مُلا ملٹری الائنس کا ماضی اور حال!

مُلا ملٹری الائنس کی اصطلاح ایک نئی سیاسی اصطلاح ہے۔ جو سال2002میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے)کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد رواج ہوا ۔ اصطلاح کی وضع اور رواج ہونے کی تاریخ تو بہت مختصر ہے مگر اس اتحا د کی بنیادیں کئی سال پہلے رکھی گئیں تھی اور یا عملی طور پر یہ اتحاد بہت پہلے قائم ہو چکا تھا۔ سیاسی نظریات اور اصطلاحات وضع کرنے کا عمل ایک مسلسل اور نہ رکنے کا عمل ہے۔ علمی ترقی اور عملی کام کے نتیجے میں نئی اصطلاحات بنتی اور رائج ہوتی ہیں۔ اس طرح کچھ پرانی اصطلاحات کا استعمال متروک ہوجاتا ہے ۔ علوم میں ترقی اور تبدیلی کا یہ عمل جاری و ساری رہتا ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مین سٹریم علماء اور مذہبی ادارے ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں ریاست کے تابع رہے ہیں۔ ہاں علماء کی جانب سے اکا دُکا بغاوت اور ریاست کو چیلنج کرنے کے واقعات بھی موجود ہیں مگر ان میں فرمانبرداری اور اطاعت کا رحجان حاوی رہا ہے۔ شاہی ادوار میں علماء طبقے نے بادشاہوں کو کبھی ظلِ سبحانی، کبھی ظلِ الہی اور کبھی خدا کے نائب کا خطاب اور درجہ دیا ہے۔ مذہبی طبقے کی جانب سے بادشاہ کو الوھیت کا لبادہ پہنانے کے بعد اس کو عوام کی نظروں میں قابلِ اطاعت، قابلِ احترام اور قابلِ عقیدت بنا دیا گیا۔
مُلا ملٹری الائنس عملی طور پر جہادی پراجیکٹ کے ایک تکون کی شکل میں موجود ہے۔ یہ تکون ریاست کی سہولت کاری اور کوششوں سے اور اندرونی اور بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے وجود میں لائی گئی تھی۔ یہ مقدس مثلث دراصل مُلا، ملٹری اور ملیٹینٹ پر مشتمل ہے، جس میں ملٹری نے عسکری تربیت، جہاد کیلئے مالی مدد، ضروری وسائل اور ساز و سامان فراہم کیا۔ مُلا نے جہاد کیلئے مذہبی سازگار ماحول بنایا اور ملیٹینٹ جنگ کا ایندھن بنا۔ جہادی پراجیکٹ کے تحت وجود میں آنے والی یہ تکون پھر سیاسی میدان میں مُلا، ملٹری الائنس کی شکل میں سامنے آئی۔ مُلا ملٹری الائنس کے نتیجے میں اسٹبلشمنٹ نے بڑی تعداد میں علماء کو پارلیمان میں لانے کیلئے راہ ہموار کی، سازگار فضا بنائی اور انہیں ان علاقوں میں جو سٹرٹیجک گیم کے آہم نکتے تھے اقتدار دلایا۔خیبرپختونخوا میں ایم ایم اے نے اکیلے اور بلوچستان میں مسلم لیگ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت جو2002-2008تک رہی بنائی ۔ ریاست اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہی۔ ایم ایم اے کے دور میں نہ صرف ہمسایہ ملک میں افغان طالبان دوبارہ منظم ہوئے اور فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا بلکہ پاکستان کے اندر خاص کر ایم ایم اے کے اکثریتی علاقوں میں بھی مقامی طالبان کی عسکری سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ پاکستانی طالبان کا عروج اور افغان طالبان سے ایک الگ اور جدا تنظیمی اکائی کے طور پر ظہور اسی دور میں ہوا۔ ایم ایم اے کے دور حکومت میں2007کے دوران درجن بھر عسکری تنظیموں پر مشتمل تحریک طالبان پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گزشتہ پچیس تیس سالوں سے علماء کا کردار متنازعہ بن چکا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں جب مذہب کو کمیونزم کے توڑ اور کمزور کرنے کیلئے بطور ایک ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا گیا تو مغربی طاقتوں نے کچھ مذہبی گروپوں اور اداروں کو فنڈنگ شروع کردی لیکن سرد جنگ کے عروج یعنی افغان جہاد کے دوران مذہبی گروپوں اور اداروں کو بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز کے حجم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور اس کی ترکیب اور ساخت میں بھی تبدیلی آئی۔ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک سے بھی بہت زیادہ پیسہ آیا ۔ مذہبی طبقے کو ملنے والے بیرونی فنڈز کے تین اثرات قابلِ ذکر ہیں ۔۔
ایک تو جہاد پراجیکٹ کے تحت آنے والا فنڈ مذہبی سے زیادہ سیاسی مقاصد کیلئے تھا، فنڈز دینے والے ممالک کے اپنے اپنے ایجنڈے تھے جن کو فروغ دینے کیلئے یہ فنڈز استعمال کیے گئے۔
دوسرا مذہبی طبقے کو مختلف مدوں میں بے انتہا فنڈز میسر آنے سے اس کے غلط استعمال یا بدعنوانی کے امکانات بھی بڑھ گئے۔ تیسرا فنڈز چونکہ بنیادی طور پر سیاسی مقاصد کیلئے تھے اس وجہ سے بیرونی فنڈز نے علماء اور ان کے مدرسوں کو مختلف عسکریت پسند تنظیموں سے رابطے استوار کرنے اور ان کو آپس میں جوڑنے میں آہم کردار ادا کیا۔
اس دوران کئی علماء کا طبقہ تبدیل ہوا یعنی زیادہ تر دیہی اور لوئر مڈل کلاس یا لوئر شہری مڈل کلاس سے اپر مڈل کلاس اور بعض اپر کلاس میں تبدیل ہوئے۔ پہلے اگر کچھ بڑے بڑے سجادہ نشینوں کا مراعات یافتہ حکمران طبقے میں شمار ہوتا تھا تو اب بہت سے علماء کو بھی مراعات یافتہ افراد کے کلب میں شامل ہونے کا موقع ملا، کئی علماء نے پراپرٹی، صنعت اور دیگر منافع بخش کاروبار میں سرمایہ کاری کی۔ اگر ریاستی سرپرستی اور آشیرباد نے علماء طبقے کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر مضبوط کیا تو ریاست نے بھی علماء کو کئی طریقوں سےاستعمال کیا۔۔ ایک تو جہادی پراجیکٹ کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے اور ریاستی بیانیوں کو فروغ دینے کیلئے علماء طبقے نے جہاد کے فتوے دئیے اور اسے مذہبی اور اخلاقی جواز مہیا کیا، دوسرا علماء نے طلبہ کو جہاد کیلئے بھیجنے اور بھرتی کرنے کیلئے مدارس کو کھول دیا اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ طلباء کو جہاد پر بھیجنے اور انہیں جانے میں آسانی مہیا کرنے کیلئے مدارس کو بند کیا گیا۔ اس طرح ریاست نے بیرونی دباؤ کو کاؤنٹر کرنے اور مغربی ممالک کو بلیک میل کرنے کیلئے علماء کی ہوا کھڑی کرکے ان کو خوفزدہ کیا۔ ابتداء میں زیادہ تر علماء اور ان کے مدرسے جہاد کی ترغیب میں پیش پیش تھے مگر بعد میں جب جہاد کے فسادی پہلو افشاء ہوتے گئے اور مذہب کے نام پر رچائے جانے والے ڈراموں کا پول کھلتا گیا تو بہت سے علماء نے کنارہ کشی اختیار کی یا لاتعلق ہوتے گئے جبکہ بہت سے مدارس کا عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ قریبی تعلق باقی رہا۔ یہ مدرسے مذہبی انتشار، منافرت اور تشدد پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے جبکہ نسبتًا غیر جانبدار مدرسوں اور علماء نے بھی قوم کو مایوس کیا ہے۔
ایک طرف عسکریت پسند اپنی کارروائیوں کو جائز ثابت کرنے کیلئے کچھ مدارس کے فتوے پیش کرتے تھے مگر دوسری طرف عسکریت پسندی سے لاتعلق مدرسے اور علماء مذہب کے نام پر منافرت، انتشار اور تشدد پھیلانے والوں کے بارے میں خاموش رہے۔ مذہب کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے مذہبی نظریات کو انہوں نے نہ تو چیلنج کیا اور نہ مخالفت کی، کچھ علماء نے مسلکی اختلاف یا دیگر وجوہات کی وجہ سے فساد پھیلانے والوں کی مخالفت کی مگر ان کو خاموش کروا دیا گیا۔عمومی طور پر علماء نے ڈر اور خوف کی وجہ سے یا درپردہ حمایت کی وجہ سے خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ پاکستان میں بھرپور ریاستی سرپرستی میں جدید مذہبی عسکریت پسندی، فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کی پہل سلفیت اوروہابیت نےکی۔۔ جب دیوبند مکتبہء فکر کے افراد کے نظریاتی میلان کو بڑی ہوشیاری اور مہارت سے آلودہ یعنی تبدیل کیا گیا اور اس میں تشدد، فرقہ واریت اور انتہاپسندی کی پیوندکاری کی گئی۔ اس طرح عسکریت پسندی اور پھر بعد میں تکفریت کا رحجان پیدا ہوا۔ وہابیت نے دیوبند مکتبہء فکر کے نظریات کو بہت حد تک تبدیل کردیا، بعد میں ان کی دیکھا دیکھی دیگر مسالک اور فرقوں کے ماننے والوں نے بھی خاص کر اہل تشیع جس کو ایران سے بھرپور حمایت اور مدد ملی فرقہ واریت اور تشدد کی راہ اپنالی۔ اب بہت سی وجوہات کی بناء پر مُلا ملٹری الائنس کمزور پڑگیا، کچھ عرصے سے ریاست اور مدرسوں کے مابین غلط فہمیاں اور دوریاں بڑگئی ہیں۔ ریاست نے اپنی ضروریات اور بدلتی ترجیحات کے تحت مختلف اوقات میں مختلف مسالک اور فرقوں کے علماء کو بے دریغ استعمال کیا۔ اگر افغان جہاد کے دور میں بنیاد پرست گروپوں کی ضرورت تھی تو طالبان کے دور میں بنیاد پرستوں کی جگہ دیوبند مکتبہء فکر کے علماء کو سامنے لایا گیا اور مشرف کے دور میں دیوبند علماء کے ساتھ کچھ بریلوی قسم کے علماء کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی گئی۔
جب تک ریاست کو ان کی ضرورت تھی اور علماء کو ریاستی سرپرستی حاصل تھی معاملات ٹھیک جا رہے تھے، اب نہ تو ریاست کے پاس جہاد پراجیکٹ کیلئے افغان جہاد کے دور جتنے بے پناہ وسائل رہے اور نہ مدارس اب ریاست کو پہلے جیسی حمایت دینے کو تیار ہیں۔ اب مدارس کو قابو کرنے کی کوششوں اور دیگر وجوہات کی بناء پر علماء اور ریاست کے مفادات آپس میں ٹکرانے لگے ہیں، اس لیے مذہبی سیاسی راہنماؤں نے ایجنسیوں کو کوسنا شروع کردیا ہے اب وہ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ مدارس اور طلباء کو استعمال کیا گیا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ سادہ لوح مدارس کے طلباء کے ہاتھوں میں بندوق کس نے تھمائی اور اس کو چلانے کی تربیت کس نے دی۔۔ اس کو بم بنانے یا خود کش حملوں کی راہ پر کس نے ڈالا۔۔؟

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply