خامہ بدست غالب۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا مَیں تو کیا ہوتا

ستیہ پال آنند
کسی’’ فاعل کا‘‘ خود میں’’ منفعل‘‘ بننا ہے نا ممکن
لہذا ہم ’’موثر ‘‘ کو ’’متاثر‘‘ کر نہیں سکتے
تو پھر ’’لا شئے ‘‘ سے ’’شئے‘‘ کا اخذ ہونا کیسے ممکن ہے؟

مرزا غالب
ذرا پھر سے کہو ،بسیار گو، اےپیر ِ نا بالغ
تمہاری گنجلک ترتیب لفظوں کی ہے ژولیدہ
اسے آسان لفظوں میں کہو تو میں بھی کچھ سمجھوں

ستیہ پال آنند
ذرا دیکھیں تو اپنا مصرع ٗ اولیٰ ، جناب ِ من
کہ میں جب ’’خود‘‘ نہیں تھا تو یقیناً میں خدا ہی تھا
نہ ہوتا تو خدا ہوتا ،’’ نفی ‘‘میں یہ بھی مثبت ہے
یہی ہے ’’فعل‘‘ کا ’’فاعل‘‘ سے چل کر ’’منفعل‘‘ بننا
نہیں ہےکیا ؟ یقینا ً ’’رائے قاطع‘‘ ہے یہ استنتاج
ذرا دیکھیں تو یہ مصرع فقط اک بات کہتا ہے
کہ جو اثبات اور تردید کا مسکت مرقع ہے
کہ جس میں علت و معلول پر مبنی نہیں کچھ بھی

مرزا غالب
’’تم اپنی خُو نہ چھوڑو گے ، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟‘‘
ارے لڑکے، تصّوف کا یہ قول ِ معتبر سمجھو
کہ لا شئے خود میں وہ شئے ہے کہ جس میں دونوں شامل ہیں
کہ فاعل منفعل بھی ۔۔۔ جیسے اک سکے کے دو رُخ ہیں
اُسی گردان میں اثر و موثر اور متاثر ہیں
’کہ جب میں کچھ نہ تھا تو در حقیقت مَیں خدا ہی تھا
اور اب میَں ہوں تواپنی اُس خدائی سے مغائر ہوں
’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا مـیں تو کیا ہوتا‘‘
یہی رونا ہے ، ذات ِ عین سے جب منسلک تھا میں
تومیں بھی اس کا حصہ تھا ، برابر اس میں شامل تھا
مگر اب کچھ نہیں ہوں، ’’ڈوب جانا‘‘ اس کو کہتے ہیں

ستیہ پال آنند
مجھے یہ علم ہے، قبلہ، کہ معنی صاف ہے اس کا
نہیں تھامَیں۔۔۔ تو ذات ِ عین کا حصّہ برابر تھا
جو میں اب ہوں۔۔۔ تو ذات عین کا حصہ نہیں ہو ں میں

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply