اسلام میں دولت کی تقسیم کا تصور۔۔مسعود منور

میں نہ مُلّا ، نہ قاری ، نہ مُفتی ، نہ فقیہہ اور نہ ہی ماہرِ اقتصادیات ۔ مجھے اسلام میں دولت کی تقسیم کے بنیادی تصور کا کیا اندازہ ۔ اور پھر صوفیا یہ بھی کہتے ہیں کہ اندازے ، قیاس اور گمان سے کہی ہوئی بات شاذ ہی درست ہوتی ہے ۔ کیونکہ گفتگو بھی ایک ریاضی ہے جس میں ناپ تول کے پیمانے میں ناپے اور تولے بغیر کی ہوئی بات ، بات نہیں ہوتی ، محض ایک زبانی جھک ہوتی ہے جو لوگ بے سوچے سمجھے مارتے ہیں اور مکالمے ضائع کر دیتے ہیں ۔

اس لیے جنابِ امیر المومنین علیؓ نے اپنے بیٹے حسنؓ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا : ” اے فرزند یاد رکھ جو زیادہ بولتا ہے زیادہ غلطیاں کرتا ہے ” اور نہجہ البلاغہ میں یہ گواہی رقم ہے ۔ لیکن نواز شریف کی جمہوریت میں چونکہ فضول بولنے ، گالیاں بکنے اور لوگوں کے کانوں میں جھوٹ کا پگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلنے کی آ زادی ہے اس لیے میں بھی بہتی راوی میں ہاتھ دھونے کو روا سمجھتا ہوں ۔ لیکن بات صرف اتنی سی نہیں بلکہ کچھ اس سے سوا ہے  کیونکہ میں مذہبی اداروں کا باقاعدہ زائر اور آسمانی صحیفوں کا محرم ہوں ۔ اور کتاب و شنید سے مجھے جو کچھ ملتا ہے وہ میں اپنے ذہن کی چِپ میں محفوظ کرلیتا ہوں ۔  مجھے اِدارہ ء رسالتؐ سے جاری ہونے والا ایک بیان یاد ہے کہ تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص جواب دہ ۔ ذمہ داری اور جواب دہی دونوں اپنی جگہ وسیع المعانی تصورات  ہیں لیکن جس کا جتنا ظرف ہو وہ اُس کے مطابق سوچتا اور ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے ۔ بزرگ کہ گئے ہیں:
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست

چنانچہ میری سوچ میری  ہمّت اور بساط کے مطابق ہے ۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ چند ماہ پہلے مجھے حضرت علی ؑکا ایک قول پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی جسے میں نے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیے فیس بُک پر چسپاں کردیا ۔ قول یہ تھا :
” جہاں وافر دولت دیکھو ، جان لو کہ کسی کا حق غصب ہوا ہے” ۔ بحوالہ نہجہ البلاغہ
اس پر میرے ایک فیس بُکی دوست نے ، جو اوسلو میں مقیم ہیں ، اس بیان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ غلط ہے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ تو عرض کیا کہ یہ چوتھے راشد خلیفہ علی علیہ السلام کا قول ہے  تو موصوف نے فرمایا کہ وہ تو مجھے صوفی روایت سے منسلک سمجھتے تھے  مگر اُن کے مطابق میں تو کمیونسٹ ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ صاحب! قرآن کی سورہ الہمزہ میں اس بیان کی تصدیق موجود ہے کہ ہر طعنہ زن اور چُغل خور کے لیے خرابی ہے جو مال جمع کرتا اور گن گن کر رکھتا ہے ۔ یہ کارل مارکس کی “داس کیپیٹال” کا حوالہ نہیں رب الارباب کی اُس کتاب کا حوالہ ہے جو سب کتابوں کی ماں ہے ۔ اُم الکتاب ہے ۔ تو وہ بولے کہ عبد الرحمان بن عوفؓ اتنے مالدار تھے کہ اُن کے کاروان کا مال سے لدا پہلا اونٹ مدینے میں ہوتا تھا اور آخری ملک شام میں ۔ میں نے عرض کیا کہ میرا اسلام عبد الرحمان بن عوفؓ کے اونٹوں کا نہیں ” الفقر فخری” کا کلچر تخلیق کرنے والے پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے ۔ یہ اُس قرآن کا دین ہے جس میں لکھا ہے کہ ایک اللہ ہی غنی ہے اور تم سب اُس کے دروازے کے فقیر ہو ۔” انتم الفقراء “۔ اس پر میرے  وہ فیس بُکی دوست مجھ سے جُدا ہوگئے :
اچھا ہوا کہ آپ بھی ہم سے جُدا ہوئے
ورنہ اُمید و یاس کا قصّہ دراز تھا

اللہ اُنہیں اپنے علم میں سے حصّہ عطا کرے اور وہ مجھے معاف کردیں کہ میں نے مال کے لدے اونٹوں کے بیان پر ٹوٹے ہوئے حجرے ، شکستہ بوریے اور فقر کو ترجیح دی ۔ لیکن وہ لوٹ کر نہیں آئے ۔ میری قسمت ۔
تو آمدن بر سرِ مطلب ۔ ہمیں پچھلے ستر سال سے یہ بتایا جاتا رہا ہے اور ہمارے بچوں کو سکولوں میں بتایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ  ۔ اس پر مجھے یارِ خوش مقال حبیب جالب یاد آگئے ۔ فرمایا:
روٹی ، کپڑا اور دوا
گھر رہنے کو چھوٹا سا
مفت مجھے تعلیم دلا
میں بھی مسلماں ہوں واللہ
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الاللہ

اور اس ملک میں نام اسلام کا چل رہا ہے اور کام دولت مند کی دھونس اور دھاندلی کا ۔ حکمران ، سیاستدان ، افسر شاہی ، مُلا شاہی کی ایلیٹ اور اُن کے کاسہ لیس ، خوشامدی اور زرخرید لوگ افراطِ زر میں مبتلا ہیں ۔ اور یہ حال ہے کہ ڈالر ، ریا ل ، یورو اور روپے کھا کھا کر  موٹاپے کے مریض بن گئے ہیں اور علاج کے لیے لندن کے شاہی ہسپتالوں میں سے سیاست کر رہے ہیں ۔ حکمران سرکاری خزانے کو ابا جی کی جیب سمجھتے ہیں اور اندھوں کی طرح مال و دولت کی ریوڑیاں اپنوں میں بانٹ رہے ہیں ۔ اس ملک میں ، جہاں عاشقانِ رسولؐ کروڑوں میں ہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رستے پر چلنے والے لوگ یا تو  ہیں ہی نہیں یا انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یہ سب حلوہ کھانے والے عشا ق ہیں ۔ کیا نبیؐ کی محبت کا زبانی اقرار ہی دین ہے یا اس کے لیے اعمال کی گواہی ضروری ہے۔

حضرت فضل شاہ فرمایا کرتے تھے کہ عمل قول کا گواہ ہوتا ہے اور گواہ کے بغیر دعویٰ خارج ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ میرے اُستادِ ذی وقار ؒ نے فرمایا کہ : “کوئی بات سچی ہوتی ہے نہ جھوٹی ، بلکہ وہ عمل کی گواہی سے سچی یا جھوٹی قرار پاتی ہے لیکن جس ملک میں فقرِ محمدی کی جگہ لوگ  حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ کے اونٹوں کے دین پر ہوں وہاں کرپشن نہیں ہوگی  تو اورکیا ہوگا ۔ پیغمبرِ اسلام نے فرمایا کہ اپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے لیکن کیا صبح و مسا جوتیوں میں دال بانٹنے اورملاحیاں بکنے والے سیاسی مسخروں کو کچھ پاس ہے اپنے نبی ؐ کے فرمان کا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نبی ؐ نے فرمایا کہ جس نے خود کھا لیا لیکن اس کا ہمسایہ بھوکا رہا وہ مومن نہیں ہے ۔ جو اپنے لیے پسند کرتے وہ اپنے بھائی کیے بھی کرو۔ بھائی کون ؟ نواز ، شہباز ۔ ارے  نہیں قرآن نے کہا ہے کہ “کل مومن اخوۃ ” سب مومن بھائی بھائی ہیں لیکن جہاں لوگ مال سے لدے اونٹوں کے دین پر ہوں ، وہاں اسلام کا کیا کام ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply