کنورژن کا جن قابو کرنے کا طریقہ۔۔ابصار فاطمہ جعفری

آپ کو یاد ہوگا ہم بات کر رہے تھے کنورژن ڈس اورڈر کی جس کا مختصر تعارف پچھلے آرٹیکل میں پیش کیا گیا تھا۔ آج ہم اسی پہ تفصیل میں بات کریں گے۔

پہلی قسط کا لنک : ہسٹیریا یا آسیب” غلط فہمیاں اور حقیقت۔۔ابصار فاطمہ جعفری/حصہ اول

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارا مسائل سے نپٹنے کا عمومی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہم مسئلے کا حل تلاش کرتے ہیں یا پھر جھنجھلا کر دوسروں پہ غصہ نکالتے ہیں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ مگر کچھ مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں آپ نہ تو مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں نا اس کا غصہ کسی پہ نکال سکتے ہیں۔ مثال لیجیئے کہ کسی کا کوئی بہت قریبی عزیز کسی خوفناک حادثے میں چل بسا۔ یا ایک فوجی جو محاذ جنگ پہ ہے یا ایک بہو جس کے سسرال والے ظالم بھی ہیں اور میکے میں کوئی سپورٹ کرنے والا بھی نہیں۔ دیکھیئے انتقال کی صورت میں نا آپ مرنے والے کو واپس لا سکتے ہیں نہ کسی سے جھگڑا کر سکتے ہیں کہ میرا عزیز کیوں مرا۔ اسی طرح محاذ جنگ پہ موجود فوجی کو پتا ہے کہ اسے لڑنا ہے مگر جنگ ختم کرنا اس کے ہاتھ میں نہیں۔ اس کے سامنے اس کے ساتھی مر رہے ہیں اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے ایسے لوگوں کو مار رہا ہے جس سے اس کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں ان میں کبھی کبھی عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کی حب الوطنی یا احساس ذمہداری اور انسانیت کے درمیان ایک ایسی چپقلش شروع ہوجاتی ہے جو اسے انتہائی شدید ذہنی دباو کا شکار کردیتی ہے۔ اسی لیئے جنگی محاذ سے لوٹنے والے فوجیوں کو جس ذہنی دباو کا سامنا ہوتا ہے وہ کسی بھی دوسرا حادثہ سہنے والوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد تیسری مثال پہ آئیں تو ایک مجبور بہو جو ہر لحاظ سے سسرال میں کمزور حیثیت کی حامل ہے وہ نا ماحول سے چھٹکارا پا سکتی ہے نا کسی سے لڑ کر یا کسی پہ چیخ چلا کر اپنا غصہ نکال سکتی ہے
اوپر بیان کی گئی وجوہات کنورژن ڈس اورڈر کی بنیادی وجوہات ہیں یعنی ایک شخص جو اپنے مسائل میں خود کو شدید پھنسا ہوا محسوس کرتا ہو اور شعوری طور پہ کوئی حل نکالنے سے قاصر ہوتو اس کا ذہن لاشعوری طور پہ ایسے حل نکالنے کی کوشش شروع کردیتا ہے جس کی مدد سے وہ ایسی صورت حال سے نکل سکے مثلا کسی پیارے کی تکلیف دہ موت آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بولنے دیکھنے یا چلنے سے معذور ہوجانا۔ ایسی صورت حال میں گھر کا ماحول اس نئے مسئلے سے یک لخت بدل جاتا ہے اور سب کی توجہ اس نئے مسئلے کی طرف ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر ایسا تب ہوتا ہے جب وہ شخص کسی نا کسی حوالے سے اس حادثے کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہے اور لاشعوری طور پہ خود کو سزا دیتاہے۔
اگر ہم محاذ جنگ کی مثال پہ آئیں تو جنگ عظیم اول اور دوئم میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے جس میں فوجی نظر کمزور ہونے، ہاتھ پیر مفلوج ہوجانے یا کسی مخصوص وقت اندھے پن کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ مکمل معائنے کے باوجود بھی کوئی جسمانی بیماری سامنے نا آتی۔ یہ کنورژن کے بارے میں پیش رفت کا اہم موقع تھا جہاں عمومی نظریئے کے برعکس سارے مرد ہی تھے جو ذہنی دباو کی وجہ سے جسمانی مسائل کا شکار ہورہے تھے۔ ان کا شعور انہیں محاذ جنگ پہ رہنے پہ مجبور کرتا اور لاشعور اس تکلیف دہ ماحول سے نکالنا چاہتا تھا۔ لاشعور کے لیئے جسمانی طور پہ مفلوج ہونا مسئلے کا ایک باعزت حل تھا۔ آج بھی شدید جنگی علاقوں میں موجود فوجی ان مسائل کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں تیسری مثال کی طرف یعنی گھریلو مسائل کا شکار افراد خاص کر خواتین جنہیں اپنی زندگی کے فیصلوں پہ کوئی اختیار نہ ہو، نہ ہی ان کو اتنا تجربہ حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہو کہ وہ اپنے مسائل کا موزوں حل نکال سکیں ان خواتین کے پاس اپنے مسائل سے توجہ ہٹانے کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوچیں ہی نا اس کا حل وہ بچوں کو ڈانٹ کے، گھر کی بقیہ خواتین سے چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑ جھگڑکے نکالتی ہیں۔
اوپر بیان کیئے گیئے حل یا ان کے علاوہ ساس بہو کے مشہور زمانہ ہندوستانی ڈرامے دیکھنا اور ان سے اپنی زندگی کو ریلیٹ کرنا، اپنی آرائش میں وقت صرف کرنا یا شاپنگ میں پیسا ضائع کرنا ذہنی دباو سے نکلنے کے کچھ حد تک شعوری حل ہیں ۔ مگر جب یہ ذہنی دباو شعوری برداشت سے سوا ہوجاتا ہے تو دماغ لاشعوری حل نکالتا ہے۔ مسلسل سر میں درد، گردوں میں درد، کسی خطرناک بیماری یعنی کینسر یا دل کی بیماری کی علامات کا ظاہر ہونا یہ سب لاشعوری حل ہیں۔
مگر ہمارے معاشرے کی سب سے اہم علامت کی طرف تو اب تک ہم آئے ہی نہیں اور وہ ہے آسیب زدگی کی علامات۔ بار بار بے ہوش ہوجانا، نامانوس آواز میں باتیں کرنا، غیبی مخلوق کا نظرآنا یہ پاکستان میں کنورژن کی سب سے عام قسم ہے۔ کنورژن کو پہچاننے کے لیئے چند اہم باتیں یاد رکھیں پہلی بات کنورژن کا دورہ مرگی کے دورے سے کافی مشابہت رکھتا ہے یعنی ایک دم سے ہاتھ پاوں مڑ جانا منہ سے جھاگ آنا گر جانا وغیرہ مگر کنورژن اور مرگی میں واضح فرق یہ ہوتا ہے کہ مرگی کے دورے میں مریض کو عموما اچانک گرنے کی وجہ سے شدید چوٹیں آتی ہیں۔ پیشاب خطا ہوجاتا ہے اور زبان دانتوں میں آکر کٹ جاتی ہے جبکہ کنورژن میں لاشعور ہشیار رہتا ہے جس کی وجہ سے گرتے میں شیدید چوٹ لگنے کا امکان کم ہوتا ہے اس کےساتھ ساتھ کنورژن کا دورہ ہمیشہ لوگوں کی موجودگی میں اور مریض کے جاگنے کے دوران پڑتا ہے۔ گہری نیند میں، نشہ آور ادویات یا ہائپنوسز کے زیر اثر اس کی علامات ختم ہوجاتی۔
کنورژن کو صحیح طور پہ سمجھنے کے لیئے مختلف معاشرے اور ان کا فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی تک مغربی ممالک میں کنورژن کے ایسے کیسز جو آسیب زدگی کی علامات کےحامل ہوں تقریبا اتنے ہی تھے جتنے اب مشرقی ممالک خصوصا انڈیا اور پاکستان میں ہیں مگر جیسے جیسے وہاں مافوق الفطرت مخلوقات کے بارے میں لوگوں کا شعور بڑھتا گیا یہ علامات ختم ہوتی گئیں دلچسپ بات یہ ہے کہ خلائی مخلوق سے ملاقات کے کیسز بڑھ گئے۔ ہاں جسمانی بیماریوں کی علامات کی کیسز اب بھی پائے جاتے ہیں۔
مشرقی ممالک میں آسیب زدگی کی علامات والی کنورژن کے کیسز بہت زیادہ ہیں اور دیہی علاقوں میں ان کی تعداد پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ یقینا آپ اس کی وجہ سمجھ گئے ہونگے۔
کنورژن کے علاج میں کچھ اہم باتیں ضرور ذہن نشین کرلیں پہلی بات مریض جو کر رہا ہے اس سے وہ خود بھی واقف نہیں ہوتا تو کبھی بھی یہ نا سمجھیں کہ مریض آپ کو یا لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے۔ یہ سب اس کے لاشعور کی کارستانی ہے جس سے اس کا شعور بالکل واقف نہیں۔ دوسری بات کنورژن کی تشخیص کے لیئے ماہرین سے رجوع کریں تاکہ سب سے پہلے جسمانی تجزیہ کیا جاسکے۔ کنورژن یا مرگی کا حتمی فیصلہ صرف دماغ کا MRI اسکین کروا کر ہی ممکن ہے۔ لہذا کبھی بھی جسمانی چیک اپ کے بغیر نا صرف کنورژن بلکہ کسی بھی ذہنی بیماری کا علاج شروع نا کروائیں جب تک یہ تصدیق نا ہوجائے کہ مریض کو کوئی جسمانی بیماری یا مسئلہ نہیں ہے۔
کنورژن کے علاج کے لیئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان مسائل پہ توجہ دی جائے جن کی وجہ سے مریض ذہنی دباو کا شکار ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ذہنی مرض کا علاج جسمانی بیماری ہی کی طرح ہمیشہ ماہر سے کروائیں گھر والوں کی سب سے اہم ذمہ داری ایسی صورت میں یہ ہوتی ہے کہ وہ مریض کا مسئلہ سمجھ کر اس کا ساتھ دیں اور اسے زبردستی صحیح رویہ رکھنے پہ مجبور نہ کریں۔ کیونکہ یہ اس کے لیئے اتنا ہی ناممکن ہے جیسے ایک بغیر ہاتھ والے بندے کا ہاتھ سے کوئی کام کرنا۔ جب تک کہ وہ مکمل صحتیاب نا ہوجائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply