتا ہے ، پاکستان کا واحد مقصد اسلحے کی دوڑ اور نمائش، ٹینکوں کی سلامی، فوجی پریڈ ، میزائیلوں کی تعداد ، جنگی جہازوں کے کرتب رہ گئے ہیں۔   ایسا تو بالکل نہیں لگتا کہ یہ ملک  عوام کے حقوق کے لئے سیاسی عمل کی بنیاد پر بنا تھا، اس دن کا مقصد تو  پوری دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ہونا چاہیے  تھا، کہ ہمارے مسائل کیا ہیں، ہماری ثقافت ہماری ترقی اور  عوامی خدمت تو کہیں گم ہوگئی۔ ایسے ہی جیسے پاکستان کا اصل مقصد کہیں گم ہوگیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply