منتظر فیضؔ تھے جن لمحوں کے حد سے زیادہ
آن پہنچا ہے وہی دن کہ تھا جس کا وعدہ !
ساٹھ سالوں سے میرا مان کچلنے والے
جان لے اب کہ ترا یوم جزا دور نہیں
وہ نفس، سلب کیا کرتا تھا تو جن کے حقوق
جاگ اٹھے ہیں، تھکن سے کوئی اب چور نہیں
عزم تازہ ہے، اب اس جوش کا یہ سیل رواں
کوئی دن جاتا ہے سب بند بہا لے جائے
اپنے سینے سے مرے رب کی زمیں بالآخر
بت تری جھوٹی اناؤں کے سبھی اٹھوا دے
جان لے کچھ بھی نہیں کام سیاست میں ترا
راج کیوں ارض خدا پر نہ کرے خلق خدا
روپ کوئی بھی بدل لے، تو کوئی چہرہ سجا
اب ترا کوئی بھی بہروپ نہیں ہم سے چھپا
آزمانا ہو اگر ہم کو تو تیار ہیں ہم
سر نہ اب اپنا جھکائیں گے یہ کھائی ہے قسم
اب کے جو معرکہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ووٹ جیتے گا، ترا زعم زمیں پر ہوگا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں