برف لیموں اور ڈپٹی۔۔ثنا اللہ احسن

یہ سن 91-92 کی بات ہے۔ انٹر کے امتحانات سے فارغ ہو کر ہمارے پاس پانچ چھ ماہ کی مکمل فراغت تھی۔ اس دوران ہم نے کئی  کمپیوٹر کورسز مثلا” ڈوس، لوٹس، ورڈ اسٹار، فوکس پرو وغیرہ بھی کرلئے۔ اس وقت تک ونڈوز نہیں آئی  تھی۔ ونڈوز کا پہلا کورس ہم نے سن 1994 میں کیا۔ بہرحال اتنی طویل فراغت میں سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اسی دوران بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق ہمارے ایک واقف کار جو کراچی میں کوسٹل پیکرز اینڈ موورز کے نام سے خدمات مہیا کرتے تھے جن کا آفس کلب روڈ پر وزیر اعلی ہاؤس کے بالکل سامنے واقع تھا نے ہمیں آفر کی کہ ان کے ایک دوست نے کراچی سے خواتین کے لئے ایک انگریزی میگزین Women’s Choice کے نام سے نکالنا شروع کیا ہے۔ یہ میگزین پاکستان کے مشہور زمانہ SHE اورWOMEN’s Own کی طرز پر نکالا گیا تھا۔

ہمیں  یہ پیشکش کی گئی  کہ اس میگزین کے آفس میں مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ میں جوائن کر کے کچھ سیکھ لو۔ کام ہماری پسند کا تھا تو فوراً  حامی بھر لی۔ اس میگزین کے ایڈیٹر انچیف لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے پکے لاہوری ایک ایل ایل بی نوجوان سہیل صاحب تھے جو صحافت کے شعبے میں اپنا کیریر بنانے کراچی آئے تھے۔ دیکھنے میں دبلے پتلے معصوم۔ اٹھائیس تیس برس عمر ، نوجوانی میں ہی دل کی اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی تھی۔ بلا کے فطین اور باتوں سے شیشے میں اتارنے والے۔ ان کی قابلیت کے لئے یہی بتانا کافی ہے کہ موصوف نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کے ایک میمن بزنس مین سلیم بندوکڑا کو سنہرے خواب دکھا کر میگزین میں سرمایہ کاری کے لئے راضی کرلیا تھا۔

ڈیفنس فیز2 میں مسجد طوبی المعروف گول مسجد کے سامنے مین روڈ پر ایک عمارت میں آفس قائم کیا گیا۔ ہمارا کام اس میگزین میں یہ تھا کہ مختلف مصنوعات بنانے والی کمپنیز کو اپنے میگزین کا تعارفی بزنس لیٹر روانہ کریں تاکہ ان سے اشتہارات مل سکیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی  انتظامات کی دیکھ بھال۔ مختصر سا  سٹاف تھا۔ نواب شاہ سے تعلق رکھنے والا ایک شفیق نامی نوجوان پیون تھا۔ انجمن آرا اکبر نامی ایک قابل خاتون کے ذمے میگزین کے لئے مواد اکٹھا کرنا اور لکھنا تھا۔ سمجھیے  کہ میگزین کی تمام تر ادارت ان کے سپرد تھی۔

یہ ایک اعلی خاندانی خاتون تھیں۔ فاطمہ ثریا بجیا اور اور انور مقصود کی بہت ہی قریبی رشتہ دار تھیں۔ دو تین مرتبہ انور مقصور صاحب ان سے ملنے آفس بھی آئے۔ یہ صبح نو بجے سے پانچ بجے تک کام میں لگی رہتیں۔ ہم پر خصوصی شفقت فرماتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ لڑکا تھارو جنٹلمین ہے۔ ان سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔اس
آفس میں اگر واقعی کوئی  کام کرتا تھا تو وہ ہم اور میڈم انجمن آرا ہی تھے۔ ایک عابد صاحب تھے جو پکے متحدہ کے کارکن اور عزیز آباد میں نائن زیرو سے چند قدم کے فاصلے پر رہائش رکھتے تھے۔ ان کے سپرد میگزین کی چھپائی  اور لے آؤٹ  کا کام تھا۔یہ سہیل صاحب کے دوست تھے۔ انتہائی  چلتا پرزہ قسم کے گھاک انسان۔

ان دونوں نے ہی مل کر سلیم بندوکڑا جیسے میمن بزنس مین کو سرمایہ کاری کے لئے شیشے میں اتارا تھا۔ آئے دن میگزین کے کسی کام کے بہانے ایک موٹی رقم کا چیک سلیم بندوکڑا سے لکھوا لیتے اور پھر خوب گلچھرے اڑاتے ۔ عابد صاحب سارا دن آفس کی ریسپشنسٹ زبیدہ نامی لڑکی سے گپیں ہانکتے اور نین مٹکا کرتے حالانکہ وہ شادی شدہ اور ایک بچی کے باپ تھے۔ اس میگزین میں کام کے دوران ہم نے گلوکارہ نازیہ حسن کی والدہ منزہ بصیر، معروف مصور اور مجسمہ ساز آذر زوبی، ڈرامہ آرٹسٹ انور اقبال کا انٹر ویو بھی کیا۔

ہمارے آفس کے بالکل سامنے درپن انٹرنیشنل نام کی ریکروٹنگ ایجنسی بھی تھی جو لوگوں کو بیرون ملک روزگار دلاتے تھے۔ اس کی مالکہ مشہور اداکارہ نیر سلطانہ تھیں جنہوں نے ماضی کے مقبول ہیرو اپنے شوہر درپن کے نام پر یہ ایجنسی کھولی تھی۔ نیر سلطانہ اس وقت تک فلموں سے ریٹائر ہو چکی تھیں۔ کبھی کبھی آفس آتی تھیں لیکن کیا پروقار اورخاندانی شخصیت کی مالک تھیں۔ اس ضعیف عمر میں بھی انتہائی  گوری چٹی اور بالکل سیدھی۔ چہرہ مہرہ ایسا کہ انسان خواہ مخواہ متاثر ہوجائے۔ اتنی پروقار ار دبنگ وہ فلموں میں نہیں لگتی تھیں جتنی کہ ان کی اصل شخصیت تھی۔ ان کے انتقال کے بعدشاید درپن انٹرنیشنل بھی بند ہوگئی ۔

اس مختصر سے  سٹاف میں باس تو سہیل صاحب ہی تھے لیکن سب کا آپس میں دوستانہ تعلق تھا۔ جلد ہی ہماری بھی سہیل صاحب اور عابد صاحب سے گاڑھی چھننے لگی۔ سہیل صاحب کا گھر کیونکہ لاہور میں تھا اس لئے انہوں نے رہائش بھی آفس میں ہی اختیار کررکھی تھی۔ شام پانچ بجتے ہی زبیدہ اور میڈم انجمن آرا تو چلی جاتیں۔ اس کے بعد سہیل صاحب کا آفس ان کا بیڈروم بن جاتا جہاں میں عابد صاحب اور سہیل صاحب دیر تک بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے ۔ ہمارے آفس کی عمارت کے پیچھے ڈیفنس فیز 2 کا کمرشل ایریا تھا جہاں ایک بہت پرانا اور مشہور ریسٹورنٹ  سپنزرز کے نام سے قائم تھا اور اب بھی موجود ہے۔ بہت نفیس اور اعلی قسم کا ریسٹورنٹ ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ کراچی میں برگر اور پیزا سب سے پہلے انہوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔ اسپنزرز کے بالکل برابر میں ایک اعوان ریسٹورنٹ تھا جس کو ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ملک صاحب چلاتے تھے۔ رہائش ان کی ریسٹورنٹ کے اوپر تھی۔ اس ریسٹورنٹ میں وہی اعوانوں والے روایتی کھانے جیسے کہ مٹن فرائی ، چکن کڑاہی، فرائی  قیمہ، دال ماش ،وغیرہ ملتے تھے جبکہ شام ہوتے ہی کٹاکٹ، چکن تکہ اور کباب وغیرہ بھی تیار ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ بارونق اور پوش علاقہ تھا۔

ملک صاحب کا ایک بیٹا تھا طارق اعوان۔ زیادہ عمر نہیں تھی یہی کو ئی اٹھارہ انیس سال کا نوجوان، انٹر کا طالبعلم۔ لیکن قد کاٹھ اور جثے سے وہ کوئی  ایسا سادہ لباس مشٹنڈا پولیس آفیسر لگتا تھا جن کو پولیس میں اس لئے بھرتی کیا جاتا ہے کہ کسی حکومت مخالف مظاہرے یا دھرنے کے دوران یہ مظاہرین میں سے ایک ایک کو اپنے بھاری ہاتھ اور تن و توش کے زور پر ایک ہی تھپڑ میں چت کرکے گدی میں ہاتھ ڈال کر گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائل میں اس طرح پھینکتے ہیں جیسے کہ مذبح خانے میں قصائی بکرے کی کھال اتار کر ان کو دوسرے ذبح شدہ بکروں کے ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔ طارق اعوان کی اس شخصیت کی وجہ سے اس کے یار دوست اس کو ڈپٹی کہتے تھے۔ بڑا شوقین مزاج اور یار باش زندہ دل نوجوان تھا۔ وقت سے پہلےہی بہت کچھ سیکھ چکا تھا۔

اس کے پسندیدہ موضوعات خواتین اور ہر وہ شوق جس کا ایک گرم مزاج اور ضرورت سے زیادہ صحتمند نوجوان ذوق رکھتا ہے یا خواب دیکھتا ہے۔ میگزین کے آفس میں ماڈل گرلز اور ایکٹریسز وغیرہ کا آنا جانا لگا رہتا ہے تو بھلا ڈپٹی کی نظر سے یہ سب کیسے اوجھل رہ سکتا تھا۔ سونگھ لیتا ہوا وہ آفس پہنچ جاتا اور جلد ہی اس نے سہیل صاحب اور عابد صاحب سے دوستی گانٹھ لی۔ اکثر شام پانچ بجے کے بعد سہیل صاحب کے آفس میں محفل جمتی اور پھر قہقہوں سے گویا آفس کی چھت اڑتے ہوئے محسوس ہوتی۔ سہیل صاحب پکے لاہوری، عابد صاحب چھٹے ہوئے عزیز آبادی اور ڈپٹی ایک نمبر کا شوقین۔ ہم کیونکہ سیکھنے کے لئے اس آفس میں آئے تھے تو ہم ان تینوں کو استاد کا درجہ دیتے ہوئے یہ سب بھی دیکھتے اور سیکھتے رہے ۔

ان دنوں ایک نوعمر اسٹیج ڈانسر سمیعہ ناز بھی متعارف کروائی  گئی  تھیںِ، بمشکل چودہ پندرہ برس کی عمر ہوگی لیکن بہت مشہور ہوگئی  تھی۔ کراچی کے ہر  سٹیج شو میں ڈانس کرتی تھی۔ ہم نے اپنے میگزین میں کیونکہ سمیعہ ناز کا انٹرویو اور تصاویر شائع کی تھیں تو سہیل صاحب نے ایک دن سمیعہ ناز کو آفس بلا کر “میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں” اور نور جہاں کے مقبول عام “ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی ” کی دھن پر ان کا ڈانس بھی دیکھا۔ اب ایک مختصر سے کمرے میں بھلا کیا ڈانس ہوتا لیکن بہرحال سہیل صاحب نے شوق پورا کیا۔ تماشائیوں میں ہم، عابد صاحب ڈپٹی اور سہیل صاحب شامل تھے۔ یہ ہماری زندگی کا پہلا لائیو مجرا تھاجسے   دیکھ کر ہمارے کان سرخ ہوگئے۔ ۔ مجھے کبھی   بھی مجروں اور خواتین کے لائیو ڈانس میں کوئی  دلچسپی نہیں رہی لیکن اس وقت کیونکہ ہم وہاں موجود تھے اور سیکھ رہے تھے تو ہم نے اس کو بھی اپنی ٹریننگ کا حصہ جانتے ہوئے دیکھا۔سمعیہ ناز اب ڈانس وغیرہ نہیں کرتیں لیکن بے شمار ڈراموں وغیرہ میں اداکاری کر رہی ہیں۔

بہرحال ایک نیو ائیر نائٹ کا ذکر ہے۔ سہیل صاحب شام سے ہی کچھ پینے پلانے کا موڈ بنا کر بیٹھے تھے۔ جن میں  ووڈکا بھی منگوالی گئی  تھی۔ عابد صاحب اور ڈپٹی بھی موجود تھے۔ ڈپٹی لاکھ مشٹنڈا سہی لیکن اپنے والد اور چچا سے بہت ڈرتا تھا جو اس پر شیر کی نظر رکھتے تھے۔ ہمارا پیون شفیق چھٹیوں پر نوابشاہ گیا ہوا تھا۔ سہیل صاحب نے ہم سے درخواست کی کہ ذرا نیچے جا کر سبزی والے سے کچھ لیموں اور برف کا انتظام کرو۔ ہم سبزی والے کے پاس پہنچے تو وہ بند ہوچکا تھا۔ برف والا بھی کوئی  نہیں تھا۔ ہم سیدھے ڈپٹی کے والد ملک اعوان کے ہوٹل پر پہنچے۔ ڈپٹی کے والد کاؤنٹر پر موجود تھے۔ہم نے ادب سے سلام کیا۔ وہ مجھے جانتے تھے کہ اکثر آفس کے لئے کھانا وغیرہ انہی کے ہوٹل سے جاتا تھا۔ بعد از سلام ہم نے ملک صاحب سے درخواست کی کہ اگر کچھ لیموں اور برف مل جائے  تو نوازش ہوگی۔ ہماری بات سن کر ملک صاحب نے قدرے چونک کر کچھ بڑی عجیب سی نظروں سے ہمیں سر سے پاؤں تک دیکھا۔ پھر معنی خیز نظروں سے اپنے بھائی  یعنی ڈپٹی کے چچا کی طرف دیکھ کر جو ہماری بات سن کر ہمیں  گھور رہے تھے، ایک طنزیہ مسکراہٹ سے ہمیں  صاف منع کردیا۔

ہماری قطعی سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم نے تو صرف لیموں اور برف مانگی تھی کوئی  چرس یا پستول کی گولیاں نہیں جو وہ اس طرح مشکوک نظروں سے ہمیں  دیکھ رہے ہیں۔ کوئی  پڑوسی کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ سامنے ہی کپوروں والی کٹاکٹ بھوننے والے چولہے کے ساتھ میز پر ایک تھال میں ہرے مصالحوں کے ساتھ لیموں بھی  دھرے تھے۔ برف کی بھی کمی نہ تھی۔ ہم ذرا غصے میں سیڑھیاں چڑھتے آفس پہنچے اور با آواز بلند اعلان کیا کہ برف اور لیموں نہیں ملے پھر شکایتاً  ڈپٹی سے کہا کہ تمہارے والد صاحب نے لیموں اور برف موجود ہوتے ہوئے بھی صفائی  سے منع کردیا۔

ہماری بات سن کر ڈپٹی جو چپلیں اتارے دونوں پاؤں  صوفے پر پسارے نیم دراز جن اور ووڈکا کے پیگ کے تصور سے آدھا پہلے ہی خود پر نشہ طاری کرچکا تھا ایک دم اچھل کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر ایک ساتھ سہیل صاحب اور ڈپٹی نے اپنے کان پکڑ کر ” اوئے تیری تو” کہہ کر زبان دانتوں میں دبا لی۔ اس کے بعد ڈپٹی تو عجلت میں الٹی سیدھی چپلیں پہن کر کان دبا کر دھڑ دھڑ آفس کی سیڑھیاں اتر کر تقریبا” بھاگتے ہوئے مسجد کی طرف روانہ ہو گیا کہ عشا کی  اذان ہورہی تھی
اور لیموں برف کے تقاضے کے بعد اگر اس کے والد اس کو تلاش کرنے نکلیں تو وہ ہمارے آفس کے بجائے مسجد سے برآمد ہو۔

سہیل صاحب نے مجھ سے فقط اتنا کہا کہ یار تم سے کس نے کہا تھا کہ ملک صاحب سے برف اور لیموں مانگنے پہنچ جاؤ۔  ملک صاحب میری بڑی عزت کرتے ہیں۔ ہم اب تک حیران پریشان تھے کہ ہم نے ایسا کیا کردیا ہے کہ یہ سراسیمگی پھیل گئی  ہے۔لیکن اس دن ہم نے یہ بھی سیکھا کہ کبھی بھی رات کے وقت کسی ہوٹل ریسٹورنٹ سے لیموں اور برف نہیں مانگنے چاہیئں
خواہ آپ کا ارادہ شکنجبین یا لیموں پانی پینے کا ہی کیوں نہ ہو۔ کہ زمانہ بڑا کائیاں اور گھاک ہے۔ ہماری طرح گھامڑ نہیں۔
اس واقعے کے کچھ دنوں بعد ڈپٹی کو اس کے والد نے بوریا بستر باندھ کر واپس ایبٹ آباد بھجوا دیا جہاں اس کی چڑ یعنی کتابوں اور  سٹیشنری کی دکان کھلوادی۔ اس کے بعد میں نے ڈپٹی کو نہیں دیکھا لیکن اس کی زندہ دل اور قابل سنسر باتیں اور لطیفے بہت یاد آتے ہیں۔
نوٹ۔ اس کہانی  کے تمام واقعات، کردار اور مقامات سو فیصد معہ اپنے ناموں کے اصلی اور حقیقی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply