• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • صحافت کے گھس ببیٹھیوں‌ سے نجات دلانے کا یہی وقت ہے۔۔سید عارف مصطفٰٰی

صحافت کے گھس ببیٹھیوں‌ سے نجات دلانے کا یہی وقت ہے۔۔سید عارف مصطفٰٰی

 ڈاکٹر شاہد مسعود کا بت منہ کے بل گرتا دیکھنا کوئی اچھا منظرنہیں ۔۔۔ لیکن یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ زینب کیس کے مجرم عمران علی کے حوالے سے ان کے 18 لرزہ خیز انکشافات میں سے کوئی ایک بھی درست ثابت نہ ہوسکا اور بالآخر وہ قطعی سفید جھوٹ بولنے کے مرتکب ثابت ہوئے اور یہ نتیجہ چونکہ ایک ایسی تحقیقاتی کمیٹی کی تفتتیشی و تحقیقاتی رپورٹ کا حاصل ہے جو کہ سپریم کورٹ نے از خود تشکیل دی تھی اور جو ایف آئی کے ڈی جی بشیر میمن کے زیرکمان تھی اور نہایت پروفیشنل ماہرین پہ مشتمل تھی ۔

چنانچہ اسے کسی بھی جانب سے رد نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ لیکن ایسا اب نہیں تو بعد میں کسی روز ، ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ اینکر کی کرسی پہ بیٹھ کر شاہد مسعود کے تخیلات کی فتوحات روز بروز بڑھتی چلی جارہی تھیں اور وہ من گھڑت واقعات و نکات کو حقائق کی شکل میں پیش کرنے کی وارداتیں اب نہایت دھڑلے سے کرنے کے عادی ہوچلے تھے ۔

واضح رہے کہ ایسے خوابوں‌ اور خواہشوں کو خبر اور اطلاع کا روپ دینے کا کام صرف شاہد مسعود یا عامر لیاقت ہی نہیں کررہے ، بلکہ اس فہرست میں اور بھی کئی ایسے نام شامل ہیں تاہم ان میں ڈاکٹر شاہد مسعود کا جو مقام ہے وہ تو بقول شاعر کچھ یوں ہے کہ ۔۔ ؎بڑھائی یوں‌تو شیخ نے بھی داڑھی سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!

لیکن خوابوں کے سوداگروں کے ساتھ ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، اسے سمجھنے کے لیے ذرا سا غور و فکر بہرحال درکار ہوتا ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ خواب دیکھنا کسے پسند نہیں ۔ خاص طور پہ وہ خواب جن میں کوئی اپنی امنگوں اور آرزوؤں کو پورا ہوتے دیکھے ۔ ایسے خواب تو انسانی نفسیات کا حصہ ہیں‌ اور کچھ لوگ انسانی نفسیات کی اسی کمزوری کو بھانپ لیتے ہیں اور ان کے دل و دماغ کو اپنی مٹھی میں لینے کے لیے  ان کے خوابوں‌ کو پورا کرنے والی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ ایسے لوگ یہاں وہاں ہمارے چاروں‌ طرف موجود ہوتے ہیں اور گاہے بگاہے ہمارے قریب بھی آجاتے ہیں کبھی دوست کے روپ میں کبھی کسی تاجر و بیوپاری کے بہروپ میں اور کبھی کسی اہل علم یا اہل سیاست کے ماسک کے پیچھے۔

لیکن اگر وہ صحافت کے شعبے سے منسلک ہوں ‌تو کسی نہ کسی طرح ٹی وی اینکر بننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی ٹاک شو کی مسند پہ براجمان ہوکے ناظرین کو مزید نئے خواب دکھا سکیں اور اس کی خاطر وہ ایسی خبریں گھڑنے لگتے ہیں اور ایسی رپورٹیں پیش کرنے لگتے ہیں جو کہ خوابوں کو خواہشوں میں بدلتی ہیں‌ اور وقتی طور پہ لوگوں‌ کو جذباتی تسکین فراہم کردیتی ہیں‌ اور خواب دیکھنے کے رسیا لوگ ان کے مداح بن جاتے ہیں اور یوں ریٹنگ کی دوڑ میں لگے میڈیا مالکان کے کاندھوں پہ سوار ہوکے ڈاکٹر شاہد مسعود اور عامر لیاقت جیسے لوگوں کو محض ریٹنگ کی اٹھان کی قیمت پہ یہ خواب آور و جذبات انگیز کھیل کھیلتے رہنے کے مواقع مسلسل فراہم ہوتے چلے جاتے ہیں۔

چونکہ شاہد مسعود اور عامر لیاقت جیسے افراد اپنے پروگراموں کی سستی مقبولیت کی خاطر بتدریج بہت بے خوف ہو تے چلے جاتے ہیں لہٰذا وہ رفتہ رفتہ ہر طرح کی سنسنی خیزی  کو  اپنی پہچان اور اپنا شعار بنالیتے ہیں اور اس کے لیے  وہ کسی بھی طرح کی ایسی خبریں گھڑنے لگتے ہیں جو کہ چونکانے کا سامان رکھتی ہوں‌اور وہ عوام کی بھرپور توجہ حاصل کرسکیں ۔ مگر اس طرز صحافت سے شاید عوام میں چند لوگوں ‌کو تو تسکین سی مل جاتی ہے لیکن پھر خبر اطلاع نہیں رہتی محض مال تجارت بن جاتی ہے ۔۔

یہ کھیل بالخصوص شاہد مسعود تو بہت عرصے سے کھیلتے چلے آرہے ہیں لیکن پھر وہی ہوا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ۔۔ ان کی بدقسمتی کہ وہ زینب کیس کو بھی اپنی من گھڑت فیکٹری کا خام مال بنانے کی کوشش میں دھر  لیے  گئے کیونکہ اس جانب ساری قوم کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں اور جب انہیں سپریم کورٹ نے اپنے سامنے طلب کیا تو انہوں نے عجب احمقانہ قسم کی نکتہ چینی اور گول مول اعتراضات کا سہارا لے کر معاملے کو گھمانے کی کوششیں کیں لیکن چونکہ سپریم کورٹ اس معاملے میں اس حد تک سنجیدہ تھی کہ اس نے معاملات کی سمجھ اور تفہیم کے لیے  20 دیگر ممتاز ٹی وی اینکروں‌کو بھی طلب کیا ہوا تھا لہٰذاان کی ایک نہ چلی اور معزز عدالت عظمٰی  نے حقائق کی چھان بین کے لیے  مذکورہ کمیٹی یا جے آئی ٹی قائم کردی ۔۔۔ جس کی ایک ماہ کی محنت شاقہ کے نتیجے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوکے رہا ۔

اب جبکہ شاہد مسعود کے جھوٹ کی گٹھری بیچ چوراہے پہ کھل گئی ہے یہ حقیقت پوری طرح ثابت ہوگئی ہے کہ صحافت کے میدان میں گھس بیٹھ کرنے والے غیرصحافی لوگ بالآخر ایک دن ایکسپوز ہو ہی جاتے ہیں اور اپنے اصل پیشے کو چھوڑ کے میڈیا میں آنے والوں کی وجہ سے دونوں شعبوں‌میں ابتری مقدر بن جاتی ہے ایسے لوگ اپنے اندرونی احساس کمتری کو غیر معمولی انداز برتری اپناکے ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے  آؤٹ آف دے وے ٹائپ سنسنی پرور صحافت پیش کرنے میں جُت جاتے ہیں اور اعلیٰ صحافتی اصولوں اور اقدار کا خون کردیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور یہی کام ڈاکٹر شاہد طویل عرصے کرتے چلے آرہے تھے ، ایک زینب کیس ہی نہیں ، وہ آئے دن مختلف پروگراموں‌میں‌عجیب و غریب انکشافات کرنے کے عادی ہوچلے تھے لیکن نجانے انہیں کیوں‌غیرصحافی پن کی چھاپ کی وجہ سے رعایت اور طرح دی جاتی رہی ۔ اب جبکہ تحقیقات سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہ خود پہ بھروسہ کرنے والے ناظرین سے دھوکہ کرنے کے عادی ہوچلے ہیں تو لازم ہے کہ انہیں اس بات کی مثالی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کیمرے اور مائیک کے بل پہ عوام کے اعتماد کا یوں خون کیا جانا ممکن نہ رہے اور کوئی بھی صحافت کے نام پہ پرنٹ   میڈیا  یا الیکٹرانک میڈیا کو مشکوک بنادینے کے سنگین جرم کا اعادہ نہ کرسکے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply